باب خیبر پر کوکی خیل قبیلے کا دھرنا اور حکام کے ادھورے وعدے


پٹھان

پشاور کی کارخانو مارکیٹ میں رکنے کے بجائے اسی شاہراہ پر چلتے چلے جائیں تو چار کلومیٹر بعد ہی جمرود روڈ سے گزرتے ہوئے آپ بابِ خیبر پہنچ جاتے ہیں۔

اس دروازے کے بائیں جانب آپ کو باب خیبر کی تاریخ کی چیدہ چیدہ معلومات سنگِ مرمر کی سفید تختیوں پر لکھی ملیں گی لیکن آج کل سڑک کے بائیں کنارے پر قدرے چوڑے فٹ پاتھ کا منظر ذرا مختلف ہے جہاں کم از کم 80 روز سے احتجاج اور دھرنا جاری ہے۔

شامیانے تلے موجود ان افراد میں سے کچھ کے ہاتھوں میں سفید کاغذ تھے، کچھ یونہی آتے ہیں کچھ دیر بیٹھتے ہیں اور پھر یہ محفل خاموشی سے برخاست ہو جاتی ہے۔ بتایا گیا کہ کبھی کبھی یہ یہاں سے اٹھ کر طور خم جانے والے نیٹو کنٹینرز کو روک دیتے ہیں۔

مائیک کے ذریعے یہ لوگ حکومت کی خاموشی پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں، اپنے مطالبات دوہرا رہے ہیں لیکن سڑک سے گزرتے رکشوں کی پھٹ پھٹ اور گاڑیوں کے ہارن ان کی آواز دبا دیتے ہیں جو شاید سامنے موجود انتظامیہ کے دفتر تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔

جمرود میں موسم کچھ گرم ہی تھا مگر دھرنا دینے والے متاثرین میں سے ہر ایک دھوپ کی حدت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مشکل اور مطالبات بتانا چاہتا تھا۔

ان مظاہرین کا تعلق کوکی خیل قبیلے سے ہے اور یہ باب خیبر سے 80 کلومیٹر دور وادی تیراہ میں واقع اپنے علاقے راجگل واپس جانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’طالبان سے بھی ڈر لگتا تھا اور فوج سے بھی‘

وزیرستان: ’سکول کے باہر طالبان پھرتے تھے‘

طالبان، فوج، ’نو گو ایریا‘: جنوبی و شمالی وزیرستان کا سفر

وزیرستان: کاروبار، مشکلات اور امیدیں

طورخم بارڈر

کوکی خیل قبیلہ مہربان کلے سے لے کر کرم ایجنسی تک کے علاقے میں آباد ہے۔ انھوں نے اپنا یہ علاقہ 2012 میں وہاں شدت پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن کی وجہ سے چھوڑا تھا۔

کوکی خیل قبیلہ مہربان کلے سے لے کر کرم ایجنسی تک کے علاقے میں آباد ہے۔ انھوں نے اپنا یہ علاقہ سنہ 2012 میں وہاں شدت پسندوں کے خلاف عسکری آپریشن کی وجہ سے چھوڑا تھا۔

جہاں اب اپنے گھروں کو واپسی ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر آٹھ سال کے بعد بھی حکومت انھیں واپس نہیں بھیج سکتی تو پھر انھیں رجسٹر کر کے آئی ڈی پیز کو ملنے والی مراعات ہی دے دیں۔ ان کا یہ الزام بھی ہے کہ راجگل کے نواحی علاقوں کے قبائل ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ان کے اخروٹ کے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ وہ اس مسئلے کا حل بھی چاہتے ہیں۔

’ملک کو خطرہ تھا تو ہم نے گھر چھوڑ دیا‘

احتجاج کرنے والوں میں شامل 70 سالہ بادشاہ گل نے بتایا کہ ’علاقہ (راجگل) تو 2008 سے خراب ہو رہا تھا۔ اس وقت کچھ لوگ نکل گئے۔ پھر 2012 میں فوج نے بتایا کہ آپ علاقہ چھوڑ دیں۔ ادھر پاکستان کو خطرہ ہو گیا ہے، ہم آپریشن کر رہے ہیں تو 2012 میں کوکی خیل مکمل طور پر آئی ڈی پیز ہو گئے۔‘

کسی شدت پسند تنظیم کا نام لیے بغیر بادشاہ گل نے کہا کہ ’سنہ 2012 کے دوران ہم نے اس طرح کے حالات دیکھے کہ ہمارا بھائی تنظیم والے پکڑ کر ہمارے سامنے ذبح کر رہے تھے۔ ہم نہیں بتا سکتے کہ کیوں ذبح کر رہے تھے۔ وہ املاک استعمال کر رہے تھے، لوٹ رہے تھے۔‘

وہ کہنے لگے کہ ’میرے سامنے خاندان کے بہت سے لوگوں کو مارا گیا۔ میرے اپنے بیٹے کو وہ پکڑ کر لے گئے تھے۔ انھوں نے یہ کہا کہ ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ میں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے۔ میرا بیٹا سات ماہ ان کے پاس تھا۔ پھر منگل باغ کو زخا خیل کے ایک شخص نے ضمانت دی کہ اگر تمام کوکی خیل قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوئی تو میں اور یہ بھی کھڑے ہوں گے۔‘

غار

دھرنے سے تین کلومیٹر کی دوری پر جمردو کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں بنے غار بھی راجگل کے قبائلیوں کی پناہ گاہ ہیں

ریٹرن کارڈ لیکن شناخت بطور آئی ڈی پیز نہیں؟

اگست سنہ 2017 میں پاکستانی فوج کی جانب سے راجگل کے کلیئر ہونے کا اعلان ہوا اور آرمی چیف نے علاقے کا دورہ بھی کیا تھا۔

ہاتھ میں واپسی کے لیے ریٹرننگ کارڈ تھامے 70 سالہ قبائلی بزرگ بادشاہ گل کا کہنا تھا کہ ’2017 میں حکومت نے بتا دیا تھا کہ آپ کا علاقہ کلیئر ہو گیا ہے، آپ جا سکتے ہیں اور رجسٹریشن کروائیں۔ ہم آ گئے اور ادھر ہی اس پی ڈی ایم اے نے مجھے ریٹرن کارڈ دیا کہ آپ جا سکتے ہو۔ لیکن اب 2017 سے 2020 آ گیا ہے اور اب بھی مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ بس صرف کارڈ دیا گیا تھا۔ پھر وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ تو آئی ڈی پیز بھی نہیں ہیں۔‘

دھرنے کے منتظم زرغون آفریدی نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی فوٹو کاپیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس پانچ ہزار ریٹرننگ کارڈز موجود ہیں۔

جب فوج کے اعلان کے باوجود واپسی ممکن نہ ہو سکی تو کیا قبیلے کے مشیران نے ضلعی انتظامیہ یا سکیورٹی فورسز سے رابطہ کیا؟ اس سوال کے جواب میں ایک اور متاثرہ شخص مبارک شاہ آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ 2017 میں ہمیں بتایا گیا کہ فوج علاقے میں تھوڑا ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے۔

’سنہ 2017 میں کہا کہ کلیئر تو ہے لیکن تھوڑا سا ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہمارے علاقے میں سکول نہیں، ہسپتال نہیں، زیادہ ضروری ہے کہ سڑک نہیں ہے تو سڑک بنا دیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ عرصہ لگے گا۔ اس کے بعد تین سال ہو گئے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا گزرے برسوں اور حالیہ احتجاج کے 80 دنوں میں بھی ضلعی انتظامیہ سے ان کے اس مسئلے پر مذاکرات نہیں ہو سکے،زرغون آفریدی کا کہنا تھا کہ ’ڈی سی صاحب نے ایک مرتبہ اے سی کو باڑہ اور جمرود بھجوایا۔ پھر ڈی سی نے آ کر کہا کہ عید کے بعد ہم ایک گرینڈ جرگہ منعقد کروائیں گے لیکن وہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا، ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا فیصلہ

قبائلی علاقوں کے پناہ گزین واپسی کے منتظر

متاثرین: گھر واپسی کے بجائے نئی ڈیڈ لائن

غار

غار میں مقیم ایک عورت نے بتایا کہ ان کے پاس ایک ہی کمرہ ہے جہاں وہ اپنے شوہر، چھ بچوں اور ساس کے ہمراہ رہتی ہیں

اس سلسلے میں جب دھرنے کے مقام کے قریب موجود اسسٹنٹ کمشنر جمرود کے دفتر اور پشاور میں ڈپٹی کمشنر ضلع خیبر سے رابطہ کیا گیا تو نہ تحریری سوالات اور نہ ہی فون پر کوئی جواب دیا گیا۔

لوگ غاروں میں رہنے پر مجبور

بادشاہ گل اور ان جیسے متعدد قبائلیوں کا یہ بھی گلہ ہے کہ سنہ 2012 سے اب تک انھیں راشن اور کوئی دیگر سہولت نہیں دی گئی۔

’رہائش بھی ایسی ہے کہ کسی کے پاس کرائے کے پسے نہیں ہیں، ٹینٹ لگا رہے ہیں دوسروں کے ساتھ۔ لوگ غاروں میں بھی رہ رہے ہیں۔‘

دھرنے سے تین کلومیٹر کی دوری پر جمردو کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں بنے وہ غار بھی دیکھنے کا موقع ملا جو راجگل کے کنبوں کی پناہ گاہیں ہیں۔

وہاں موجود ایک خاتون نے بتایا کہ ’میرا وہاں بڑا گھر تھا، اب غربت ہے۔ ہم واپس جانا چاہتے ہیں۔ ادھر دیکھو یہ ایک ہی کمرہ ہے جہاں ہم سب رہتے ہیں میرے چھ بچے، ساس اور میرا شوہر۔

بادشاہ گل نے بھی اپنے آبائی علاقے میں مکانات کی تعمیر نو کے لیے حکومتی معاوضے کو ناکافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا ’جہازوں سے مارا ہے اس طرح مارا ہے جو پہلے افغانستان میں وہ کہتے تھے کہ یہ بموں کی ماں تھا اس سے بڑے بم ہمارے گھر پر گرا دیے۔ بالکل زمین سے اڑا دیا ہمارا گھر۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو چار لاکھ روپے دیں گے، اس سے تو وہ علاقہ ہموار بھی نہیں ہوتا۔‘

متاثرین کو شناختی کارڈ دینے میں مسئلہ کیا ہے؟

مبارک شاہ کے مطابق انھوں نے ضلعی انتظامیہ کو بتایا ہے کہ ہزاروں آئی ڈی ہیز کا اندراج ہی نہیں ہوا۔

’انتظامیہ کو بتایا ہے کہ ہم آئی ڈی پیز ہوئے تو آدھے لوگ کرم ایجنسی گئے۔۔۔کچھ لوگ علی مسجد آ گئے، بازار کے راستے ان کا اندراج ہو گیا۔ کچھ مراعات ملیں لیکن وہ آپ نے ختم کر دیں۔ آپ کہتے ہیں شناختی کارڈ نہیں ہے۔ تیراہ میں کوئی تحصیل نہیں ہے، تو ہم تیراہ کا پتہ نہیں لکھتے تحصیل جمرود کا لکھتے ہیں، سب تیراہ والے جمرود کا پتہ لکھتے ہیں۔‘

غار

متاثرین نے اپنے آبائی علاقے میں مکانات کی تعمیر نو کے لیے حکومتی معاوضے کو ناکافی قرار دیا

پی ڈی ایم اے کے پبلک ریلیشن افسر احسان داوڑ تصدیق کرتے ہیں کہ تیراہ کے علاقے راجگل کے متاثرین کی تعداد واقعی ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں ’ضلع خیبر میں ابھی تک تیراہ کے 114 خاندان ہیں اور زیادہ تر کا تعلق راجگل سے ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمارے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں لیکن وہ بھی متاثرین ہیں، ابھی تک ان کی بھی واپسی نہیں ہوئی۔ شاید ان کی تعداد ہزاروں میں ہو لیکن وہ ہمارے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔‘

حکومت کی جانب سے 2015-2014 میں رجسٹریشن کا عمل بند ہو چکا ہے۔

احسان داوڑ کہتے ہیں ’کوکی خیل کے 1373 خاندان ٹی ڈی پیز تھے۔ ان میں سے 1313 خاندان واپس جا چکے ہیں جبکہ باقی 60 کے قریب تصدیق شدہ خاندان ابھی تک ٹی ڈی پیز کی حیثیت سے موجود ہیں۔‘

کیا غیر رجسٹرڈ متاثرین کو شناخت دینے کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟

پبلک ریلیشن آفیسر برائے پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ یہ صرف کوکی خیل کا معاملہ نہیں بلکہ شمالی وزیرستان میں بھی بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں لیکن وہ اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔

وہ کہتے ہیں ’لوگوں کے دو پتے ہوتے ہیں، شناختی کارڈ پر ایک ایڈریس اس علاقے کا ہوتا ہے جس میں آپریشن ہوتا ہے ایک اس کا ہوتا ہے جو آفت زدہ نہیں ہوتا۔ کوکی خیل کے بہت سے لوگوں کے دو دو ایڈریس ہیں، ایک تیراہ کا اور ایک پشاور یا جمرود یا لنڈی کوتل کا ہے۔ یہ جس کے بھی پتے پر ہو اسے ہم رجسٹرڈ نہیں کرتے، اسے ہم ڈی رجسٹرڈ کہتے ہیں۔‘

گھر

خیبر کی دیگر تحصیلوں میں معمولات زندگی بحال ہیں۔ طورخم بارڈر کی جانب بھی دیکھیں تو ٹرکوں کی لمبی قطاریں طویل شاہراہ پر سست روی سے چلتی ہوئی دور سے ایک خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پھر سے ذہن میں آتا ہے کہ جب تین سال پہلے علاقہ کلیئر قرار دیا گیا تو پھر متاثرین کی واپسی میں آخر رکاوٹ ہے کیا۔

بی بی سی نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے علاقے کی کلیئرنس اور متاثرین کی واپسی کے امکان کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن تاوقت اشاعت کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ایک بریگیڈیئر کا وعدہ

دھرنے میں موجود علی ایمان شاہ ہے نے بتایا کہ گذشتہ ماہ وہ فوج کے ساتھ سیاسی جرگے میں شامل تھے اور ان کے ساتھ ان کے بڑے ملک موجود تھے۔

’ہمارے ملکوں نے بریگیڈیئر صاحب کے سامنے پوری بات رکھی۔ بریگیڈیئر صاحب نے بولا کہ انشااللہ ہم آپ کو ادھر آنے دیں گے۔ ابھی ہم ترقی کا کام کر رہے ہیں۔ سکول بنا رہے ہیں، سڑک بنا رہے ہیں اس لیے ابھی آپ کو یہاں نہیں آنے دے سکتے۔

’ہم نے بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانے۔ ہم نے ان کو یہ بھی بتایا کہ 2017 میں ایک بریگیڈیئر نے ہم سے کہا تھا کہ علاقہ ہم نے کلیئر کیا ہے تو لوگوں کو لائیں گے۔ پھر اس بریگیڈیئر نے کہا کہ میں آپ سے وعدہ بھی نہیں کرتا کیونکہ پہلے بریگیڈیئر نے آپ سے وعدہ کیا لیکن پورا نہیں ہوا، اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کو جلد ازجلد واپس لے جائیں۔‘

اس سوال پر کہ جب وہ اپنے آبائی علاقے میں گئے تو انھیں کیا صورتحال دکھائی دی، علی ایمان شاہ کا کہنا تھا ’سڑک پر جا سکتے ہیں لیکن ادھر ادھر نہیں جا سکتے۔ دواتوئی کے راستے سے گاڑی آتی جاتی ہے لیکن کوکی خیل کا جو علاقہ ہے وہاں سڑک سے نیچے اتر کر ایک اخروٹ بھی نہیں توڑ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سڑک سے نیچے اجازت نہیں ہے، سیدھا سڑک پر جاؤ۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی والے کہتے ہیں کہ ابھی ہم نے سڑکیں نہیں بنائی ہیں۔ تمہارے گھر جو فوج کے پاس ہیں وہ خراب نہیں ہیں۔ بقایا موسمی حالات، برف اور فائرنگ سے خراب ہیں۔

’ہم نے جو دواتوئی میں گھر دیکھے ہیں وہ سارے ختم ہیں۔ معاوضہ وہ چار لاکھ روپے بتاتے ہیں لیکن میرا اپنا گھر اس وقت میں نے 40 لاکھ میں بنایا تھا جو اب ایک کروڑ میں بھی نہیں بنے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp