نوشابہ کی ڈائری: کھجی گراؤنڈ فتح ہو گیا․․․ ایم کیو ایم جنگ ہار رہی ہے



27 دسمبر 1995

میں ذیشان کو نہیں روک سکی، نہ جانے سے نہ اس راستے پر سفر سے جو اچانک کسی اندھیروں سے بھری کھائی پر ختم ہوجاتا ہے۔ میں نے ذیشان کو بہت سمجھایا، سارنگ کے بچپن، ابو جان کے بڑھاپے اور اپنی محبت کے واسطے دیے، سمجھانے کی مہلت ملتی بھی کتنی تھی، ان کے پاس اسلحہ دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ آگ نے ہماری دہلیز پار کر لی ہے۔ طویل وقفوں کے بعد جب گھر آتے، پوچھتی آپ کیا کر رہے ہیں، ایک ہی جواب تھا ”کچھ نہیں“ میرا رونا، منت سماجت سب رائیگاں گیا۔

ایک ڈھلتی رات وہ میری گود میں سر رکھے بلک بلک کر رو رہے تھے ”نوشی مجھ سے ظلم ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہاتھ جوڑ کر رو رو کر کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت مارو، میرے بچوں پر رحم کھاؤ․․․․ میرا ہاتھ لرز رہا تھا نوشی، میں پستول نیچے کرلیتا لیکن پھر راشد کی آواز آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابے گرا سالے کو، اپنی ماں کی موت بھول گیا یا غیرت مر گئی ہے، یہ سنتے ہی میرا ہاتھ ایک جھٹکے سے اٹھا ذرا بھی لرزے بغیر، اور میں اس پولیس والے پر گولیاں داغتا چلا گیا۔“

اس رات کھلا کہ میرے آنسو اور سمجھانا کیوں ضائع جا رہا تھا۔ ذیشان کے دل میں لگی آگ پر چچا دلدار مسلسل تیل چھڑک رہے تھے اور راشد ڈینجر اس بھڑکتی آگ کو جہنم بنانے پر تلا تھا۔

اب سمجھ میں آیا، امی جان کے جنازے پر چچا دلدار کا ذیشان کو سینے سے لگا لگاکر دلاسا دینا، بعد میں ذیشان سے باربار ملنے آنا اور ایک کونے میں لے جا کر کھسرپھسر۔ میرے سسر نے بتایا تھا کہ چچا دلدار ریٹائرد سرکاری ملازم تھے اور دو گلی چھوڑ کر کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ اس پورے یونٹ میں وہ ایم کیوایم کے اکلوتے بزرگ کارکن تھے۔ اوپر سے نیچے تک نوجوانوں سے بھری اس جماعت میں اس وقت تک سفید بالوں والا کوئی شخص نعمت سمجھا جاتا تھا، بالوں کی یہ سفیدی ”ناتجربہ کار نوجوانوں کی جماعت“ کا ٹھپا مٹانے کے کام آتی تھی۔

دلدار چچا نے اپنی وابستگی اور حیثیت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ کاغذوں پر اپنی تعمیراتی فرم قائم کی، پھر بلدیہ کراچی کے ٹھیکے پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرنے لگے، ایک بیٹا ڈاکٹر بن کر امریکا سدھار چکا ہے، دوسرے دونوں بیٹے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹربورڈ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اور بیٹی کے حصے میں کالج کی لیکچرارشپ آئی۔ وہ گلشن اقبال میں شان دار گھر بنا کر منتقل ہوگئے تھے، لیکن اکثر ہمارے علاقے ہی میں نظر آتے، کیوں کہ ٹھیکے بھی یہیں تھے اور بے روزگار، جذباتی اور ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکے بھی یہیں۔ جنھیں تاریخ کی کسی خفیہ مذہبی تحریک کے پرجوش ”داعی“ کی طرح وہ ایم کیوایم کی طرف راغب کرتے، ذیشان ان کا تازہ ترین شکار تھے۔

چچا دلدار کہتے ہیں کہ الطاف حسین نے ایک فکری نشست میں بتایا تھا جب اورنگی پر حملہ ہوا تو پٹھانوں نے مہاجر لڑکیوں کو برہنہ کیا اور انھیں کندھوں پر بٹھا کر رقص کرتے رہے، پھر انھیں گولی مار دی․․․الطاف بھائی نے کہا تھا یہ گھر کی باتیں میں جلسوں میں تو نہیں کر سکتا نا۔ چچا دلدار آپریشن کے دوران ڈھائے جانے والے مظالم اور عورتوں کی بے عزتی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ قربانی دینے کا وقت ہے، اگر مہاجروں نے لڑنے کا فیصلہ نہ کیا تو انھیں مٹادیا جائے گا۔

وہ ہر ملاقات میں گھماپھرا کر ہمارے گھر میں پڑنے والے چھاپے، امی جان کی موت اور میری بے عزتی کا حوالہ دیتے، اس طرح کہ میری رگوں میں انگارے دوڑنے لگتے۔ میں یہ سب بھلانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن وہ یاد دلاتے رہے۔ پھر ایک رات مجھے اپنے ساتھ راشد ڈینجر کے پاس لے گئے۔ راشد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ہم سب کا غم ایک ہے، ہمارے ساتھ آجاؤ، دو ہی راستے ہیں، ہمارے ساتھ چلو یا چھاپے اور بے عزتی برداشت کیے جاؤ، آج جو تمھارے ساتھ ہوا ہے، کل وہ تمھارے بیٹے کے ساتھ ہو گا۔ پھر اس نے میرے ہاتھ میں ٹی ٹی رکھ دی اور کہا رکھ لو، ہم مہاجروں کے برے وقت کے ساتھی اب یہی ہتھیار ہیں۔“ ذیشان مجھے اپنے قاتل بننے کی تفصیل بتارہے تھے اور میں انھیں دھندلائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

راشد ڈینجر لیاقت آباد ہی کے کسی دوسرے علاقے کا تھا۔ بتاتے ہیں کہ وہ ’ڈبو‘ چلاتا تھا۔ اس بڑے سے کیرم بورڈ کے کھیلنے والوں کی لت سے اس کی اچھی گزر بسر ہو رہی تھی، لیکن جب ’حقیقی‘ والوں نے اس علاقے کا ”اقتدار سنبھالا“ تو ایک روز حقیقی کے کارکنان سے راشد کا جھگڑا ہوگیا، اس کا بھائی جھگڑے میں مارا گیا اور ’ڈبو‘ سڑک پر رکھ کر جلا دیا گھا۔ بھائی کو دفناتے ہی وہ الطاف گروپ میں شامل ہوگیا اور رفتہ رفتہ ”ڈینجر“ کی عرفیت کے ساتھ ایم کیوایم کی بابت پولیس کے نئے ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔

”راشد نے کھجی گراؤنڈ لے جاکر مجھے اسلحہ چلانے کی تربیت دی، کچھ اور لڑکے بھی میرے ساتھ تربیت لے رہے تھے۔ ایک رات راشد، میں اور دوسرے لڑکے صابر بھائی کے فرنیچر کے کارخانے میں بیٹھے تھے کہ اطلاع ملی پولیس موبائلیں آ رہی ہیں۔ وہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اسلحہ استعمال کیا۔ ہم نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، انھیں بھاگنا پڑا۔ میں بڑی پھرتی سے بھاگ بھاگ کر پوزیشن بدلتے ہوئے فائرنگ کر رہا تھا۔ میری تیزرفتاری کی وجہ سے راشد نے مجھے بلٹ کا خطاب دیا۔ اب لڑکے مجھے شانی بلٹ کہتے ہیں، اگر کبھی خبر آئے کہ شانی بلٹ․․․“ میں نے ذیشان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

”کھجی گراؤنڈ“ ․․․․یہ نام سنتے ہی میرے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ ”گل بہار“ کے اس فٹبال میدان میں عرصے سے ایک بھیانک کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ اسے علاقے کو گل بہار کا خوب صورت نام دیا گیا، لیکن لوگوں کی زبان پر اب بھی اس کا پرانا نام ”گولی مار“ ہے۔ اگر نام کے اثرات واقعی ہوتے ہیں تو ”کھجی گراؤنڈ“ شاید اسی نام کا نتیجہ ہے۔ میں نے اس گراؤنڈ کے بارے میں سنا اور اخباروں میں پڑھا تھا، لیکن نوشاد چچا اور ذیشان نے جو کچھ بتایا وہ دل دہلادینے والا تھا، ”میرے بچپن کے دوست عباس کی چھت سے کھجی گراؤنڈ صاف نظر آتا ہے، وہ کہتا ہے نوشاد! رات کے سناٹے میں وہاں سے آنے والی چیخیں دل چیر جاتی ہیں۔ مخالفین کو اغوا کرکے وہاں لایا جاتا اور عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے۔ انھیں مارکر لاشیں گول پوسٹ سے لٹکا دی جاتی ہیں، لاشیں بوری میں ٹھونسی جاتی ہیں، جسم ڈرل مشین سے چھیدے جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھوکی جاتی ہیں، آنکھوں میں ایلفی ڈال دی جاتی ہے، مردہ اجسام ہی نہیں زندہ انسانوں کو بھی بکرے کی طرح لٹکا کر آری اور چھینی سے ان کے اعضاء کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے۔“ بتاتے ہوئے نوشاد چچا کا جسم جھرجھری لے کر کپکپا اٹھا۔

”ہمیں ایک شخص اسلحہ چلانے، پوزیشن لینے اور اچانک حملے کی تربیت دے رہا تھا، اور راشد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا، کچھ لڑکے چرس کی سگریٹ سلگائے گول پوسٹ سے ٹکے بیٹھے تھے۔ اچانک پانچ چھے لڑکے کسی کو گھسیٹتے ہوئے میدان میں داخل ہوئے، اس کی آنکھوں اور منہ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ’چلو بھئی کام آ گیا‘ ایک کونے سے آواز آئی اور پھر سب اس لائے جانے والے کے گرد جمع ہوگئے۔ پہلے اسے گراؤنڈ میں دوڑایا گیا، وہ ہانپتا رہا، گرتا رہا، دوڑتا رہا، اور سب قہقہے لگاتے رہے۔

پھر اسے کھنیچتے ہوئے گول پوسٹ تک لائے اور اس کے تڑپتے جسم کو قابو کرکے لٹکا دیا گیا۔ ایک لڑکا آری لہرا دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگا، اسے قریب آتے دیکھ کر لٹکے ہوئے اس بری طرح اپنے جسم کو جھٹکے دیے کہ لگتا تھا چرچراہٹ کے ساتھ لرزتی ڈولتی گول پوسٹ اکھڑ جائے گی، میں نے آنکھیں اور کان بند کرلیے، لیکن اس کی چیخیں میری سماعت کو چھیدے جارہی تھی۔ انھوں نے اس کے منہ سے پٹی ہٹا دی تھی، چیخوں کا لطف لینے کے لیے۔“ مجھ سے آخری ملاقات میں ذیشان نے جانے کیا کچھ بتایا تھا۔

اب ذیشان بھی ان ”لڑکوں“ کی صف میں تھا جن کا گلی گلی چرچا ہے۔ ”لڑکے آ رہے ہیں“ ، ”لڑکوں نے کیا مقابلہ کیا“ ، ”لڑکے نہیں چھوڑیں گے“ ایسے جملے روز سننے کو ملتے ہیں۔ یہ لڑکے ایم کیوایم کے کارکن ہیں، ہر وقت مارنے مرنے پر تیار، جن سے کبھی لوگ ڈرتے ہیں، کبھی ان کا تذکرہ بڑے پیار سے کرتے ہیں۔

ذیشان سے یہ سب سن کر بہت روئی، مگر انھیں نہیں سمجھایا، اب سب اپنے آپ کو سمجھانا تھا، سو سمجھا لیا کہ جو ہونا تھا ہوچکا، اب مجھے کچھ بھی سننے اور جھیلنے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہے۔ ذیشان رات کے ساتھ ہی چلے گئے، یہ کہہ کر کہ اب کبھی نہیں آؤں گا۔ لیکن وہ گئے کب ہیں، ہر کچھ دن بعد شانی بلٹ کا نام قتل کی کسی واردات کی خبر کا حصہ ہوتا ہے۔

گھر میں اخبار تو آتا ہی ہے میں روز شام کا اخبار بھی خریدتی ہوں، اس دعا کے ساتھ کہ شانی بلٹ کا نام پڑھنے کو نہ ملے۔ ذیشان ابھی دہشت کے ان بڑے ناموں میں شامل نہیں جو ایک ایک کرکے مٹائے جا چکے ہیں۔ فاروق دادا، فہیم کمانڈو، ارشد کے ٹو ایک کے بعد کئی ”کمانڈر“ مارے جا چکے ہیں۔ فاروق دادا، ریحان کانا، نعیم شری، فہیم کمانڈو، ارشد کے ٹو، مبین ٹنڈا․․․کسی کے لیے مزاحمت کی علامت ہیں کسی کے لیے خوف کی، ان میں سے کسی کی ہلاکت ایم کیوایم کے لیے ”جرنیل“ کی موت ہے۔

وزیرداخلہ نصیراللہ بابر نے جب پولیس اور رینجرز کو یکجا کرکے کراچی میں آپریشن شروع کیا تو اندازہ نہیں تھا جن کی دہشت، تیزی طراری اور بہادری کے قصے زبان زدعام ہیں ان کے مقابلوں میں مرنے کی کہانیاں اتنی سرعت سے سنائی دیں گی، ایک کہانی کا ذکر ختم نہیں ہوتا کہ دوسری سامنے آ جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مارے جانے والے کسی مقابلے میں نہیں مارے گئے، لیکن ایسے ہر واقعے کے بعد ریاست اور ایم کیوایم کے درمیان ایک جھوٹ کا کھلا مقابلہ ضرور ہوتا ہے، جس میں ایم کیوایم ان کارکنوں کو معصوم، نہتا اور ان پر لگائے گئے ہر الزام کو بہتان قرار دیتی ہے اور ریاستی ادارے ایسے ہر ماورائے عدالت قتل کو مقابلے اور دہشت گردوں کی جانب سے پولیس اور رینجرز پر حملے کا نتیجہ باور کراتے ہیں۔

نصیراللہ بابر کراچی میں اس آپریشن کی تصویر اور نفرت کی علامت بن چکا ہے۔ بھیڑیے سے چہرے والا یہ ریٹائرڈ جنرل کراچی کی لڑائی کو دشمن سے جنگ اور جنگ میں سب جائز سمجھتا ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ کھجی گراؤنڈ کے مقتل تک پولیس اور رینجرز کی رسائی ہو گئی اور اس میدان میں خونیں کھیل کا خاتمہ ہوگیا۔ نصیراللہ بابر نے کھجی گراؤنڈ کا دورہ کیا تو یقین آیا ہے اس میدان کی فتح کا دعویٰ صحیح ہے۔

”جو کچھ ہوا اور کیا جا رہا ہے، اس کے بعد یہی کچھ ہونا تھا“ نوشاد چچا نے ماورائے قتل کے واقعات پر مختصر سا تبصرہ کیا تھا۔ ان کی بات میں وزن ہے۔ کیسے کیسے ہول ناک واقعات ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ پولیس اور رینجرز پر حملے معمول بن گئے۔ اتنا خوف ہے کہ تھانوں کی چھتوں پر ریت کی بوریاں رکھ کر مورچے بناکر پہرہ دیا جاتا ہے۔ سندھ سیکریٹریٹ، پی ٹی وی کی عمارت، تھانوں اور پولیس کے رہائشی علاقے پر راکٹوں سے حملے کیے گئے، ”نوائے وقت“ کا دفتر حملہ کرکے تباہ کر دیا گیا، لیاقت آباد کی سپرمارکیٹ میں قائم بلدیہ کراچی کے رجسٹرار آفس پر ہلا بول کر وہاں موجود بلوچ اسٹاف کو مارڈالا گیا، چناب ایکسپریس کو آگ لگادی گئی، اجتماعی قتل کیے گئے، کراچی میں محنت مزدوری کے لیے آکر رہنے والے افراد کے گروہ کے گروہ اغوا کیے گئے اور ان کے جسم گولیوں سے چھلنی کردیے گئے، ایک ڈی ایس پی کے دو جوان بیٹوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔

افراد کے خون بہانے کا عمل اجتماعی قتل کے واقعات میں ڈھل چکا ہے، سفاکی درندگی سے بھی آگے جاچکی ہے، جو کچھ ردعمل کے نام پر شروع کیا گیا تھا وہ اب شکار کا کھیل بن چکا ہے، محسوس ہوتا ہے قتل پر قتل کرتے نوجوان اب کسی مقصد یا انتقام کے لیے نہیں بس لطف لینے کے لیے لاشیں گرا رہے ہیں۔ حالات نے ہمارے شہر میں لفظوں کو نئے معنی دے دیے ہیں اناج، پھل اور سبزیوں سے بھری ”بوری“ جو زندگی کی نشانی تھی، موت کی علامت بن چکی ہے۔

اب کسی بوری پر نظر پڑے تو گمان ہوتا ہے کہ اس سے خون رس رہا ہے، ابھی کھولا تو مردہ جسم یا کٹے اعضا باہر آگریں گے۔ ”پرچی“ جو سفارش بن کر لوگوں کی دست گیری کرتی تھی، اب لاشوں کے پہلو سے ملتی ہے، کسی پر لکھا ہوتا ہے ”مخبری کا انجام“ ، کسی پر بے نظیر اور نصیر اللہ بابر ”کے لیے تحفہ“ یا فلاں کا بدلہ تحریر ہوتا ہے جیسے ایک ٹیکسی کی ڈگی سے ملنے والی دو اعضا کٹی لاشوں کے ساتھ ملنے والی پرچی پر لکھا تھا ”فاروق دادا کا بدلہ“ ۔ رنگین اخبار ”عوام“ لاشوں کی بڑی بڑی تصویروں کے ساتھ روز سرخ ہوتا ہے۔ اس شہر کے اب دو ہی رنگ ہیں، خوف کی سیاہی اور خون کی سرخی، سارے منظر بے رنگ ہیں۔

میتیں تو روز ہی اٹھ رہے ہیں، لیکن میت اٹھنے کی ایک تصویر آنکھوں میں چبھ کر رہ گئی۔ یہ تصویر ایم کیوایم کے کارکن نعیم کے جنازے کی تھی، نمازجنازہ ایک عورت پڑھارہی تھی اور عورتیں ہی صف باندھے تھیں۔ ایم کیوایم نے الزام لگایا کہ نعیم کے جلوس جنازہ پر رینجرز اور پولیس نے حملہ کر دیا، اس لیے نمازجنازہ اور تدفین کی ذمے داری خواتین کو ادا کرنی پڑی۔

محاصرہ، چھاپا، ہلاک، لاش․․․․یہ سارے لفظ تو زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ایک لفظ سن کر سانس سینے میں اٹک جاتی ہے ․․․․ ”ریپ“ ․․․․ ذیشان کی تلاش میں دو بار گھر پر چھاپا پڑا، تلاشی لی گئی، بڑی بدتمیزی سے بات کی گئی، لیکن خدا کا شکر دل میں پھنکارتا وہ خوف، خوف ہی رہا جو حقیقت بن جاتا تو خودکشی یا زندہ لاش بن کر جینا ہی میرا مقدر ہوتا۔ یہ خوف فرزانہ کا معاملہ سامنے آنے کے بات ابھرا تھا۔ ایم کیوایم نے الزام لگایا تھا کہ پیپلزپارٹی کے رکن نعیم قریشی نے اپنے بیٹے، بھتیجوں اور پیپلزپارٹی اور حقیقی گروپ کے کارکنوں کے ساتھ اس کے کارکن شاہد فیروز کے گھر پر حملہ کیا اور حملہ آوروں نے باری باری شاہد کی نوجوان بہن فرزانہ کی آبروریزی کی۔

اس واقعے پر ایم کیوایم نے تواتر سے یوم سوگ منائے، جن میں کتنی ہی جانیں گئیں اور املاک جل کر راکھ ہوئیں۔ اس واقعے نے مجھ جیسی بوڑھے سسر کے ساتھ رہنے والی عورت کو بری طرح خوف زدہ کر دیا تھا۔ طبی معائنے میں فرزانہ سے جنسی زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ کچھ دنوں بعد پی ٹی وی کے خبرنامے میں فرزانہ کی ریکارڈ کی ہوئی ایک کال سنائی گئی جس میں وہ اپنی ایک عزیز خاتون کے پوچھنے پر ریپ کے الزام کی تردید کر رہی تھی۔ میں حیران ہوں کہ سیاسی مقاصد کے لیے اپنے ہی کارکن کی عزت اچھالی گئی!

ایک طرف یوم سوگ کے نام پر پہیہ جام ہڑتالیں ہیں، محاصرے اور چھاپے ہیں، گرفتاریاں اور پولیس مقابلے ہیں، دو بہ دو جنگیں ہیں، دوسری طرف الطاف گروپ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بنتا اور ٹوٹتا رہتا ہے۔ سر جوڑ کر بیٹھنے کی باتیں اور سروں کی قیمت لگانے کا عمل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے سر کی قیمت بھی لگا دی گئی ہے۔ عمران فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایم کیوایم کی عسکری سرگرمیوں کی قیادت وہ کر رہے ہیں۔

سیاسی، تنظیمی اور تحریری صلاحیتوں سے پہچان بنانے والے عمران فاروق کی اس نئی شناخت اور ان کے لیے مختلف علاقوں میں پے درپے پڑنے والے چھاپوں کے باعث انھیں افسانوی شہرت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ ذیشان نے بتایا تھا کہ عمران فاروق کا خفیہ نام ”چھوٹے بھائی جان“ ہے، کارکن اسی نام سے ہدایات وصول کرتے اور انھیں آگے پہنچاتے ہیں۔

ہر روز کتنے ہی لوگ مارے جاتے ہیں، بعض اوقات اسپتالوں میں لاشوں کے لیے جگہ نہیں ملتی، عظیم طارق کے بعد ایم کیوایم کے ایک اور مرکزی راہ نما ایس ایم طارق بھی مار دیے گئے، لیکن وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ کے بھائی احسان علی شاہ اور اس کے بعد الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور ان کے بیٹے عارف حسین کے قتل نے حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ قتل وغارت گری کے واقعات کی ذمے داری ”مہاجر ٹائیگر فورس“ نامی ایک تنظیم قبول کرتی ہے، لیکن کون نہیں جانتا کہ یہ بس ایک فرضی تنظیم ہے، جس کا کوئی وجود نہیں، جیسے ”مہاجر رابطہ کونسل“ جو بہ ظاہر تو موجود ہے لیکن اس کی حقیقت الطاف حسین کے آلۂ کار کے سوا کچھ نہیں۔

قومیت، حقوق اور دہشت گردی کو کچلنے کے عنوانات سے ہونے والی قتل وغارت گری کے پہلو میں فرقہ واریت کی آگ بھی بھڑک رہی ہے۔ بھائی جان کے دوست شبر زیدی ملیر بی ایریا کی امام بارگاہ دربار حسینی میں ہونے والے بم دھماکے میں جان سے گئے اور ذیشان کے ایک دور کے رشتے دار مظفر صدیقی تبلیغی جماعت کے چلے سے واپسی پر مار دیے گئے۔ امام بارگاہوں پر حملے ہو رہے ہیں، ایسا ہر حملہ اپنے پیچھے لاشیں چھوڑ جاتا ہے، سپاہ صحابہ کے کارکنوں کی جان لی جارہی ہے۔

ایک خبر پڑھی تھی کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد ایم کیوایم کے جنگجو کارکن سہارے کے لیے فرقہ پرست تنظیموں میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے بہت دنوں پہلے ایم کیوایم کی طرف سے جاری ہونے والا ایک ہدایت نامہ یاد آ گیا، جس کے بارے میں مجھے بھائی جان نے بتایا تھا۔ تحریر کی صورت کارکنوں تک پہنچائے جانے والے اس خط میں ہدایت کی گئی تھی کہ کارکن سپاہ صحابہ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے کوئی تعلق نہ رکھیں اور ان کے لیے کام نہ کریں۔ اس ہدایت نامے سے صاف ظاہر تھا کہ ایم کیوایم کے کارکنوں کی ایک تعداد فرقہ وارانہ رجحان کا شکار ہوکر ان جماعتوں کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔

مہاجروں کو بڑے خواب دکھائے گئے تھے ”کراچی میں اقوام متحدہ کی فوج آنے والی ہے“ ، ”کراچی ہانگ کانگ کے طرز کی ریاست بن جائے گا“ ، لیکن نصیراللہ بابر کی قیادت میں رینجرز اور پولیس ان خوابوں کو ایم کیوایم کے کارکنوں کا خون بہاکر مٹا رہی ہے۔ نوشاد چچا کہتے ہیں ”ایم کیوایم یہ جنگ ہار رہی ہے۔ مکمل شکست کے بعد جانے کیا انجام ہوگا۔“

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری 19: ”یہ بچے ایم کیو ایم میں سیاست کے لیے نہیں لڑنے مرنے آئے ہیں“۔نوشابہ کی ڈائری: ”چیرا“ اور دوسرے ماورائے عدالت اقدامات

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).