تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور سچی مسلمانی



ہم ابھی دوپہر کا کھانا کھا کر قیلولے کی نیت ہی باندھ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص اتنی تیزی سے کمرے میں داخل ہوا کہ پردے میں الجھ کر سیدھا فرش بوس ہو گیا۔ ہم ہکا بکا ہو کر دیکھ ہی رہے تھے کہ اس شخص نے چہرہ اوپر اٹھایا اور ہمیں بھائی صالح خان ترین کی شدت جذبات سے تمتماتی ہوئی شکل دکھائی دی۔

ہم: خیریت تو ہے بھائی صالح ترین؟ کیا ہوا؟ کہیں آگ لگی ہے یا عالم فانی میں جماعت کا بول بالا کرنے گئے تھے اور اب پولیس سے بھاگ رہے ہیں؟
صالح ترین: ایسا گمان بھی کیوں کر ہوا تمہیں؟

ہم: بھائی صالح ترین، آج ہی امیر الصالحین کی ایک ایسی ہی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جس میں وہ پولیس سے بچنے کے لئے بہ ہزار دقت دیوار پھاند کر دوسری طرف اترتے ہیں تو وہاں موجود پولیس والے ان کو گرم جوشی سے تھام لیتے ہیں۔ بالکل آپ کے انداز میں ہی وہ گرے تھے۔
صالح ترین: خدا غارت کرے اس دجالی میڈیا کو جو ہر جگہ کیمرا لے کر پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال بات کچھ اور ہے۔ آج ہمارا موقف درست ثابت ہو گیا۔

ہم: کون سا موقف صالح ترین بھائی؟
صالح ترین: یہی موقف کہ ایک مذہبی جماعت کے لئے لازم ہے کہ سیاست کو دین کا حصہ قرار دے۔ لیکن ہمارے اس درست موقف کو دیوبندی عموماً، اور تبلیغی جماعت والے خصوصاً ماننے سے انکاری تھے۔

ہم: ہیں؟ یہ موقف کیسے درست ثابت ہو گیا؟ آپ نے تو ان کو خوب شرمندہ کیا ہو گا۔
صالح ترین: وہ تو ظاہر ہے کرنا ہی تھا۔ حق و انصاف کا بول بالا جو ہوا ہے۔ آج پچھتر سال بعد حالات نے ہمارے موقف کو برحق ثابت کر دیا ہے۔

ہم: کون سے حالات نے ایسا کر دیا ہے صالح ترین بھائی؟
صالح ترین: تم نرے کنوئیں کے مینڈک ہو اور حالات سے بالکل بے خبر رہتے ہو۔ اسی لئے تمہاری رائے ہمیشہ مبنی بر جہالت ہوتی ہے۔ یعنی تمہیں علم ہی نہیں ہے کہ حکومت نے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کے تعلیمی اداروں میں داخلے اور قیام پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ہم: بخدا یہ تو ظلم ہے۔ بندہ خواہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، یا کمیونسٹ جماعت سے، اسے تعلیم کے حق سے محروم کرنا ظلم عظیم ہے۔ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ کسی طالب علم پر یہ شبہ ہو کہ وہ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے، اور اسے یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ دینے سے ہی انکار کر دیا جائے۔ یا اتنے سرد موسم میں ایسے طلبہ کو ہاسٹل سے ہی نکال دیا جائے جو رائے ونڈ کا چکر لگا آئیں۔
صالح ترین: بھائی تم سمجھے نہیں ہو۔ یا لبرل فاشسٹوں کی طرح ہٹ دھرمی سے کام لے کر جانتے بوجھتے سمجھنے سے انکاری ہو۔

ہم: صالح ترین بھائی، کیا ناسمجھی ہوئی ہے ہم سے؟ بتا تو دیں؟
صالح ترین: طلبہ کے داخلوں پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ تبلیغی پارٹیوں کے یونیورسٹی میں جا کر تبلیغ کرنے اور اس نیک مقصد کی خاطر یونیورسٹی میں قیام کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ہم: اوہ۔ اچھا اب معاملہ سمجھ میں آیا۔ لیکن اس سے آپ کا پچھتر سالہ ضعیف موقف کیسے درست ثابت ہو گیا اور دیوبندی و تبلیغی کیسے غلط ثابت ہو گئے ہیں؟

صالح ترین: دیکھو، جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اقتدار حاصل کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ یہ دیوبندی مفسد ہمیشہ ہمارے نظریے کو پولیٹیکل اسلام کہہ کر ہمیں گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ جو بات تیرہ صدیوں میں کسی نے نہیں کہی، وہ چودھویں صدی میں ہم نے دریافت کر لی ہے۔ اور خاص طور پر تبلیغی جماعت والے تو کہتے تھے کہ کسی بھی خطے کا جو بھی حکومتی قانون ہے، اس کی پابندی کرو، اور چپ چاپ لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیتے رہو۔ خود سے حکومت بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج اس حکم نامے سے ثابت ہو گیا ہے کہ ہم درست تھے۔ آج اگر جماعت کی حکومت ہوتی، تو یہ حکم نامہ جاری ہی نہ ہوتا۔

ہم: یہ تو نہایت دلچسپ موقف ہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ حکم نامہ کیوں جاری ہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کا سا بھیس بنا کر دہشت گردوں کے یونیورسٹیوں میں داخلے کی کوئی سازش پکڑی گئی ہو تو ایسا حکم نامہ جاری کیا گیا ہو؟

صالح ترین: یا تو تم ہمیں احمق سمجھتے ہو، یا تم خود احمق ہو۔
ہم: بخدا خاکسار احمق نہیں ہے کہ کئی پڑھے لکھے لوگ اس بات کی گواہی دے چکے ہیں۔ لیکن قوم آپ کی بات کے بقیہ حصے سے متفق ہے۔

صالح ترین: دیکھو، ابھی چند دن پہلے ہی میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان کو لبرل بنانا ہے۔ یعنی وہ اسلام دشمنی پر آمادہ ہیں۔ اور دعوت و تبلیغ پر پابندی کے اس حکم سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اسلام کے سچے راستے پر چلنے والوں کو روکنے پر اتر آئے ہیں۔ ہر سچے مسلمان کے دشمن بن گئے ہیں۔ اسی لئے تبلیغی جماعت پر پابندی لگا دی ہے۔ اور اب ہم دیوبندیوں اور تبلیغیوں پر خوب ہنس رہے ہیں کہ دیکھو وقت نے کیسے ہمیں سچا اور انہیں جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔

ہم: صالح ترین بھائی، کیا واقعی حکومت نے سچے مسلمانوں کی دشمنی میں یہ قدم اٹھایا ہے؟
صالح ترین: بالکل۔ اس میں تو شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی ہے۔

ہم: بخدا افسوس اور صدمے سے اب تو میری بہت بری حالت ہوئی جا رہی ہے۔
صالح ترین: وہ کیوں؟

ہم: یعنی حکومت آپ کو سچا مسلمان ہی نہیں سمجھتی ہے، اس لئے بجائے اس کے کہ تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ یا جماعت اسلامی کی موجودگی پر پابندی لگائے، اس نے کبھی کبھار وہاں جانے والے تبلیغی جماعت کے وفود پر پابندی لگا دی ہے۔ یعنی اس ’لبرل فاشسٹ‘ حکومت کی طرف سے، جو آپ کی پختہ رائے میں اسلام دشمنی پر اتری ہوئی ہے تبلیغی جماعت والوں کو سچا مسلمان سمجھا گیا ہے، اور جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے معاملے میں حسن ظن برتا گیا ہے۔ میری رائے میں تو یہ آپ کے لئے لمحہ انبساط کی بجائے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ بات آپ کی سچی مسلمانی پر آ رہی ہے۔

صالح ترین: تم ہو ہی نابکار۔ ایک اچھے بھلے دن کا بیڑہ غرق کرنے میں تمہارا کوئی ثانی نہیں ہے۔
Feb 3، 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments