اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے معاہدے، کس کے لیے کتنے اہم؟


متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان منگل کو وائٹ ہاؤس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں۔

اس موقع پر بحرین کے وزیرِ خارجہ بھی موجود ہوں گے اور وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا اپنا بھی ایک معاہدہ لے کر آئے ہوں گے جس کا صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا۔

یہ معاہدے اہم کیوں ہیں؟

1۔ خلیجی ممالک کو تجارت اور دیگر مواقعے نظر آ رہے ہیں

یہ معاہدہ امارات کے لیے کافی مدد گار ہوگا جس نے نہ صرف خود کو ایک عسکری طاقت بنایا بلکہ کاروبار اور سیاحت کا مقام بھی بنایا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ معاہدہ کروانے کے لیے متحدہ عرب امارات کو وہ جدید ہتھیار فروخت کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ماضی میں وہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان میں ایف 35 سٹیلتھ لڑاکا طیارہ اور ای اے 18 جی برقی جنگی طیارہ شامل ہیں۔

متحدہ عرب امارات پہلے ہی جدید اسلحے سے لیس اپنی فوج کو یمن اور لیبیا میں استعمال کر رہا ہے۔ مگر اس کا سب سے بڑا ممکنہ دشمن ایران ہے جو کہ خلیجِ فارس کے دوسری طرف ہے۔

اسرائیل اور امریکہ دونوں کو ہی ایران پر شکوک ہیں۔ اور ایسی ہی رائے بحرین کی ہے۔ 1969 تک تو ایران بحرین پر علاقائی دعویدار رہا ہے۔

امارات اور بحرین نے پہلے ہی اپنے اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تعلقات کو کچھ زیادہ چھپا کر نہیں رکھا تھا۔ اب دونوں کھل کر تجارت کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسرائیل میں دنیا کا جدید ترین ٹیکنالوجی سیکٹر موجود ہے۔

اور کووڈ کے دور سے پہلے اسرائیلی سیاحت کا بہت شوق رکھتے ہیں اور انھیں یقیناً خلیجی ممالک کے صحرا، ساحل اور شاپنگ سنٹرز کافی پرکشش لگیں گے۔ اس میں ہر کسی کا فائدہ ہے۔

2۔ اسرائیل کی علاقائی سطح پر تنہائی کم ہوگی

بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسرائیلیوں کے لیے اہم کامیابی ہے۔

وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اس لائحہِ عمل پر یقین رکھتے ہیں جسے 1920 کی دہائی میں’ آئرن وال‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے تحت اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کو اس قدر مضبوط بنا دیا جائے کہ عربوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو سوائے اس کے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔

اسرائیلیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں تنہائی پسند نہیں ہے۔ مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں میں گرم جوشی نہیں تھی۔ مگر وہ یروشلم سے بہت دور خلیجی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے حوالے سے زیادہ پرامید ہو سکتے ہیں۔

ایران کے خلاف میں بھی ان کب بڑآ فائدہ ہے۔ وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو ایران کو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان کا موازنہ نازیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسرائیل نے اب متحدہ عرب امارات کی جانب سے ہتھیار خریدنے پر اعتراضات بھی کم کر دیے ہیں۔

وزیراعظم خود بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی کورونا وائرس کے حوالے سے پالیسی آغاز میں بہت اچھی رہی مگر اب اسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یروشلم میں آئے روز ان کے خلاف ریلیاں ہو رہی ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے لیے اس سے بہتر اور کوئی وقت نہیں تھا۔

اس بارے میں

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل اور بحرین کے درمیان امن معاہدے کا اعلان

’کیا محمد بن زاید نتن یاہو کے ساتھ تصویر بنوانے سے ڈرتے ہیں؟‘

اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟

امارات، اسرائیل معاہدہ خلیجی ریاستوں کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

3۔ ڈونلڈ ٹرمپ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بڑی کامیابی کا جشن منا سکیں گے

یہ معاہدے صدر ٹرمپ کے لیے بھی کئی اعتبار سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ ایران پر دباؤ بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔ ادھر انتخابات کے سال میں یہ معاہدے اس دعوے کے لیے فائدہ مند ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین معاہدہ ساز ہیں۔

ان کا کوئی بھی اقدام جو اسرائیل اور خاص طور پر بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے مفاد میں جائے اس سے امریکہ میں ایونجلیکل فرقے کے عیسائی ووٹروں کو مطمئن کرنے میں مدد ملے گی جن کی اکثریت صدر ٹرمپ کی حامی ہے۔

ایران مخالف ‘فرینڈز آف امریکہ’ نامی اتحاد اب بہترین انداز میں کام کر سکے گا جب عرب ممالک خفیہ طور پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ کام کر سکیں گے۔

صدر ٹرمپ جسے ’ڈیل آف دی سنچری‘ کہتے ہیں، یعنی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن، تو وہ معاہدہ ابھی نہیں ہو سکے گا۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے کو ’ابراہم ایکارڈ‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کی جانب سے خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل سے پہلی پرواز سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے امارات پہنچ گئی

کیا امارات، اسرائیل معاہدے میں ایک فلسطینی شہری کا بھی اہم کردار ہے؟

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا معاہدہ اور خطے کی سیاست

4: فلسطینیوں کے لیے دھوکہ

ایک بار پھر انہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔

انھوں نے ’ابراہم ایکارڈ‘ کہلانے والے اس معاہدے کو اپنے ساتھ دھوکہ قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے عربوں کا وہ طویل اتفاق رائے ٹوٹ گیا ہے جس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی قیمت فلسطین کی آزادی تھی۔

اور اب اسرائیل عرب ریاستوں کے ساتھ نئے تعلقات مضبوط کر رہا ہے جبکہ فلسطینی اب بھی مشرقی یروشلم میں اور مغربی کنارے پر اسرائیل قبضے میں مشکلات کا شکار ہیں اور غزہ میں گویا کھلے قید خانے میں جی رہے ہیں۔

ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید النہیاں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے عوض اسرائیل نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بظاہر اس ارادے سے ویسے بھی پیچھے ہٹے ہوئے ہیں، کم از کم فی الوقت، کیونکہ ان پر بین الاقوامی دباؤ کافی زیادہ ہے۔

متحدہ عرب امارات نے انہیں ایک راستہ تجویز کیا جو بصورت دیگر ان کے لیے ایک سیاسی بند گلی ثابت ہو سکتا تھا۔

بحرین کے اس معاہدے میں شامل ہونے کے بعد اب فلسطینیوں کی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔

یہ سب سعودی عرب کی توثیق کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سعودی عرب ہی تھا جس نے عرب امن معاہدہ تحریر کیا تھا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلمانوں کے دو بڑے مقدس مقامات کے نگران ہونے کی حیثیت سے شاہ سلمان کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اچانک اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔

ان کے بیٹے اور جان نشین محمد بن سلمان شاید اس معاملے میں کم ہچکچاہٹ محسوس کریں۔

5: ایران کے لیے نیا دفاعی درد سر

اس معاہدے کی ایرانی قیادت کی جانب سے پرزور مذمت کی گئی ہے۔ اس ابراہم ایکارڈ نے ان کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پابندیاں ان کے لیے اقتصادی پریشانیوں کا سبب ہیں۔ اب انہیں سٹرٹیجک درد سر کا بھی سامنا ہے۔

اسرائیل کے فضائی اڈے ایران سے ایک طویل پرواز کی دوری پر ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات محض خلیج کے اس پار ہیں۔ اگر ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کی پھر سے بات ہوتی ہے تو یہ اس حوالے سے بہت زیادہ اہم ہوں گے۔

اسرائیل، امریکہ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے پاس کئی راستے ہیں۔ اور ایرانیوں کے پاس بچ نکلنے کے راستے کم ہو گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp