انڈیا چین کشیدگی: کیا چین کے رویے میں نرمی آ رہی ہے؟


भारत और चीन के सैनिक

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر اخبار گلوبل ٹائمز نے اتوار کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ '1962 کے ستمبر کے وسط میں کمیونسٹ پارٹی کے صدر ماؤزے تنگ نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا، میں دس دن اور دس راتوں سے اس بارے میں سوچ رہا ہوں، لیکن مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ نہرو نے ہمیں کیوں اکسایا۔ 58 سال بعد چین کو پھر اسی صورتحال کا سامنا ہے۔‘

ایک دن بعد اخبار لکھتا ہے ‘گیند اب انڈیا کے کورٹ میں ہے۔’

یہ عام خیال ہے کہ یہ اخبار چینی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اور اگر یہ صحیح ہے تو چین یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے امن کے لیے جو کچھ ہو سکتا تھا، کیا ہے۔ اب آگے کیا ہوتا ہے وہ انڈیا پر منحصر ہے۔

جبکہ کچھ عرصہ قبل تک اس اخبار کے لہجے میں سختی ہوا کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور چین سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے پانچ نکاتی ایجنڈے پر متفق

چین نے پانچ انڈین نوجوانوں کو انڈیا کے سپرد کر دیا

چین اور انڈیا سرحدی تناؤ کو کم کرنے پر کیسے آمادہ ہوئے؟

انڈیا سے جنگ جیت کر چین اروناچل پردیش سے پیچھے کیوں ہٹا تھا؟

چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں اگر امریکہ انڈیا کا ساتھ نہ دیتا تو۔۔۔

اسی طرح رواں برس جون میں اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا تھا ‘انڈیا نے اگر چین کو کمتر سمجھا تو وہ اس کی زبردست قیمت ادا کرے گا۔’

भारत चीन सीमा

اس کے ساتھ ساتھ انڈین میڈیا میں بین الاقوامی جریدے نیوز ویک کا ایک آرٹیکل خاصا سرخیوں میں رہا جس کا مضمون تھا 'چینی فوج کو انڈیا کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی، اب شی کیا کریں گے؟'

کل ملا کر گلوبل ٹائمز اور نیوز ویک کے مضامین سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ ’چین پریشان ہے، اسی لیے وہ اب اپنا لہجہ نرم کر رہا ہے، اور اب حالات بہتر کرنے کے لیے جو کرنا ہے انڈیا کو کرنا ہے۔‘

لیکن کیا واقعی یہ سوچنا صحیح ہوگا؟

زبانی جنگ

چین میں فرائص انجام دے چکے انڈیا کے سابق سفیر نلن سوری کہتے ہیں کہ ‘یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ گیند انڈیا کے کورٹ میں ہے، کیونکہ انڈین علاقوں میں دراندازی تو چین نے کی ہوئی ہے۔’

سنہ 2003 سے 2006 تک بیجنگ میں انڈیا کے سفیر رہنے والے سوری یقین دہانی کراتے ہیں کہ دونوں ملک امن چاہتے ہیں، لیکن موجودہ حالات بہت کشیدہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں ‘دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں، تو یہ تصور کر لینا کہ سب ٹھیک ہو چکا ہے، غلط ہوگا۔ اس وقت صورتحال بہت نازک ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔’

بین الااقوامی سٹریٹجی کے ماہر اور دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر ایس ڈی مُنی کہتے ہیں کہ انہیں گلوبل ٹائمز یا چین کی باتوں سے کوئی حیرانی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ مجبوری ہے، اور ایسی ہی صورت حال انڈیا میں بھی ہے۔

پروفیسر مُنی نے کہا ‘آپ دونوں جانب سے دو طرح کی باتیں سنیں گے۔ انڈیا میں چیف آف ڈیفینس سٹاف راوت کہتے ہیں کہ فوج دیکھ لے گی، مودی جی کہتے ہیں کہ جو جس زبان میں بولے گا ہم اسے اسی زبان میں جواب دیں گے۔ جے شنکر کہتے ہیں تمام مسائل حکمت عملی سے حل کریں گے۔ تو یہ دونوں حکومتوں کی مجبوری ہے کہ وہ کہیں کہ ہم لڑائی نہیں چاہتے ہیں لیکن آپ کچھ کریں گے تو ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں، بلکہ آپ پر بھاری پڑیں گے۔’

گلوبل ٹائمز نے جس وجہ سے گیند کو انڈیا کے کورٹ میں ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان 11 ستمبر کو ماسکو میں 5 نکات پر اتفاق ہوا ہے۔ اخبار کے مطابق اس ‘اتفاق رائے’ کی پاسداری مودی حکومت کا بڑا امتحان ہوگی۔

تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ ماسکو میں انڈیا اور چین کے وزراء خارجہ کی ملاقات میں کوئی بڑی بات طے نہیں ہوئی۔

نلن سوری تھنک ٹینک دلی پالیسی گروپ سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘یہ جو پانچ نکات پر رضامندی ہوئی ہے یہ صرف ڈِس انگیجمنٹ کے بارے میں ہیں، یہ فوجی کمانڈر کروائیں گے۔ اس کی پاسداری کیسے ہوگی یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ یہ صرف اصولوں کی بنیاد پر ہونے والی محض رضامندی ہے، معاہدہ نہیں۔ اس بارے میں نہ تو کوئی مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے، نہ ہی کوئی سمجھوتہ یا معاہدہ ہوا ہے۔’

پروفیسر مُنی بھی کہتے ہیں ‘ان پانچ نکات میں کوئی تفصیلی بات تو ہے نہیں، چین نے کچھ ایسا کہا ہو کہ ہم پیچھے ہٹنے والے ہیں، ایسا تو کچھ کہا نہیں۔ انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ فوجی جو باتیں کریں گے، ان پر عمل کرنا ہوگا۔’

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور چین کا سرحدی تنازع کیا ہے؟

چین کے ساتھ 1962 کی لڑائی میں شامل انڈین جنگی قیدیوں کی داستانیں

چین کے ساتھ 1962 کی جنگ میں اگر امریکہ انڈیا کا ساتھ نہ دیتا تو۔۔۔

جب چین میں انڈین سفارتخانہ چاروں اطراف سے گھیر لیا گیا

भारत चीन सेना

آگے کیا ہوگا؟

چین مین انڈیا کے سابق سفیر نلن سوری نے لداخ کے واقعات پر انڈین ایکسپریس اخبار میں ایک تفصیلی مضمون میں لکھا ہے کہ ‘لداخ کے واقعات کے بعد دونوں ممالک اور ان کے راہنماوٴں کے درمیان اعتماد کی فضا بری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘

انہوں نے لکھا ‘لداخ میں ہونے والے واقعات پر انڈین حکومت کا رد عمل ایسا ہونا چاہیے جس سے لگے کہ ملک کی حکومت کی جانب سے رد عمل ہے۔ یہ قوم پرستی یا حب الوطنی کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ملک کی عظمت اور وقار کی بات ہے۔’

پروفیسر منی کہتے ہیں کہ ‘چین آسانی سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے اور انڈیا بھی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ جب تک چین پیچھے نہیں ہٹے گا ہم بھی مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں انڈیا چین کو سخت جواب دے سکتا ہے۔ چین بھی یہ بات جانتا ہے اس لیے انڈیا اس سے سخت سودے بازی کر رہا ہے۔ اس لیے کشیدگی برقرار ہے، زبان جیسی بھی ہو، زمین کے اوپر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں۔’

چین اور انڈیا کی کشیدگی: اب تک کیا ہوا ہے؟

انڈیا اور چین کے درمیان لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس گزشتہ تین برسوں سے مسلسل کشیدگی برقرار ہے۔

سنہ 2017 کے موسم گرما میں دونوں ممالک کی افواج لداخ کے ڈوکلام علاقے میں آمنے سامنے آ گئیں تھیں۔ ایسا تب ہوا جب چین نے وہاں ایک سڑک کی تعمیر کی کوشش کی جس پر انڈیا نے اعتراض کیا تھا۔

اس کے تین برس بعد 2020 میں 15-16 جون کو لداخ کی وادی گلوان میں ایل اے سی پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان پر تشدد جھڑپ ہوئی، جس کے نتیجے میں انڈیا کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ چینی فوجیوں کا بھی جانی نقصان ہوا، لیکن چین نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔

اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان 30-29 اگست کی رات پر تشدد ٹکراوٴ کی خبر آئی اور انڈین فوج نے کہا کہ ‘انڈین فوجیوں نے پینگونگ تسو جھیل میں چینی افواج کے جارجانہ اقدامات کو روک دیا ہے۔’

اس کے ایک ہفتے بعد ایل اے سی پر 1975 کے بعد پہلی بار گولی چلنے کی خبریں آئیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp