پنجاب کا نیا بلدیاتی نظام عوام کے لیے کتنا فائدہ مند ہو گا؟


گزشتہ روز پنجاب کے وزیر قانون بشارت راجہ کے زیر صدارت اجلاس میں 4 دسمبر کو غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق پہلے مرحلے میں ویلیج اور نیبرہڈ کونسلوں کے غیر جماعتی انتخابات میں 27 ہزار افراد بلدیاتی سسٹم کا حصہ بنیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسل اور میٹروپولیٹن کے انتخابات جنوری میں منعقد کرائے جائیں گے۔

حکومت کا یہ اعلان حقیقت کا روپ بھی دھارے گا یا دیوانے کی بڑ ثابت ہو گا، اس کا تعین آنے والے وقت میں ہو جائے گا۔ تاہم قانون اور بلدیاتی سیاست کے ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے منظور کرائے جانے والے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2019 ء اور پنجاب پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسل ایکٹ مجریہ 2019 ء کے دونوں بلز ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے، بلکہ ان دونوں کے کئی آرٹیکلز باہم متضاد ہیں۔

نئے بلدیاتی نظام میں مقامی حکومتوں کو عملاً افسر شاہی کے ماتحت بنا دیا گیا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں یونین کونسلیں اور ضلع کونسلیں ختم کر دی گئی ہیں، ماضی کے نظام کی طرح میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹیاں، ٹاؤن کمیٹیاں اور تحصیل کونسلیں نئے نظام میں بھی موجود ہیں، ضلعی کونسلیں خیبر پختونخوا میں تو موجود ہیں مگر پنجاب میں ان کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

تحصیل اور میونسپل کونسلیں پنچایت اور نیبرہڈ کے نظام سے منسلک نہیں ہیں، بلکہ دو الگ الگ نظام ہیں، پنجاب کے نئے نظام کو پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیا گیا ہے، نئے نظام میں حکومت کی مداخلت کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 140 (اے ) کی روح کے منافی ہے۔

نئے بلدیاتی نظام کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں پنچایت اور نیبرہڈ کے انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں نہ صرف اختیارات بلکہ 30 فیصد ترقیاتی بجٹ بھی نچلی سطح تک پہنچائے جائیں گے۔ دیہات میں ویلج کونسل اور شہروں میں نیبرہڈ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر جبکہ تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہو گا۔ ویلج کونسل اور نیبرہڈ کونسل میں براہ راست الیکشن ہو گا، زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین قرار دیا جائے گا۔

صوبہ بھر میں 22 ہزار ویلج کونسلیں جبکہ 138 تحصیل کونسلیں قائم کی گئی ہیں، قانون میں اداروں کی مدت میں کمی اور تعلیم کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے، جبکہ پروفیشنل اور ٹیکنیکل ارکان کی تعداد کو برابر کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق نئے قانون میں عوامی نمائندوں کو اختیار تو دیا جا رہا ہے لیکن ان کی اہلیت اور کارکردگی جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، ضلع کونسل کا نظام اور یونین کونسلیں ختم کرنے سے دیہی عوام کو میرج، ڈیتھ، برتھ اور طلاق سرٹیفیکیٹس کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔

پنجاب کے لئے جس بلدیاتی نظام کی منظوری دی گئی ہے اس میں منتخب نمائندوں کی صوابدید پر 60 سے 75 ارب روپے تک کے فنڈز مختص کیے جائیں گے، حکومت کا دعوی ہے کہ نئے نظام کا مقصد سٹیٹس کو ختم کر کے ایسا طریق کار رائج کرنا ہے جس کے تحت منتخب نمائندوں کو کسی بھی سطح پر بلیک میل نہیں کیا جا سکے گا اور وہ اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلاح وبہبود پر مرکوز کر سکیں گے، ہرسال ترقیاتی بجٹ کا 30 سے 40 فیصد حصہ بلدیاتی اداروں کو دیا جائے گا۔

بعض سیاسی و قانونی ماہرین کے مطابق نئے بلدیاتی نظام کا واحد مقصد صوبہ پنجاب میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بلدیاتی سطح پر موجود اثرورسوخ اور انتخابی طاقت کو ختم کرنا ہے، جبکہ نئے بلدیاتی نظام سے غیر سیاسی عناصر اور ٹیکنوکریٹس کو ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے، شنید ہے کہ آئندہ سال 31 جنوری سے قبل بلدیاتی ادارے وجود میں آ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).