مخلوط تعلیم کے دور طالب علمی کی کچھ یادیں


زمانہ تعلیم میں چند برس کو ایجوکیشن میں پڑھ کر اور بعد ازاں طویل عرصہ کو ایجوکیشن والے تعلیمی ادارے میں تدریس سے یہ سیکھا کہ عورتوں سے برابری کی سطح پر عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوستی کا تعلق رکھنا ہرگز کوئی مشکل کام نہیں۔

ہم چار بھائی ہیں، بہن کوئی نہیں۔ گاوں کے ماحول میں بچپن گزرا۔ طبیعت میں کچھ شرمیلا پن تھا۔ اس لیے لڑکیوں سے بات چیت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو اس وقت  بی اے اور ایم اے کی کلاسوں میں کو ایجوکیشن تھی لیکن جس برس ہم بی اے میں پہنچے، اسی سال بی اے میں مخلوط تعلیم ختم کر دی گئی تھی۔ بس سائنس ڈیپارٹمنٹس میں کچھ لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ہماری انگریزی کی کلاس میں بھی ایک لڑکی آتی تھی۔ میں بی اے کے دوسرے سال میں ہفت روزہ گورنمنٹ کالج گزٹ کے اردو سیکشن کا مدیر مقرر ہوا تو مجلس ادارت میں بطور لیڈی رپورٹر ایک لڑکی بھی شامل تھی۔ اس کے ساتھ بات چیت بس دفتری نوعیت تک محدود رہی۔

جب میں ایم اے میں داخل ہوا تو کلاس میں کل چھ سٹوڈنٹس تھے، تین لڑکے اور تین لڑکیاں۔ مہینہ بھر ہم لڑکوں نے لڑکیوں سے کوئی بات نہ کی۔شعبہ فلسفہ میں ایک بریٹ فلوسوفیکل سوسائٹی تھی جس کے لیے جائنٹ سیکریٹری اور خزانچی ہماری کلاس سے لیے جانے تھے۔ مجھے جائنٹ سیکریٹری اور ایک لڑکی کو خزانچی مقرر کر دیا گیا۔

اگلے روز اس لڑکی نے مجھے بلا کر کہا کہ میں اپنے ٹریژرر بننے کی خوشی میں کلاس کو دعوت دے رہی ہوں ، تم لڑکوں کو بلا لو۔ میں نے جواب دیا آج تو میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس نے کہا اچھا تم خود آ جاو۔  چائے پر لڑکیوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ ہم سے ان سے بات کیوں نہیں کرتے۔ میں نے جواب دیا اب کیا کریں گے۔ یوں ہمارا لڑکیوں سے بات کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے تکلفی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔

 لڑکیوں سے دوستی کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ گرمیوں میں چائے پینے کی عادت ڈالنا پڑی۔ اس سے پہلے ہوسٹل میں جونہی گرمیاں شروع ہوتیں، ہم صبح ناشتے میں لسی کا مطالبہ کر دیتے۔ اب اس چھوٹے سے گروپ میں روزانہ ملنا ہوتا تو کچھ کھانا پینا بھی ہو جاتا تھا۔ بوتلیں مہنگی پڑتی تھیں۔ اتنے پیسے کسی کے پاس بھی نہیں ہوتے تھے۔ خیر ایک لڑکی اور میں دوسروں کی بہ نسبت کچھ  زیادہ خرچ کرتے تھے۔ ایک دن میں نے اس لڑکی سے کہا چائے منگواو۔ نجانے وہ کس موڈ میں تھی۔ اس نے مجھے جواب دیا لڑکیوں سے بھی کوئی چائے پیتا ہے۔ میں نے کہا دیکھو میرے ساتھ یہ لڑکی والا نخرہ نہیں چلے گا۔ ہم یہاں سٹوڈنٹس ہیں اور برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں۔ اگر یہ منظور ہے تو ٹھیک ورنہ ہم اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے تعلیمی سیشن لیٹ ہونے کی وجہ سے کوئی ساڑھے تین سال کا وقت اکٹھے گزارا لیکن کبھی کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔

ہمارے معاشرے میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر لڑکا لڑکی آپس میں مل رہے ہیں، بے تکلفی سے بات چیت کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ضرور کوئی افیئر چل رہا ہے۔ کالج میں مجھ سے دو سال جونیر ایک لڑکا تھا، جو افسوس کہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ ایک دن میں ہوسٹل میں ڈائننگ ہال میں کھانا کھا رہا تھا۔ وہ لڑکا بھی اسی میز پر موجود تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ میرا ایک لڑکی سے کیا تعلق ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہم کلاس فیلو ہیں اور بس۔ لیکن اس کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بار بار پوچھے جا رہا تھا کہ کوئی چکر ہے۔ میں نے تنگ آ کر کہا تمھارے اس اصرار کا  کیا سبب ہے۔ تو اس نے کہا میں نے آپ دونوں کے مابین بہت بے تکلفی دیکھی ہے۔ میں نے کہا دیکھو ہماری بہت چھوٹی سی کلاس ہے۔ چند لوگ ہیں، روزانہ کئی گھنٹوں تک اکٹھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کلاس فیلوز کے درمیان بے تکلفی کا ماحول ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دل و نظر کے کچھ معاملات شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ کالج میں جہاں کہیں ملتا وہی سوال پوچھتا۔ ایک دن میں تنگ آ گیا۔ وہ لڑکی کچھ فاصلے پر کھڑی ایک لڑکے سے بات کر رہی تھی۔ میں نے کہا اس کا جو بھی چکر ہے اس کے ساتھ ہے۔ میری اور اس کی بے تکلفی کا سبب بھی یہی ہے کہ ہمارے درمیان کسی غلط فہمی کی گنجائش ہی نہیں۔

اسی دوران یہ ہوا کہ میرے دو دوست بھی ہمارے گروپ میں شامل ہو گئے۔ میرے باقی جو دو کلاس فیلو تھے، لڑکیوں کی ان سے کچھ زیادہ نہیں بنتی تھی۔ اب میرے دوستوں کے آنے سے رفتہ رفتہ ہمارا ایک گروپ بن گیا۔ کئی بار کالج سے باہر جانے کا پروگرام بھی بن جاتا تھا لیکن لڑکیوں کا اصرار ہوتا تھا کالج سے باہر وہ میرے بغیر نہیں جائیں گی۔ ان کا یہ اصرار بعض اوقات دوستوں کو کھلتا بھی تھا۔ ایک دن کسی نے کہہ ہی دیا کہ وہ میری موجودگی پر اس قدر اصرار کیوں کرتی ہیں تو لڑکیوں کا جواب تھا کہ اس کی موجودگی میں ہمیں تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ ہمیں پتہ ہے نہ وہ کوئی غلط بات کرے گا نہ کسی کو کرنے دے گا۔

اس طرح ہنستے کھیلتے، چھوٹی چھوٹی باتوں کا لطف اٹھاتے یہ وقت بیت گیا۔ اس میں دونوں فریقوں نے اپنی اپنی تربیت کی، ایک دوسرے سے سیکھا کہ کس طرح لڑکے اور لڑکیاں برابری کی سطح پر باہمی خلوص و احترام کے ساتھ دوستانہ طور پر اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔  کالج کے بعد جب ہم لڑکے آپس میں بیٹھتے تو لڑکیوں کا بھی ذکر آ جاتا تھا۔ میں آج بھی یہ بات پورے فخر اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ لڑکیوں کی عدم موجودگی میں بھی کبھی کسی نے کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالی تھی جسے ہم لڑکیوں کے سامنے بیان نہ سکتے ہوں۔

اس کے بعد پورے چالیس برس مخلوط تعلیم والے ادارے میں پڑھایا ہے، لیکن اس کا قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).