حوا کی بیٹیوں کو تذلیل سے بچائیں


تاریک رات میں ہونے والا جنسی درندگی کا سانحہ موٹروے ظلم و بربریت کے ایسے انمٹ نقوش اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے جنہیں بھلانے کے لئے ایک عرصہ درکار ہے۔ معصوم بچوں کے رگ و پے میں سرایت کر جانے والے خوف کے سائے جانے کیسے ختم ہوں گے۔ جانے کیسے وہ بھول پائیں گے ظلم کی اس تاریک رات کو جس نے ان کے دل و دماغ کے ساتھ ان کی روح کو بھی چھلنی کر دیا ہے۔ جانے کب ان کے ذہنوں پر چھائے خوف و دہشت کے اثرات قصہ پارینہ بنیں گے اور جانے کب ان کے خوفزدہ چہروں پر دوبارہ مسکراہٹ بکھرے گی۔

اس واقعہ میں جہاں ایک طرف انسان کے بھیس میں چھپے درندوں نے بربریت کے پہاڑ توڑے وہیں پر پولیس کے سی سی پی او عمر شیخ نے اپنے انتہائی غیر ذمہ دارانہ طور پر بربریت کا شکار ہونے والی خاتون کو ہی لاپروا کہہ کر اس بے گناہ خاتون کے زخموں پر بارہ مسالے ڈالنے کا کام کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انچارج لاہور پولیس تگ و دو کر کے جنسی درندوں کو گرفتار کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچاتے مگر انہوں نے ظلم کا شکار ہونے والی خاتون پر ہی ایسے اعتراضات کرنے شروع کر دیے جو کہنے کا استحقاق صرف اہل خانہ کو تھا۔

مزید براں وزیراعلی پنجاب کی آئی جی پنجاب اور دیگر حکومتی نمائندگان کے ساتھ ہونے والی بے مقصد پریس کانفرنس نے بھی نئے سوالات پیدا کر دیے۔ جن ملزمان کی تصاویر حکومتی اکابرین نے پریس کانفرنس میں دکھائی تھیں، میڈیا ایک دن پہلے ہی ان ہوس پرستوں میں سے ایک درندے عابد کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا جو کہ ایک عادی مجرم ہے اور پہلے بھی ایسے گھناؤنے کام کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہ تاثر عام تھا کہ جیسے کچھ ہی گھنٹوں میں یہ ظالم درندے کسی فرضی انکاؤنٹر میں اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے مگر اگلے ہی دن مشتبہ ملزموں میں سے ایک ملزم وقار الحسن خود پولیس کے سامنے پیش ہو گیا اور اس واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کا برادر نسبتی عباس بھی آج پولیس کے سامنے پیش ہو گیا اور وہ بھی واقعہ میں ملوث ہونے سے انکاری ہے جبکہ میڈیا میں چلنے والی خبروں کے مطابق دیپالپور سے گرفتار ہونے والے ایک تیسرے ملزم شفقت نے اقرار جرم کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم عابد کی گرفتاری کے لئے تگ و دو جاری ہے۔

الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے طول و عرض سے ہر خاص و عام کی جانب سے ان درندوں کو عبرتناک سزائیں دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ واقعہ میڈیا کی وجہ سے اپنی جگہ بنا گیا مگر بہت سارے ایسے واقعات ہیں جو اپنی سنگینی کے باوجود میڈیا میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ رائیونڈ سٹی میں بھی ایک ہفتہ قبل دوران ڈکیتی خاوند اور بچوں کے سامنے حوا کی بیٹی کی عصمت دری کی گئی۔ واقعہ کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے مگر تاحال اس مقدمہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہے اور وہ درندے آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔ شاید وہ واقعہ میڈیا میں جگہ نہیں بنا پایا اس لیے کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

مذکورہ واقعہ کی ہر مکتبہ فکر نے مذمت کی لیکن اس کے باوجود گزشتہ چار دنوں میں ایسے واقعات میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔ آج ہی کے دن مختلف شہروں سے اجتماعی عصمت دری کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ کہیں سوتیلا باپ درندہ بن گیا اور کہیں سہیلی کے بھائی نے شیطان کا روپ دھار لیا، کہیں کمسن بچے ذہنی مریض درندوں کا شکار ہو رہے ہیں اور کہیں حوا کی بیٹیاں ہوس پرست شیطانوں کا شکار بن رہی ہیں۔ ان واقعات کا بڑھنا لمحۂ فکریہ ہے۔

اس سے پہلے قصور کی ننھی پری زینب کا قتل بھی میڈیا کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس کیس میں بھی عمران نامی درندے کو چند ہی دنوں میں گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا گیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مجرمان کو تیز ترین ٹرائل کے ذریعے نشان عبرت بنانے کا نظام بنایا جائے تاکہ یہ جنسی درندے جلد از جلد اپنے عبرتناک انجام تک پہنچ سکیں۔

اس المناک واقعہ کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ یہ تمام تر ظلم اور بربریت سہنے کے باوجود متاثرہ خاتون ان ظالم درندوں کے خلاف مقدمہ درج کروانے پر بھی تیار نہیں تھی۔ اس کی وجہ ہمارے ناکارہ کرمنل نظام انصاف کے وہ سقم ہیں جو متاثرہ خاتون کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ متاثرہ خواتین پہلے ہی اس کرب کو برداشت کر چکی ہوتی ہیں جو ان کی روح کو بھی چھلنی کر چکا ہوتا ہے۔ تھانوں اور عدالتوں کے چکر مظلوم خاتون کے لئے مزید تکلیف اور اذیت کا باعث بنتے ہیں۔

ایسے مقدمات کے لئے خصوصی قوانین بننے چاہئیں۔ خبروں کے مطابق اس کیس میں نامزد درندہ عابد پہلے بھی ایک ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی کر چکا ہے لیکن راضی نامہ کر کے سزا سے بچ نکلا۔ ایسے جرائم میں کوئی ملزم راضی نامہ کرنا بھی چاہے تو قانون میں اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تفتیش سائنٹیفک انداز میں کر کے ایسے مقدمات کی سماعت بند کمرے میں ہونی چاہیے، متاثرہ خاتون کی شناخت چھپانی چاہیے اور انھیں بار بار عدالت بلانے کی بجائے ویڈیو لنک پر ان کا بیان لینا چاہیے۔ مظلوم خواتین کی دادرسی کے لئے ایسے شیطان صفت جنسی درندوں کو ایسی اذیت ناک سزاء دینی چاہیے جس سے وہ دوسرے ظالموں کے لئے نشان عبرت بنیں۔

بحیثیت قوم موٹروے پر ہونے والے اس المناک سانحے سے سبق سیکھتے ہوئے اگر ہم نظام انصاف کو بھی موٹروے کی سپیڈ کی طرح تیز تر کر دیں تو یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی بہتری کا باعث بنے گا۔ اس سے پہلے کہ کوئی نیا سانحہ ہو، حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد ان ناکارہ قوانین میں ترامیم کر کے انہیں کارآمد بنایا جائے تاکہ درندوں کو عبرتناک انداز میں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).