سیاسی گٹھ جوڑ سیزن ٹو


سننے میں آیا کہ رواں مہینے کی 20 کو پھر سے گٹھ جوڑ سیاست کا بازار گرم ہونے کو ہے۔ وہی چہرے، وہی کردار، وہی ہیرو، وہی ولن حتی کہ رائٹر نے سٹوری کے اسکرپٹ تک بھی تبدیل کرنا گوارا نہیں کیا۔ اور تو اور موسم بھی وہی پرانا لوٹ رہا ہے نومبر کی یخ بستہ راتیں، دسمبر کی برساتیں! لیکن کیا اس سٹوری کا سٹائل ”ذرا ہٹ کے“ ہو گا؟ اور کیا اس سٹوری کا اختتام بھی وہی ہو گا جو گزشتہ برس مشاہدہ کیا جا چکا ہے؟ اگرچہ فریقین میں سے کچھ یار لوگ اسے کسی حد تک اپنی، اپنی امیابی گردانتے ہیں۔

لیکن یو ں اڑتے ہوئے آنا اور خاموشی سے چلے جانا، ججتا نہیں یار کو ایسا یارانہ، خیر ”مٹی پاؤ“ جو ہوگیا سو ہوگیا۔ آگے کیا ہوگا، سسپنس سے بھر پور سیزن ٹو ( 2 ) کا آغاز ہونے کو ہے۔ ویسے لمبی لمبی چھوڑنے والوں سے نہ تو پہلے کچھ بن پایا نہ اب بن پائے گا۔ ہاں البتہ جو سنجیدہ رہا وہ خاموشی سے کامیاب ہو جائے گا۔

پھر یہ بھی قابل توجہ ہے کہ کیا اس گٹھ جوڑ ٹرین کے سامنے کوئی جھنڈی لہرانے والا بھی ہے یا نہیں، تو اس احتمال کی فی الفور تاکیدی نفی بے سود ہوگی، اس لئے کہ جب ٹرین چلتی ہے تو اسے جھنڈی دکھانے والا سواریوں کو نہیں ڈرائیور کو نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ڈرائیور کو تلاش کرنا ہوگا، پھر اس کی شخصیت، اس کے ماضی کے گٹھ جوڑ، اور اس کی پس پردہ مک مکا پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اگر تو پھر سے بند کمرے کی مجلس میں کوئی مک مکا ہو چکا تو سہرا کس کے سر بندھے گا اس پر ہونے والے جھگڑے پر ابھی کے پر امن ماحول کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنا بھی شاید درست نہ ہوگا۔

سیزن ٹو کے جو مین کردار ہیں ان میں سر فہرست پھر ہمیں مولانا ہی نظر آرہے ہیں، جن کے ترغیب و ترہیب کے تسلسل نے پارلیمنٹ فلور پر ہاتھ جوڑ کر ہاتھ کھڑے کرنے والوں کو پھر سے ہمت دلائی۔ ویسے جو لوگ مولانا سے اچھی طرح واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا حافظہ بڑا کمال کا ہے، وہ ماضی کی کسی بھی اچھی یا بری یاد کو اپنے دماغ سے جھٹکتے نہیں۔ انہیں یادوں کے پیش نظر انہوں نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ”پی پی اور ن لیگ کے حکومت کے سہولت کار بننے پر ہمارے تحفظات ہیں۔ اسی کو ہم نے طے کرنا ہے کہ بار بار یہ صورتحال پیش نا آئے کہ ہم حکومت کے سہولت کار بھی بنیں اور اپوزیشن بھی کریں“ ۔ اس لئے سیاسی میٹنگ کے بعد انہوں نے خود کو میدان میں اترنے کے لئے وارم اپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی 7 ستمبر کو پشاور میں ایک مذہبی تقریب ”ختم نبوت کانفرنس“ کا منعقد ہونا ہے۔ جس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ماضی کی طرح اگر ان کے ہم سفر پھر ان راہوں پر ڈگمگا گئے تو وہ کریز پر کھڑے کھلاڑی، اور اس کے طرف دار مداری کو کس طرح اپنی یارکر سے پریشان کر سکتے ہیں۔

اگرچہ کچھ آراء یہ بھی سننے کو ملیں کہ یہ ایک خالص مذہبی بنیاد پر کیا گیا جلسہ تھا اسے سیاست سے جوڑنا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ رائے ان لوگوں کے اپنے اس تصور کی پیداوار ہے جو سیاست اور دینی، مذہبی امور کو الگ الگ سمجھتے ہیں، اس لئے ان کے لئے صرف اتنا کہوں گا کہ ”دل بہلانے کے لئے یہ خیال اچھا ہے“ ۔ رہی بات مولانا کی تو ان کی زبان قال و حال اس بات کا ورد کرتی ہیں ”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ گزشتہ ماہ انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ”جس وطن عزیز کو لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا اور جس ملک کا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، مگر آج تک اس حوالے سے ایک بھی قانون سازی نہیں ہوسکی“ یہ الفاظ ان کے مذہبی ترجیحات کی نمائندی کرتے ہیں، جبکہ سیاست اور دین کو جدا سمجھنے والے اسلام کے بارے میں اتنی بے باکی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔

دوسرے مین کردار پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو صاحب نے بھی ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کر دیے ہیں، اس لئے 9 ستمبر کو تالپور ہاؤس میرپور خاص میں ہلکی، ہلکی باتیں کیں اور غالباً اس کے بعد وہ بارش سے متاثرہ علاقوں کے دورہ پر روانہ ہوئے اور اپنی ہمدردیوں کا احساس دلاتے ہوئے کئی علاقوں کا دورہ کرتے رہے۔ کچھ علاقوں کو اکیلا نہ چھوڑنے کی یقین دہانی بھی کراتے نظر آئے، لیکن یاد رہے الفاظ کے یہ پھول جب وہ بکھیر رہے تھے تب آسمان کا نیلگوں رنگ بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔ بہر حال اس سفر میں کئی موڑ ایسے بھی آئے جن میں بقول ان کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن یہ لوگوں کا تھا، جب پانی کا سمندر استقبال کی راہیں ڈھونڈ رہا تھا تب وہ میڈیا ہینڈل کرنے میں مصروف تھے۔

تیسرے مین کردار نواز پارٹی کے مایہ ناز شہباز شریف صاحب ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں کراچی کے متعلق اپنی ایک دیرینہ خواہش کا اظہار کیا تو ہمیں لاہور یاد آ گیا۔ ان کی سر گرمیوں کے متعلق بات کی جائے تو وہ بھی پچھلے دنوں جب بادلوں نے شمالی علاقہ جات کا رخ کر لیا تھا تو وہ اسی دوران کراچی میں بڑے ہجوم کے درمیان دکھائی دیے، لیکن فی الحال ان پر ان کے بڑے بھائی کی سپرد کی گئی ذمہ داریوں کا اتنابوجھ ہے جسے لے کر وہ پھرتی دکھانے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن ایک معاملہ میں مؤخر الذکر دونوں پارٹیاں قدر مشترک ہیں اور وہ ہے ”توشہ خانہ ریفرنس“ جو ”نوا آیا اور چھا گیا ٹھا کر کے“ کا مصداق بن سکتا ہے۔

اب اس تمام صورتحال میں کون، کس کا، کہاں تک ساتھ دے گا؟ ا س سوال کا حتمی جواب تو آنے والے ایام میں واضح جائے گا، ہاں البتہ اس سوال کا ممکنہ جواب گزشتہ کارکردگی کو مد نظر رکھ کر دیا جائے تو یہ معاملہ ذاتی مفادات کی خاطرسیاسی حربہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لئے حالات کے پیش نظر بدلتے مفادات، اور آڑے آتی مصلحتیں صف شکن ثابت ہو سکتی ہیں۔

بڑی سیاسی جماعتیں کیوں ساتھ دیں گی؟

اس کا ایک جواب تویہ ہے کہ وہ ”ڈیل اور ڈھیل“ کی دیرینہ خواہش کے پجاری ہونے کے ناتے بارگینگ کے طور پر بھی اس کھیل میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اگر مولانا اس راہ کے تنہا مسافر بننے کی ٹھان لیں تو اس صورت میں حکومت پر تو کوئی اثر پڑے نہ پڑے لیکن اپوزیش کا ووٹ بینک کسی حد تک متاثر ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے آنکھوں والے دیکھا کرتے تھے لیکن موجودہ ”روش“ اب اندھے بھی کافی حد تک دیکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

مولانا کا کیا ہوگا؟

اس کا ممکنہ جواب یہ ہے کہ مولانا کو کسی بھیانک قدم سے روکنے کے لئے بھی کوئی حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے، جس میں سب سے پہلے جہاں تک ممکن ہوا انہیں تنہائی کا شکار کیا جائے گا، اور اگر یہ حربہ ناکام ثابت ہوا تو پھر خاموش اجتماعیت کی طرف دھکیلا جانے کا قومی امکان ہے، جس کا مشاہدہ سیزن ون میں ہو چکا ہے۔

بہر حال اگر تو سچ مچ پاکستان اور عوام کے مفاد اور ضروریات کے پیش نظر سیاسی ”پارہ“ ہائی ہو رہا ہے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے، لیکن عربی کا ایک مقولہ یا د آیا جس کا ترجمہ ہے کہ ”مالک مکان جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے“ اس کے پیش نظر عوام پاکستان جب تک ان سیاست دانوں کو اپنی آنکھوں سے ان کے لئے لڑتا دیکھ نہ لیں ان کی ظاہری فصیح وبلیغ تقریر پر دل ہارنا ایک دفعہ پھر کف افسوس ملنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اس لئے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ایک سوراخ سے کہیں دوبارہ نہ ڈسا جائے بڑے محتاط انداز سے ان سیاست دانوں کو پرکھنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی ایجاب و قبول کی کسی مجلس کا انعقاد بہتر نتائج میں معاون ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).