سانحہ موٹر وے لاہور کی دوسری متاثرہ خاتون


سانحہ موٹر وے لاہور سے ایک دن پہلے کراچی کی معصوم کلی مروا پر فیس بک لائیو دینے کے بعد اسی ایشو پر اپنے یوٹیوب چینل کے لیے ایک ویڈیو بنا کر ”بچوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر ریاست اور معاشرے کی خاموشی چہ معنی“ پر اپنے فیچر کو حتمی شکل دینے کے لیے بیٹھ گئی۔ صبح اٹھی تو سوشل میڈیا اور اسٹریم میڈیا پر لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی خبریں گرم تھی اور بطور صحافی مجھے یہ اندازہ ہوا کہ آئندہ کئی دنوں تک ہم اس موضوع پر بات کریں گے، ہیش ٹیگ کی روایت کی میں اپنے ایک دن پہلے کے فیس بک لائیو میں مذمت کر چکی تھی کہ اب معاملات ہیش ٹیگ سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ہمیں بطور معاشرہ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اس کا ایک اہم راستہ بھرپور احتجاج ہے وہ بھی پر سطح پر تاکہ ریاست موثر قوانین سازی کرتے ہوئے ان قبیح جرائم کے مرتکب افراد کے لیے سخت سے سخت سزاوں کو یقینی بنائے۔

اس دوران موٹر وے حادثہ پوری شدت سے سامنے آیا، میری اس حوالے سے سوشل میڈیا یاترا جاری تھی اور خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی جانب سے بھی شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا تھا کہ مجھے فیس بک میسنجر پر اسکرین شاٹ کے ساتھ ایک لنک موصول ہوا، جسے دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ اس ویڈیو کے تھمب نیل پر میری تصویر اس کیپشن کے ساتھ درج تھی کہ ”موٹروے حادثے کی خاتون کا ویڈیو بیان سامنے آ گیا“ اور جب میں نے اس لنک پر کلک کیا تو میرا فیس بک لائیو میرا منہ چڑھا رہا تھا۔ میں نے سب سے پہلے اسے اپنی وال پر شیئر کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور ساتھ ہی سائبر کرائم، پی ٹی اے اور یوٹیوب پر شکایت درج کرانی شروع کی۔

وہ رات میرے اوپر قیامت بن کر اتر رہی تھی۔ میں نے اس یوٹیوب چینل کا وزٹ کیا تو وہاں ڈیڑھ لاکھ ویوز ہو چکے تھے اور لوگ صرف تھمب نیل کی بنیاد پر ویڈیو دیکھے بغیر کمنٹس کرتے چلے جا رہے تھے، اس ایک گھٹیا یوٹیوبر نے ایک نہیں پانچ مختلف یوٹیوب چینلز پر میری تصویر اور ویوز کا استعمال کیا اور اس کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے یوٹیوبرز بھی بغیر تحقیق و تصدیق اسی راہ پر لگ گئے۔ میں وکٹم نہیں تھی مگر اس وقت میری کیفیت شاید اس وکٹم سے بھی زیادہ بدتر تھی۔

میں رو رہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ بھرے بازار مجھے عریاں کر دیا گیا ہے اور ہزاروں بھیڑیے مجھے اپنے گھیرے میں لیے میری بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں۔ چند ڈالروں کے عوض سوشل میڈیا کی ننگی دنیا میں میرا قلبی، روحانی، جذباتی ریپ جاری ہے تب مجھے شہباز اکبر الفت کی یہ بات سچ لگی کہ سوشل میڈیا کے ریپسٹ بھی عادی مجرموں جیسی سزاوں کے مستحق ہیں مگر میں تو لٹ رہی تھی برقی تاروں پر رواں دواں ایک دنیا میں، جو میری حقیقی زندگی کو بھی متاثر کرے گی۔ میری فیملی جتنا میرا حوصلہ بڑھاتی ہے میں اتنی ہی خوف زدہ ہو رہی ہوں۔

ہر گزرتا لمحہ میری تصویر کا استعمال بڑھتا رہا، دوست اور فالوور کی ایک بڑی تعداد نے جب ان کے چینلز پر جا کر ان کی مذمت کرنی شروع کی اور یہ وضاحت دی گئی کہ یہ وہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک کالمسٹ ہیں، صحافی ہیں، یہ وہ خاتون نہیں ہیں تو پھر کمنٹس کا ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے، وہ ہے میری کردار کشی کا ۔ ایسا ایسا الزام میری ذات کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ میں ان سب کا بوجھ اٹھا پاؤں گی۔ مجھے، میری فیملی، میرے دوستوں کو پتہ ہے کہ میں وہ نہیں ہوں مگر منفی رویے ہمارے ہاں جلد مقبول ہوتے ہیں۔ صفائی دینے کی نوبت بھی نہیں آتی، لوگ سچ جاننا بھی نہیں چاہتے کیونکہ انہیں سنسنی مل رہی ہے، ان کا اپنا گند کھل کر سامنے آ رہا ہے۔

کوئی میرا ہمسایہ بن کر میری عزت کی دھجیاں اڑا رہا ہے تو کوئی میرا رشتہ دار بن کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ وہ تو نہیں مگر بدکرداری کی وجہ سے ہم قطع تعلقی کر چکے ہیں۔ میری حیرت آنسوؤں میں ڈھل چکی تھی اور غصہ بے بسی میں کہ ایسے کیسے یہ سب کر سکتا ہے۔ آپ ایک شخص کو نہیں جانتے، اس کے بارے میں رائے دینے کا اختیار آپ کو کس نے دیا۔ کوئی تو سوچے کہ ایک مثبت سوچ و فکر کی حامل لکھاری کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ مجھے اپنے نظریات کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ میں معاشی مسائل سے نبرد آزما تو تھی ہی اب یہ برقی دنیا سے ڈالر کمانے والوں لالچی یوٹیوبرز کی ہوس کی قیمت بھی سماجی طور پر مجھے ادا کرنا پڑے گی۔

ان حالات میں سینئر صحافی اور مشہور کتاب ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک“ کے مصنف ظہیر الدین بابر نے مجھے نیو نیوز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں میں نے اس ایشو پر بات کی۔ میرا اپنا بھی یوٹیوب چینل ہے مگر مجھے سنسنی خیزی سے نفرت ہے اور میں سماج میں مثبت رویوں کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہوں اور میری سوشل میڈیا کی پوسٹس اور میری تحاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ میں منفی سوچ و فکر اور متشدد رویوں کی شدید مخالف ہوں اس لیے کوشش کرتی ہوں کہ ان چیزوں سے دور رہوں اگر کبھی کسی تحریر میں ایسا کوئی پہلو سامنے آئے تو اسے ڈیلیٹ کر دیتی ہوں۔ مگر کسی کی پگڑی اچھال کر چار سکے جمع کرنے کا شوق نہیں۔

میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں کیونکہ ہمارے ہاں اداروں کا کام کرنے کا ایک طریقہ کار ہے اور میں اس میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے ہاں لوگ سوچے سمجھے بغیر آگے بڑھتے ہیں، میں نے نیو نیوز میں یہ سوال اٹھا یا کہ جہلا کے اس ٹولے میں کیا یہ شعور نہیں کہ اجتماعی زیادتی کا شکار ایک عورت کیسے اتنی جلدی کوئی بیان دے سکتی ہے اور جو چیز اسٹریم میڈیا پر نہیں آئی وہ کہ غیر معروف یو ٹیوب چینل پر کیسے آ سکتی ہے؟

مگر نہیں یہ سوچ تو اس عوام میں ہے ہی نہیں۔ بس ایک عورت سامنے آ گئی ہے ہو جاؤ شروع۔ کرو اس کی کردار کشی، نوچ کر کھا لو اسے۔ تحقیق سے عاری یہ ہجوم خود کو مسلمان کہتا ہے اور اسلام کے تعلیمات سے نابلد ہے۔ تف ہے سماج کے ایسے ناسوروں پر ، ان کا ساتھ دینے والوں پر ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سوچ نے مجھے پریشان کر رکھا ہے کہ ایسے فیک یوٹیوبرز کی سنسنی خیزی پر حامل پوسٹ لاکھوں ویوز لے جاتی ہے۔ منفی فکر پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔ یہ رویہ سماج کے مخصوص رجحان کی عکاسی بھی ہے جس کی مذمت کرنا بہت ضروری ہے۔

میں نے خود کو موٹروے سانحے کی دوسری متاثرہ قرار دیا ہے تو غلط نہیں ہے، ہم دو خواتین کے دکھ اور اذیت کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ ہمارے روحانی اور قلبی زخم تاحیات رستے رہیں گے۔ ہم خوف کے سائے میں اپنی بقایا زندگی گزاریں گے کہ پتہ نہیں کون کہیں سے اٹھ آئے اور ہم پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے زندگی کا ہر جبر سہا ہے مگر سچ کہوں تو یہ دن سب سے زیادہ اذیت ناک ہیں۔ پہلی کو تو ریاست انصاف دلا دے گی مگر مجھے ابھی بہت کچھ برداشت کرنا ہے، کب تک اور کتنا میں نہیں جانتی۔

بطور لکھاری اپنے قد کاٹھ سے واقف ہوں کہ پرنٹ میڈیا کے خدا سے بگاڑ بیٹھی ہوں، میرے لیے کوئی اخبار نہیں لکھے گا، کوئی کالم نگار نہیں اٹھے گا۔ کچھ دن تک میں لڑوں گی، بولوں گی اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ جاؤں گی کہ ہمارے ہاں عزتوں کے معیار کچھ اور ہیں۔ مجھے سمجھانے والے ایک ہی بات کرتے ہیں کہ پراں مار، دفع کر ان جیسے ناسوروں کو ۔ تیرے بولے ہوئے لفظوں سے اپنے لیے راتب جمع کر رہے ہیں کرنے دے۔ مگر میں کہتی ہوں کہ میرے لفظوں کے ساتھ کھیلیں، میرے کردار کے ساتھ نہیں۔ میں اس سے آگے لکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).