موٹروے ریپ کیس: کیا شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں لاہور، سیالکوٹ موٹروے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی؟


میاں شہباز شریف

پاکستان میں لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر ہونے پر ریپ کے بعد لاہور کے سی سی پی او سے لے کر وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل تک کئی افراد اپنے بیانات یا ٹویٹس کے باعث تنقید کی زد میں ہیں۔

گذشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کی گئی ایک ٹویٹ میں وفاقی وزیرِ مواصلات مراد سعید اور قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی دو ویڈیوز پوسٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ہمارے ایم این اے (مراد سعید) اور قائدِ حزبِ اختلاف (شہباز شریف) کے درمیان فرق دیکھیں۔

سیاسی جماعت کے اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ میں لکھا ہے ’ایک واقعے کی ذمہ داری لے رہا ہے جبکہ دوسرا موٹروے بنانے کا کریڈٹ لے رہا ہے۔‘

ویڈیو چلنے پر اس میں بڑے بڑے الفاظ میں ’پی ٹی آئی بمقابلہ پدر شاہی‘ لکھا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک منٹ کی اس ویڈیو میں جہاں ایک طرف 41 سیکنڈ تک مراد سعید ریپ واقعے پر مرد ہوتے ہوئے ذمہ داری قبول کر رہے، وہیں اگلے 18 سیکنڈ میں شہباز شریف کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’چونکہ یہ اندوہناک واقعہ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آیا، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ یہ موٹروے میاں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) نے بنائی۔‘

سوشل میڈیا پر 18 سیکنڈ کی یہ ویڈیو وائرل ہے اور ہر شخص قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف پر شدید تنقید کرتا نظر آ رہا ہے۔

تاہم یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹویٹ میں کسی ویڈیو کا صرف ایک کلپ جان بوجھ کر وائرل کر دیا گیا ہو۔

اب تک اتنا تو آپ بھی جاتنے ہی ہوں گے کہ سوشل میڈیا پر اکثر کسی انٹرویو یا ویڈیو کا صرف ایک حصہ وائرل کر دیا جاتا ہے جسے لے کر تنقید یا واہ واہ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اصل حقائق یا پوری بات کوئی نہیں بتاتا۔۔۔ نہ ہی سوشل میڈیا صارفین کے پاس اتنا وقت ہے کہ غلط اور سیاق و سباق کے بغیر ری ٹویٹ کرنے سے قبل تھوڑی تحقیق ہی کر لیں۔

بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی شہباز شریف نے ریپ واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی جماعت کو موٹروے بنانے کا کریڈٹ دیا؟ یا اصل کہانی کچھ جو 18 سیکنڈ کی ویڈیو میں توڑ مروڑ کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

قومی اسمبلی

شہباز شریف: بجائے اس کے کہ اس ظلم رسیدہ بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھا جاتا، اس پولیس افسر نے جو طعنہ زنی کی اس سے پوری قوم کے دل زخمی ہو گئے

دراصل ہوا کچھ یوں کہ قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپنی 20 منٹ کی تقریر کا آغاز لاہور واقعے کے حوالے سے سپیکر کے اس سوال کا جواب دینے سے کیا کہ ایسے دردناک واقعات کے محرکات اور اس روش کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف نے حکومتی وزرا اور افسران کی کارکردگی اور بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’شومئی قسمت دیکھیے کہ اس دل کو دہلا دینے واقعے کے بعد جب پوری قوم سوگوار تھی تو حکومتِ وقت اس بحث میں الجھی ہوئی تھی کہ اس موٹروے پر کس کا کنٹرول ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قوم کی ایک لاچار اور ظلم رسیدہ بیٹی پر جو ظلم ہوا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دکھ کے ماحول میں حکومت کے ایوانوں اور ٹی وی سکرینز پر یہ بحث چل رہی تھی کہ ’کیا یہ موٹروے پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہے یا وفاقی حکومت کے؟‘

سی سی پی او لاہور کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پوری قوم حیران تھی کہ بجائے اس کے کہ مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام توانائیاں صرف کر دی جاتیں۔۔۔ اس وقت ایک پولیس افسر ایسے بیانات دے رہے تھے جو کوئی ذی شعور شخص سوچ بھی نہیں سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا ’بجائے اس کے کہ اس ظلم رسیدہ بچی کے سر پر دستِ شفقت رکھا جاتا، اس پولیس افسر نے جو طعنہ زنی کی اس سے پوری قوم کے دل زخمی ہو گئے۔ لیکن اس افسر کو لگوانے والے سینہ تان کر اس کے ساتھ کھڑے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس افسر کے بارے میں ایجنسیاں پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ یہ بندہ کرپٹ ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے ایسی پوسٹ پر لگایا جائے لیکن اس کے باوجود ڈھٹائی کے ساتھ اسے تعینات کیا گیا۔ لیکن مکافاتِ عمل دیکھیے کہ چند ہی دن میں اس افسر کا سارا پول کھل گیا۔‘

اس کے بعد شہباز شریف نے ایوان کو قصور واقعے کی یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو یاد ہوگا اس وقت پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت نے وہاں جا کر اس واقعے کو بدترین سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو عمران خان گلا پھاڑ پھاڑ کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے تھے، اس واقعے پر وہ مکمل طور پر خاموش ہیں اور اب تک ایک لفظ نہیں کہا۔ ہر اس وقت جب ایسا واقعہ پیش آیا اور قوم نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے سوال کیا کہ ہمارا وزیرِ اعظم کہاں ہے، وزیرِاعظم صاحب غائب ہو جاتے ہیں۔‘

اس کے بعد انھوں نے آئی جی پنجاب کی جانب سے حکومت کو لکھے گئے خط کا ذکر کیا جس میں موٹروے پر پولیس کی تعیناتی کا مشورہ دیا گیا تھا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’کیا وجہ ہے جب جولائی میں آئی جی پنجاب نے حکومتِ وقت کو لکھا کہ اس موٹروے پر پولیس کی تعیناتی کی جائے، تو اس کو کیوں اگنور کیا گیا، کیوں وقت ضائع کیا گیا، اور اس مشورے پر فی الفور عمل کیوں نہیں کیا گیا۔‘

اس کے بعد شہباز شریف نے گذشتہ ڈھائی سالوں میں ہر معاملے پر غفلت برتنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سپیکِر سے اس واقعے کی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’چونکہ یہ اندوہناک واقعہ سیالکوٹ موٹروے پر پیش آیا، تو میں سمجھتا ہوں کے یہاں پر یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ یہ موٹروے بھی میاں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) نے بنائی۔‘

شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ یہ لاکھ تختیاں لگاتے پھریں مگر پوری قوم جانتی ہے کہ عوامی خدمت کے ان منصوبوں پر کس کے دورِ حکومت میں کام ہوا۔

اس موقع پر شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں مکمل ہونے والے دوسرے منصوبوں کا بھی ذکر کیا جن میں ڈولفن پولیس فورس، اینٹی ٹریررسٹ فورس اور فورنزیک لیبارٹری وغیرہ شامل ہیں۔

تو یہ تھی پوری بات چیت، آئیے اب آپ کو سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر کاٹ کر چلائے جانے والے کلپ اور پوری حقیقیت جانے بنا اس پر کیے جانے والے تبصروں کے متعلق بتاتے ہیں۔

چلیے عام صارفین تو ایک طرف لیکن صحافت کی دنیا میں کئی بڑے بڑے نام وار ٹی وی چینلز نے بھی اتنی زحمت نہیں کی کہ ری ٹویٹس کے میدان میں بازی لے جانے کے چکر میں پڑنے سے قبل پوری تقریر ہی سُن لیتے۔

اے آر وائی سے وابستہ ’سوال یہ ہے‘ شو کی میزبان ماریہ میمن نے 18 سیکنڈ کا کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’کیا یہ شخص واقعی سنجیدہ ہے؟ شہباز شریف یہاں کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘ ساتھ ہی ماریہ میمن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’خواجہ آصف بھی اس غیر حساس بیان کی تائید کر رہے ہیں۔‘

اس پر محمد طارق کلہون نے انھیں جواب میں کہا ’ماریہ میمن اپنی مرضی کا ایڈیٹ نہ کریں۔ ان الفاظ کے ساتھ جو کچھ اور بھی کہا گیا ہے اس کی پوری ویڈیو بھی شیئر کریں۔‘

پی ایم ایل این نامی صارف نے بھی ماریہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’ماریہ، براہ کرم غلط تشریح نہ کریں اور مکمل کلپ دیکھیں۔ صحافت کی اقدار بھی یہی کہتی ہیں کہ کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔‘

صرف ماریہ میمن کے کاٹ کر شئیر کیے گئے کلپ کی بات کریں تو اسے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مرتبہ شیئر کیا گیا ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی یہی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’انتہائی غیر ضروری اور ناقابل قبول بیان ہے۔ خاتون سے زیادتی کے ذکر کے دوران موٹروے کی تعریف سمجھ سے بالاتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اکثریت ان واقعات کی حساسیت ہی نہیں رکھتی۔ شہباز شریف صاحب کا یہ بیان مزید تکلیف کا سبب بنا ہے۔‘

اسی حوالے سے شہباز گل نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’اب دیکھتے ہیں کون شہباز شریف کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ سی سی پی او کے غلط بیان کا بُرا ماننا بھی درست تھا۔ لیکن قائد حزب اختلاف کی اس قدر اخلاق سے گری ہوئی بات پر ان سے استعفی لینا چاہیے اور 30 دن کے لیے اسی موٹر وے پر رات کے وقت گشت کروانا چاہیے۔ دوہرے معیار نہیں چلیں گے۔‘

اس پر اجمل جامی نے انھیں جواب دیا ’لیکن کیا آپ نے سی سی پی او سے استعفی لیا۔۔۔۔؟؟ ان سے استعفی لیا ہوتا تو آج اپوزیشن لیڈر سے استعفے کا مطالبہ انتہائی جاندار ہوتا۔‘

جہاں 18 سیکنڈ کے کلپ کے باعث شہباز شریف پر تنقید جاری ہے وہیں کئی صارفین ان کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

جنید سلیم نامی صارف تو شہباز شریف کے بیان پر پول بھی چلاتے نظر آئے کہ ’کیا موٹروے سانحہ پر اسمبلی میں کھڑے ہو کر موٹروے کا کریڈٹ لینے والے شہباز شریف کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر انھیں قائد حزب اختلاف کے عہدے سے استعفیٰ دے کر قوم سے معافی مانگنی چاہیے یا نہیں۔‘

مراد سعید کی واہ واہ مگر شریں مزاری کی تقریر غائب

اگرچہ لاہور ریپ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شہباز شریف کی 20 منٹ کی تقریر کے بجائے 18 سیکنڈ کا کلپ زیادہ وائرل ہے اور اس کا موازنہ مراد سعید کی تقریر سے کرتے ہوئے ان پر زیادہ واہ واہ اور شہباز شریف پر خوب تنقید جاری ہے لیکن ایسے میں جو ایک تقریر کہیں کھو گئی ہے اور جس کا کہیں ذکر نظر نہیں آرہا وہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری کی تقریر تھی۔

شریں مزاری نے لاہور ریپ پر اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’میں نے سیاست اور پولیس پر بحث سنی ہے لیکن میں یہاں ایک عورت کی حیثیت سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت کو اس طرح نہ کہیں کہ کسی کی ماں ہے، کسی کی بیٹی ہے، بلکہ ایک عورت کو عورت کی حیثیت سے عزت دیں اور اسے وہی سب حقوق دیں جو مردوں کو ملتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میری عزت اس واسطے نہیں ہونی چاہیے کہ میں کسی کی بیٹی ہوں یا کسی کی بیوی ہوں یا کسی کی بہن ہوں۔ میری عزت بحیثیت ایک عورت ہونی چاہیے کیونکہ میں ایک عورت اور اس ملک کی شہری ہوں۔‘

شریں مزاری کا کہنا تھا ’یہ کسی کا حق نہیں بنتا کہ وہ ایسی باتیں کرے کہ آپ اس طرح کا لباس پہنںیں، آپ اس طرح سفر کریں، آپ کسی محرم کو لے کر جائیں، یا آپ اکیلی کیوں سڑک پر پھر رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک مرد اپنی نظر نیچے نہیں رکھ سکتا، اور عورت کو عزت سے نہیں دیکھ سکتا تو اس کو گھر میں بند کریں اور سڑکوں پر نکلنے نہ دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp