صفائی کے عملہ کی تکریم


کسی پیشے کی تکریم کے لئے اٹھنے والی تحریک اس پیشے سے جڑے لوگوں کی تکریم کا سوال اٹھاتی ہے اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کیا عالمی طور پر بھی اس پیشے سے منسلک لوگوں کو حقارت و تذلیل کا سامنا کر نا پڑتا ہے یا پھر یہ کسی مخصوص خطے کا خاصہ ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر میں قائم چھوت چھات کے نظام کی وجہ سے صفائی کا پیشہ ایک مخصوص گروہ/کمیونٹی سے وابستہ ہو گیا جس سے اس گروہ/کمیونٹی کی تذلیل کا سامان ہوا۔

تقسیم پاکستان کے بعد صفائی کے کام کو زیادہ تر مسیحی کمیونٹی کے ساتھ جوڑا گیا۔ یقینا پاکستانی مقامی مسیحی کمیونٹی کے بیشتر لوگوں نے مختلف شعبہ ہائے جات جیسے کہ فوج، عدلیہ، صحت اور تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں تاہم صفائی کے کام اور اس کے لئے سماجی احترام کے حوالے سے مسیحی کمیونٹی کا ذکر موضوع تحریر ہے۔

جان۔ او۔ ابرائن اپنی کتاب The Construction of Pakistani Christian Identity مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی میں ذکر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں آریہ لائے گئے ذات پات کے نظام نے مقامی باشندوں کو کچلا اور ان کی نچلی ذاتوں میں درجہ بندی کرتے ہوئے ان پر نچلے درجے کے مختلف کام تھوپ دیے جس میں صفائی کا کام نمایاں تھا۔ انگریز راج میں مشنریوں کو تبلیغ کے کام میں اونچی ذاتوں کی بہ نسبت نچلی ذاتوں کے لوگوں میں کامیابی ملی اور ان میں سے کافی لوگ مسیحی ہوئے لیکن بدقسمتی سے ان سے منسوب کام تبدیل نہ ہو سکے۔

وہ اپنی ایک اور کتاب The Unconquered People مطبوعہ آکسفورڈ پریس میں تجزیہ کرتے ہیں کہ کلاسیکل برہمن ادب، مقامی اور اس دھرتی کے اصلی قبائل جنہیں آریہ نے اپنا مطیع کیا، کو چنڈال کا نام دیتا ہے جنہیں ہندوستانی مردم شماری ( 1868۔ 1931 ) میں چوہڑا کا نام دیا گیا۔ پاکستانی خطے میں پنجاب میں ہونے والی تبدیلی میں بیشتر چوہڑوں نے مسیحیت قبول کی جس کی وجہ سے ہمیں مسیحی کمیونٹی میں صفائی کا پیشہ نمایاں نظر آتا ہے۔

ایک اور کتاب قائد اعظم، نظریہ پاکستان اور اقلیتیں میں مصنف، پادری شمعون ناصر اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ دیہاتی پنجاب میں مسیحی کافی تعداد میں سکھ زمینداروں کے ہاں مزارعین تھے لیکن تقسیم کے وقت جب مہاجرین ان جائیدادوں پر قابض ہوئے تو انہوں نے مسیحی مزارعین کو بے دخل کر کے انہیں صفائی کے کام تک محدود کر دیا، اس حوالے سے وہ دیوان بہادر ایس پی سنگھا کی پنجاب اسمبلی میں کئی گئی تقریر کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

چونکہ ہندوستانی خطے میں زیادہ تر تبدیلی نچلی ذاتوں میں آئی، اس لیے انگریز حتیٰ کہ مشنری بھی اس گروہ سے ایک خاص فاصلہ پر ر ہے۔ اردو کی مایہ ناز افسانہ نگار عصمت چغتائی اپنی سوانح عمری، کاغذی ہے پیرہن میں لکھنؤ کے مشن کالج میں اپنی تعلیمی زندگی کے حوالے سے اس طبقاتی تفریق کا ذکر کرتی ہے کہ کالج کے ہوسٹل میں تین عمارتیں تھیں اور ان میں نچلے درجہ کی عمارت میں مقامی مسیحی لڑکیوں کو ٹھہرایا جا تا تھا۔ اس کے علاوہ نچلے درجہ کے کاموں جیسا کہ مالی، چوکیدار وغیرہ کے لئے بھی مسیحی مقامی افراد ہوتے تھے۔ لیکن ان سب افراد سے انگریز ایک خاص فاصلہ رکھتے تھے جیسے کہ ان لوگوں کو اپنی تقریبات میں شامل نہ کرنا۔

مشن کالج و سکول کی حکمت عملی کے متعلق ناقدین تحفظات رکھتے ہیں کہ مشنریوں نے نو مریدوں کی تعلیم و تربیت اس حوالے سے کی کہ وہ صرف ان اداروں میں خدمات سرانجام دینے کے لئے تیار ہوں۔ مشنریوں کا ایک اور اہم کام مختلف مسیحی دیہاتوں کا قیام تھا جس نے اگرچہ ان مسیحی خاندانوں کے لئے بہتر وسائل کا ساماں کیا لیکن بعد ازاں لوگوں کی دیہاتوں سے شہروں میں نقل مکانی کے دوران وسائل اور ہنر کی عدم موجودگی بھی ان کے لئے صفائی کے پیشہ کو اختیار کرنے کی وجہ بنی۔ کچھ لوگوں کے لئے اس پیشے سے جڑے رہنے کی ایک وجہ معاشی بھی تھی کیونکہ یہ کام نسبتاً کم اوقات کا تھا اور سرکاری نوکری ہوتے ہوئے ماہانہ تنخواہ اور پنشن کی فراہمی تھی جبکہ بغیر ہنر کے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرنا مشکل تھا۔

سماجی تکریم کے حوالے سے حکومت، معاشرے اور مسیحی کمیونٹی سب کا کردار اہم ہے۔ حکومت کو سماجی پائیدار ترقی کے اہداف کے ہدف نمبر 6 کے مطابق اپنے شہریوں کے لئے صفائی اور پانی کی سہولیات کی فراہمی ممکن کر نا ہے۔ پنجاب کے چند بڑے شہروں میں ویسٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی تشکیل دی گئی ہیں جن کے ٹھیکے زیادہ تر بیرونی کمپنیوں کو دیے گئے ہیں جنہوں نے صفائی کے عملہ کو نظر انداز کیا ہے جس میں سب سے پہلے صفائی کے عملہ کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنا اور ریٹائر ملازمین کی پنشن کو روکنا، دوسرا ملازمین کے لئے بہتر سہولیات اور آلات کی عدم فراہمی ہے۔

کیونکہ اب کمپنیوں پر سرکاری قوانین لاگو نہیں ہوتے، اس لیے دوران کام فوتگی ملازمین سرکاری امدادی پیکج سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ مختلف سرکاری اداروں، میں بھی صفائی کے عملہ کے لئے اشتہارات میں ترجیحاً مسیحی لکھنا بھی قابل مذمت ہے۔ حکومت کو چاہے کہ وہ اداروں میں ایسا ماحول پیدا کرے جس سے صفائی کے عملہ کو بہتر سہولیات ملیں اور ان کی سماجی تکریم میں اضافہ ہو۔ اس تناظر میں نصاب میں صفائی کے عملہ کے احترام سے متعلقہ مواد کو بھی شامل کر نے کی ضرورت ہے۔

معاشرے کی بحیثیت مجموعی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صفائی کرنے والوں کے لئے سماجی احترام کو فروغ دے۔ صفائی کے پیشے کو ایک نجس کام یا نچلی ذات سے جڑے لوگوں کا کام نہ سمجھا جائے بلکہ صرف ایک پیشہ کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں گلی، محلے اور گردونواح کو بھی صاف رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم صفائی کے کام میں ہاتھ بٹا کر صفائی کے عملہ کے مددگار ہو سکیں۔

مختلف شعبوں میں کام کرنے والے مسیحی کمیونٹی کے افراد کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی بھی آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی و مدد کریں۔ مزید براں، مسیحی کمیونٹی کو صفائی کے عملہ کی تکریم کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب انہیں مسیحی مذہبی و سماجی حلقوں میں بھی اسی سماجی عزت سے نوازا جائے گا جس کے ہم بطور کمیونٹی اکثریتی معاشرے میں خواہاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).