مجرم بے چارہ ٹھہرے اور مظلوم قصور وار؟


کھانے کے بعد لطیفوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چودھری صاحب نے اپنی مونچھوں کو بل دیا اور کہنے لگے ”میں بھی ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ پنڈ میں ویاہ (شادی) تھا۔ لڑکوں کی خواہش تھی کہ ناچنے والیاں لائی جائیں۔ میں شہر گیا ایک کنجر سے بات کی۔ جب میں نے اسے کہا کہ وقت پر آجانا تو کنجر نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا چودھری صاحب ہم زبان کے پکے، عزت دار لوگ ہیں وقت پر پہنچ جائیں گے۔“ چودھری صاحب بولے ”کنجر اور عزت دار ہاہاہا“۔ ساری محفل میں قہقہے لگنا شروع ہو گئے لیکن مجھے بالکل ہنسی نہیں آئی۔ میں نے چودھری صاحب سے پوچھ ہی لیا تو کیا پھر وہ کنجر ناچنے والیوں کو لے کر وقت پر پہنچا یا نہیں؟ محفل میں لوگ مجھے اس طرح دیکھنا شروع ہو گئے جیسے میں کوئی آسمانی مخلوق ہوں۔ یہ واقعہ سن کر مجھے ہنسی کیوں نہیں آئی؟ اس کی وجہ ایک واقعہ ہے جو مجھے ماضی میں لے گیا۔

جب میں اٹلی میں تھا تو بطور ترجمان عدالت میں ایک ریپ کیس کی کارروائی سننے جانا پڑا۔ جب کارروائی شروع ہوتی تو عام پبلک اور میڈیا کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جاتا۔ وکلا، پولیس، گواہان اور میڈیکل عملے کے علاوہ کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ملزم ایک انڈین پنجابی تھا اور میں اس کا مترجم تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس کے دوستوں نے گھر میں پارٹی کا اہتمام کیا، کرائے پر کچھ تتلیاں لے کر آئے، رات بھر شراب کے دور چلے، لڑکیوں سمیت ہر شخص نے ووڈکا چڑھایا، رقص و سرود، عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوئے اور آخر تھک کر سو گئے۔ ملزم پارٹی میں شامل نہیں تھا بلکہ وہاں صبح پہنچا۔ چونکہ بے روزگار تھا اس لیے اس گھر جا کر کھانا پکانا و صفائی و و دیگر کام کرتا تھا۔

جس طرح جنگل میں شکار ہوئے کسی جانور کی لاش سے درندے سیر ہو کر جب چلے جاتے ہیں تو گیدڑ یا دیگر جنگلی کتے باقی ماندہ مردہ جسم کا گوشت نوچتے ہیں اسی طرح ملزم نے بھی رات کی بچی ہوئی بوتلوں میں سے شراب چڑھائی۔ نیم برہنہ ایک تتلی کو ناشتہ تیار کر کے دیا۔ لڑکی نے اس پر التفات کی نظر دو ڑائی اور انڈین پنجابی نے اسے رضامندی سمجھ لیا، اس کے اندر کا جانور بیدار ہوا، اس نے دست درازی شروع کر دی، عورت نے شور مچایا، محلے نے پولیس بلا لی۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ باقی کے لمحات طے ہوئے تھے یا نہیں اس مسئلے پر دونوں فریقین میں مقدمہ چل رہا تھا۔ کیس اتنا سادہ نہیں تھا۔ انڈین انکاری تھا اور رشین خاتون نے ریپ کیس کیا تھا۔ دونوں ہی بھرپور ٹن تھے اس لئے کسی بھی ایک فریق کی بات ماننے کے لئے عدالت نے دو سال لگا دیے تھے۔

یہ انڈین پچھلے دو سال سے پہلے جیل میں اور اب ہاؤس اریسٹ پر تھا۔ دو لمحوں کی اس کارروائی نے اس کی زندگی جہنم بنا دی تھی۔ پولیس رات کو دو دو بجے آ کر بھی اس کا دروازہ کھٹکا کر اس سے پوچھتی تھی کہ گھر پر ہویا نہیں اسے ہر ہفتے مقامی انسپکٹر کو رپورٹ دینی ہوتی تھی۔ کوئی مالک اسے کام نہیں دیتا تھا۔ وہ لوگوں سے پیسے لے کر اپنی روٹی کا بندوبست کر رہا تھا۔ اس کا پاسپورٹ تک پولیس کی تحویل میں تھا اور یہ انڈیا واپس بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی کمیونٹی اس سے نفرت کرتی تھی اسے ریپسٹ کہتی تھی۔ جج تاریخوں پر تاریخیں دے کر اسے خجل خوار کر رہے تھے۔ ایک دن میرے سامنے وہ رونا شروع ہو گیا۔ کہنے لگا کہ میں اپنے بچوں کے لئے کمائی کرنے نکلا تھا۔ میری زندگی برباد ہو گئی ہے۔ انڈیا میں کوئی میری بیٹی سے رشتہ کرنے نہیں آئے گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو نے یہ مکروہ کارروائی کی ہے یا نہیں۔ وہ میرے سامنے بھی انکاری ہو گیا۔

ان دنوں میں بھی سی سی پی او پنجاب عمر شیخ جیسی علمی و ذہنی سوچ کا حامل تھا۔ میں نے اس عورت کا لباس، رشین بیک گراؤنڈ، کیس کے دوران بننے والے موقع محل، شراب ووڈکا اور رقص و سرود کا سین اپنے ذہن میں بٹھایا تو مجھے بھی اس خاتون سے اسی طرح بغض ہو گیا جیسا اکثر ہمارے دانشوروں کو ریپ کیس میں ہوجاتا ہے جن کا پہلا تجزیہ عورت کا لباس اور موقع محل پر ہی ہوتا ہے۔ کیس اتنا لمبا ہوچکا تھا اکثر کھانے کے وقفے میں وکلا اور پبلک پراسیکیوٹر مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ میں نے سوچا ان سے بات کروں گا۔

میں نے پبلک پراسیکیوٹر سے کہا کہ یہ خاتون جس طرح کی ہے، جس پیشے سے اس کا تعلق ہے اور جس ماحول میں یہ سارا واقعہ ہوا ہے اس کے بعد بھی کیا وہ انڈین ہی مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ کافی پی رہا تھا۔ اس نے کافی کا کپ نیچے رکھا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ تو تم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی عورت کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہونے چاہیے؟ اس کی کوئی مرضی نہیں ہونی چاہیے؟ اور ریاست کو اس کی آبرو کی کوئی حفاظت نہیں کرنی چاہیے؟ اور کسی بھی مرد کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ ان سے زبردستی کر لے۔

اس کی نظریں میری روح تک کو زخمی کر رہی تھی۔ اتنے نرم انداز نے اس نے مجھے اتنی اہم بات سمجھائی جو شاید میں پہلے کبھی سمجھ نہ سکتا۔ میں بھی ان مونچھوں والے چودھری صاحب کی طرح اس سوچ کا حامل تھا کہ کنجروں کی کون سی عزت ہوتی ہے۔

اس کے بعد پبلک پراسیکیوٹر تو خاموش ہو گیا لیکن میرے ذہن کی کھڑکیاں کھول گیا کہ ریاست اپنے ہر شہری کی حفاظت کرتی ہے اس کی مرضی، اس کی آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ میرا ذہن بنا گیا کہ مجرم کو کبھی بھی کسی قسم کی رعایت نہیں دینی چاہیے کہ وہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف چھو سکے۔ اس اطالوی وکیل نے مجھے وہ سکھا دیا جو کسی معلم نے نہیں سکھایا۔

پاکستان میں سی سی پی او عمر شیخ نے جس طرح کی گل افشانی کی ہے یہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی سوچ کی عکاس ہے۔ بدقسمتی سے ریپ کیس کے بعد ہمارے دانشوروں، قانون کے محافظوں، مذہبی راہنماؤں، سیاسی جغادریوں کا ایسا ہی ردعمل سامنے آتا ہے جس سے بظاہر یہ لگے کہ مجرم بے چارہ تو مجبور ہو گیا تھا اس جرم کے لئے۔ وکٹم نے اسے موقع ہی ایسا فراہم کیا کہ مجرم کو یہ کرنا پڑا۔ اس کا لباس ایسا تھا۔ وہ اکیلی تھی، وہ رات کو نکلی۔ بحیثیت قوم ہمیں اب اس سوچ سے نکلنا ہوگا۔ جرم جرم ہوتا ہے اور مجرم کسی بھی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں ہوتا۔ متاثرہ فریق کے عیب تلاش نہیں کیے جائے، ریاست مجرموں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے ہر شہری کو تحفظ دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ سخت سے سخت سزاؤں کی مطالبہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ معاشرے کی اجتماعی سوچ بدلی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).