موٹروے ریپ کیس: کیا ملزمان کی شناخت ظاہر کرنے سے کیس کمزور پڑ سکتا ہے؟


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں موٹروے ریپ کیس کی تفتیش سے متعلق پولیس کے سابق اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ کیس کی تفتیش میں قواعد و ضوابط اور تفتیش کے اصولوں کی ’خلاف ورزیاں‘ ہوئی ہیں، جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ریپ کا یہ واقعہ لاہور کے قریب پیش آیا تھا جہاں دو افراد نے رات گئے سڑک کنارے اپنی گاڑی میں مدد کے انتظار میں موجود ایک خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ریپ کیا تھا۔

سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خاتون کو رات کے وقت اس راستے پر سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی تاہم سوموار کے روز انھوں نے اپنے اس بیان پر معذرت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق کے بغیر سمجھا گیا۔

صحافی محمد زبیر خان نے اس واقعے کی تفتیش کے حوالے سے دو سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس سے بات کی ہے۔

’ملزمان کی شناخت ظاہر کرنے سے کیس کمزور پڑ سکتا ہے‘

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹرز جنرل آف پولیس کے صدر افتخار رشید کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پی پنجاب انعام غنی نے تفتیش میں کچھ کامیابیاں ملنے کے بعد کیس کی ادھوری تفصیلات ظاہر کی ہیں جو مناسب نہیں۔

انھوں نے کہا کہ کیس کی تفتیش کے دوران جب تک ملزم گرفت میں نہ آ جائیں اس وقت تک کسی قسم کی تفصیلات منظر عام پر آجانے سے اس کا فائدہ ملزمان کو ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریپ کرنے والوں کو جنسی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہیے: عمران خان

موٹروے ریپ کیس کے ایک ملزم نے گرفتاری کے بعد اعتراف جرم کر لیا: وزیراعلیٰ پنجاب

گجرپورہ واقعے کی کوریج: کیا پاکستان میں میڈیا کا کوئی ضابطہ اخلاق ہے؟

موٹروے واقعہ اور میڈیا پر ’شناخت پریڈ‘: ’متاثرہ خاتون کی اصل آزمائش تو اب شروع ہو گی‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسا ملزم جس کی جرائم کی ایک تاریخ ہو اور اس کو یہ پتا چل جائے کہ اس کا پیچھا ہو رہا ہے تو ایسے ملزم کو قابو کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔

سابق آئی جی پی اسلام آباد طاہر عالم کا کہنا تھا کہ جس طرح پریس کانفرنس میں ملزمان کی تصاویر جاری کی گئیں اس سے ممکنہ طور پر عدالت میں یہ کیس کمزور پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملزم کی شناخت قانون اور عدالت میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شناخت کا یہ عمل پولیس عموماً انتہائی رازداری میں مکمل کرواتی ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ مجسٹریٹ سے اجازت لی جاتی ہے۔ جس کے بعد ملزم کو جیل بھیجا جاتا ہے۔ جیل میں مجسٹریٹ کی نگرانی میں ملزم کے قد کاٹھ شکل صورت سے ملتے جلتے افراد کو کھڑا کر کے متاثرہ فرد اور گواہاں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملزم کی شناخت کریں۔‘

انھوں نے کہا ’شناخت کے اس تمام عمل کی نگرانی اور ذمہ داری مجسٹریٹ کی ہوتی ہے۔ عدالت میں جب ٹرائل شروع ہوتا ہے تو شناخت کی رپورٹ مجسٹریٹ پیش کرتا ہے جس کو اہمیت دی جاتی ہے۔‘

طاہر عالم کا کہنا تھا کہ اب جب کہ ملزماں کی تصاویر اور شناخت وغیرہ سب کچھ اعلیٰ سطح پر سامنے لایا گیا ہے، تو اس پر ملزمان عدالت میں یہ مؤقف اختیار کر سکتے ہیں کہ متاثرہ فرد یا گواہاں کی جانب سے شناخت کے عمل سے پہلے ہی ان کی شناخت کروا دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دفاع کے اس نکتے کو پاکستان سمیت پوری دنیا کی عدالتیں بڑی اہمیت دیتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مرکزی ملزم کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس کا ڈی این اے میچ کر چکا ہے۔

’یہ اچھا ثبوت ہے مگر عدالتوں میں قرار واقعی سزا کے لیے ڈی این اے کے ساتھ دیگر ثبوت بھی پیش کیے جاتے ہیں جس سے اس کو قرار واقعی سزا ملتی ہے۔ اب اگر ثبوت صرف ڈی این اے ہی ہوگا تو پھر ملزم کو ملنے والی سزا میں نرمی ہو سکتی ہیں۔‘

دوران تفتیش رازداری کی اہمیت

افتخار رشید کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پولیس تفتیش کو ٹھیک رخ پر لے کر گئی مگر ’نجانے کیوں تفتیش کے ایک بنیادی نکتے رازداری کو نظر انداز کیا گیا۔‘

انھوں نے کہا ’کسی بھی کیس کی تفتیش کے دوران رازداری انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس دوران بیان بازی سے نہ صرف پرہیز کرنا چاہیے بلکہ میڈیا کو بھی تفتیش کے اہم نکات نہیں بتانے چاہییں۔ اس کیس کی تفتیش کے دوران نجانے کیوں مختلف قسم کی تفصیلات منظر عام پر آتی رہی ہیں جس سے ممکنہ طور تفتیش کو بھی نقصاں پہنچا اور ملزم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

طاہر عالم کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کی تفتیش ٹھیک رخ پر چل رہی ہے اور جدید طریقہ تفتیش سے مدد لی جارہی ہے جس میں کچھ اتار چڑھاؤ آنا کوئی بڑی بات نہیں۔

’مگر جس طرح تفتیش کے مختلف امور منظر عام پر آرہے ہیں۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔ لگتا ہے کہ دباؤ کی وجہ سے حکومت بہت حساس ہو چکی ہے، لمحہ بہ لمحہ پولیس کے ساتھ مل کر تفتیش پر نظر رکھ رہی ہے۔ اب پتا نہیں کون یہ تفصیلات میڈیا تک پہنچا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ سنیچر کی شام کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے کہا تھا کہ لاہور کے قریب موٹروے پر چار روز قبل ایک خاتون سے ریپ کرنے والے ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے مگر اب تک میڈیا پر قبل از وقت خبریں چلنے سے ملزمان فرار ہو گئے اور پولیس انھیں گرفتار نہیں کر سکی۔ اس کے بعد انھوں نے اسی پریس کانفرنس میں ملزمان کی شناخت ظاہر کی تھی۔

طاہر عالم کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پی پنجاب نے جو پریس کانفرنس کی تھی، وہ اسی دباؤ کا نتیجہ تھی جس میں انھوں نے اپنی تفتیش کے تمام نکات اور بہت سی ادھوری تفصیلات بھی عوام تک پہنچا دیں جس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رازداری کی اہمیت کا اندازہ قصور میں زینب کیس سے لگایا جاسکتا ہے جس میں حکومت اور پولیس پر بہت دباؤ تھا مگر اس کیس کی تفتیش کے دوران پولیس اور حکومت میڈیا کے ذریعے سے عوام سے رابطہ بھی رکھ رہی تھی مگر میڈیا سمیت حکومت کو بھی کچھ پتا نہیں تھا کہ تفتیش کن نکات پر ہو رہی ہے۔

’زینب کیس میں مجرم کی گرفتاری میں کچھ تاخیر ہونے پر تنقید بھی ہو رہی تھی مگر پولیس اس تنقید کے باوجود اپنا کام کرتی رہی۔ پولیس نے مجرم کی شناخت اور ثبوت اس کی گرفتاری سے پہلے اکھٹے لر لیے تھے مگر جب تک پولیس نے اپنی تفتیش کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں کیا اس وقت تک کوئی بھی چیز منظر عام پر نہیں آئی تھی۔‘

’وقوعہ کا سبب بیڈ گورننس ہے‘

افتخار رشید کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ممکنہ طور پر ’بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے‘۔

ان کے مطابق ’دنیا بھر میں جب شاہراہیں، موٹروے اور نئی سڑکیں بنتی ہیں تو ان کے تیار ہونے سے پہلے ہی ان کی حفاظت، سکیورٹی اور فورس کا تعین کر کے ذمہ داریاں لگانا شروع کر دی جاتی ہیں۔‘

یاد رہے کہ جب پیر کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے موٹروے ریپ کیس میں سی سی پی او لاہور عمر شیخ سے استفسار کیا کہ جب متاثرہ خاتون کی جانب سے موٹروے ہیلپ لائن پر رابطہ کیا گیا تو انھیں بتایا گیا کہ وہ ہائی وے پولیس سے رابطہ کریں اور جب ہائی وے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے متاثرہ خاتون کو مقامی پولیس سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔

سی سی پی او نے عدالت کو آگاہ کیا کہ موٹروے پر سکیورٹی نہیں تھی اور جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس تعنیات نہیں تھی۔ سی سی پی او کا کہنا تھا گذشتہ کچھ برسوں میں مزید موٹر ویز کی تعمیر ہوئی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے پولیس کے پاس وسائل اور نفری کی کمی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ موٹروے دو ماہ پہلے فنکشنل ہوئی ہے اور اس پر کوئی سکیورٹی نہیں ہے، رنگ روڈ تک پولیس کا دائرہ اختیار ہے جس کے بعد موٹرویز پولیس کی ذمہ داری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ سکیورٹی کی ذمہ داری حکومتوں کی ہے اور انھیں اس حوالے سے فیصلہ کرنا تھا جس پر سی سی پی او نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اداروں میں کھچاؤ کی وجہ سے صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس افتخار رشید نے کہا کہ ’میں نے بھی لاہور سے اسلام آباد موٹروے بننے سے پہلے ہی سکیورٹی کے لیے فورس تیار کرنا شروع کر دی تھی۔ جب موٹروے تیار ہوئی اور اس کو کھولا گیا تو اس وقت موٹروے پولیس اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے تیار تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سڑک کو کھول دینا لیکن اس پر حفاظتی اقدمات نہ ہونا اور اس پر توجہ نہ دینے سے لگتا ہے کہ ’اس انتہائی دل دکھا دینے والے واقعے کی بنیاد پہلے ہی پڑ چکی تھی۔‘

طاہر عالم کا کہنا تھا ’جب سڑک کھول دی جائے، ٹول ٹیکس وصول کیا جارہا ہو اور سرکاری خطوط لکھے جا چکے ہوں تو اس میں حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں تھا۔‘

پنجاب حکومت کیا کہتی ہے؟

پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس اس لیے کی کہ مجرم مفرور ہیں اور ان کو عوام کی مدد سے شناخت کیا جانا مطلوب تھا۔

’تفصیلات عوام کے سامنے آنے کے بعد تیزی سے معاملہ حل کی طرف گیا اور اب ایک ملزم گرفتار ہو چکا ہے جبکہ دوسرا ملزم فرار ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے نہایت ذمہ داری سے علاقے کی جیو فینسنگ کی جس کے نتیجے میں مشکوک افراد کا ڈیٹا بیس بنایا گیا اور پھر ملزمان کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔

مسرت جمشید کے مطابق عوام کو مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کرنے میں کوئی قانونی پیچیدگی پیدا نہیں ہوئی۔ اس واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور عوام اس بات میں حق بجانب ہیں کہ انھیں تمام تفصیلات مہیا کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp