ریپ کرنے والوں کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیے: عمران خان


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ریپ کرنے والے افراد کو جنسی طور پر ناکارہ بنا دیا جانا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر اعطم کا کہنا ہے کہ قتل کے مقدمات کی طرح ریپ کے جرم کے لیے بھی درجہ بندی کی جانی چاہیے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’فرسٹ ڈگری‘ میں آنے والوں کو آپریشن کے ذریعے ناکارہ کر دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پڑھا ہے کہ ایسا دنیا کے کچھ ممالک میں بطور سزا کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم کا یہ بیان پاکستان میں ریپ کے ایک حالیہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر سخت ردعمل اور ملک کے مخلتف حصوں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد سامنے آیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی چینل 92 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ حکومت میں آئے تھے تو ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے تناظر میں وہ سرے عام پھانسی کے حق میں تھے تاہم انھیں مشورہ دیا گیا کہ ایسا کرنے سے عالمی ردعمل ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کا بل منظور

موٹروے ریپ کیس: وزیراعلیٰ کے مطابق ایک ملزم نے گرفتاری کے بعد ’اعتراف جرم کر لیا ہے‘

گجرپورہ واقعے کی کوریج: کیا پاکستان میں میڈیا کا کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟

https://twitter.com/MoeedNj/status/1305506945353347074

یاد رہے کہ رواں ہفتے ایک خاتون کے ساتھ گجرانوالہ جاتے ہوئے سڑک پر ڈکیتی اور ریپ کی واردات پیش آئی تھی جس میں مبینہ طور پر ان کے تین بچوں کے سامنے دو افراد نے ان کا ریپ کیا۔

اس واقعے کی بڑے پیمانے پر سماجی اور سیاسی حلقوں میں مذمت کی جا رہی ہے اور حزب اختلاف کی جانب سے حکومت اور پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ریپ کے مجرموں کو سرعام پھانسی کی سزا کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔

تاہم وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایسے مطالبات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے تشدد میں مزید اضافہ کا سبب قرار دیا تھا۔

انھوں نے ایل ٹویٹ میں کہا تھا کہ وزراء اور پڑھے لکھے طبقات کی جانب سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایسی باتیں کرنا ’ہمارے معاشرے کی متشدد سوچ کا عکاس ہے، جو تشدد کو ہر مسئلے کا حل سمجھتی ہے۔‘

ان کے خیال میں ایسے جرائم کے لیے اسلامی سزاؤں کا مطالبہ کرنے والوں کو ان کے طریقہ کار کی پیچیدگیوں کا اندازہ نہیں اور یہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہے ہیں۔

ان کے بقول مطالبہ کرنے والوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’کسی کو بھی پکڑ کر لکٹایا جانا ممکن ہے۔ ‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قانون پہلے ہی منظور

یاد رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے یکم جولائی کو متفقہ طور ایک ترمیمی بل منظور کیا تھا جس میں بچوں سے ریپ کے مرتکب مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزا سمیت دیگر سخت سزاؤں کی منظوری دی گئی تھی۔

اس بل کو قانون ساز اسمبلی میں پیش کرنے والے وزیر احمد رضا قادری کا کہنا تھا یہ قانون سخت ضرور ہے مگر اس کو ایسے جرم کے خلاف نافذ کیا جا رہا ہے جو انتہائی غیر انسانی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس بل میں دفعہ 377 اے میں ترمیم کی گئی ہے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے شخص کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کے علاوہ سزائے موت اور عمر قید میں سے کوئی بھی ایک سزا دینے کی تین تجاویز ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس بل کی منظوری پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس ترمیمی بل کو کابینہ سمیت قانون ساز اسمبلی سے منظور کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا مگر قانون ساز اسمبلی کے اراکین نے اس جرم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسے متفقہ طور پر منظور کیا کیونکہ ان کے مطابق ’ہمارے پاس اس سخت قانون سازی کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم انصار برنی ٹرسٹ کے سربراہ انصار برنی نے اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس قانون سازی کی سخت سے سخت مزمت کرتے ہیں کیونکہ یہ قانون سازی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

’آپ نے ایک ایسے ملک میں یہ قانون سازی کی ہے جہاں امیروں کے لیے الگ قانون، غیریبوں کے لیے الگ قانون اور حکمرانوں کے الگ قانون ہے۔ میرے نزدیک یہ نہ صرف مضحیکہ خیز ہے بلکہ انصاف کے ساتھ مذاق اور اس کا قتل ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’اس سے میرا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایسا عمل کرنے والے شخص کو کوئی سزا نہ دی جائے۔ میرے نزدیک ایسے شخص عبرتناک سزا دیں اس کو عمر قید جیسی سزا دیں یا پھر ایسی سزا دیں جس سے اسے اس جرم پر شرمندگی ہو۔ آپ ایسے ملک میں یہ سزا منظور کر رہیں جہاں لوگ پیسے لیکر جھوٹی گواہی دیتے ہیں ایسی صورت حال میں کوئی بھی شخص اپنے مخالف کے خلاف کیس بچے کو کھڑا کر کے اسے یہ سزا دلوا سکتا ہے۔ ایسا جرم کرنے والے کو عبرتناک سزا دیں مگر سزا کا تماشا نہ بناہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp