جنید حفیظ اور انصاف کا خون



جنید حفیظ جس کا نام آج بھی امریکہ کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی میں دنیا کے مایہ ناز اسکالروں میں درج ہے لیکن وہ ایک جھوٹے مقدمے کی وجہ سے سینٹرل جیل ملتان میں خطرناک قیدیوں کے لیے بنائے گئے سیل میں قید تنہائی کاٹ رہا ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے جنید حفیظ نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا لیکن انگریزی ادب کی طرف زیادہ رجحان ہونے کی وجہ سے میڈیکل کے شعبے کو خیرباد کہ کر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں داخلہ لے لیا اور 39 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے بی اے میں 3.99 جی پی اے سکور کیا۔ جنید ان پانچ طلباء میں سے ایک تھا جنہیں شاندار کارکردگی کے مظاہرے پر پاکستان سے فل برائٹ اسکالرشپ کے لیے منتخب کیا گیا۔

2009 میں فل برائٹ اسکالرشپ ملنے کے بعد امریکی ریاست مسی سپی کی جیکسن اسٹیٹ یونیورسٹی سے لٹریچر، تھیٹر اور فوٹو گرافی میں ماسٹرز کرنے کے بعد 2011 میں پاکستان میں واپس آیا۔ واپس آنے کے بعد وزٹنگ لیکچرار کی حثیت سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا لیکن شدت پسند طلبا گروہ اسلامی جمیعت طلباء کو اس کے خیالات سے اختلاف تھا اس لیے انہوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا اور قدامت پسند طبقے کو بھڑکا کر جنید کے خلاف پمفلٹ لکھے اور یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے ہڑتالیں وغیرہ کیں۔

جنید کے والد کے مطابق جمیعت کے لوگ یونیورسٹی پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے جنید کی جگہ کسی اور کو اس پوسٹ پر رکھوانا چاہتے تھے۔ جنید حفیظ نے یونیورسٹی میں خواتین کے حقوق سے متعلق ایک سیمنار منعقد کروایا تھا جس میں مشہور مصنفہ اور ایکٹوسٹ قیصرہ شاہراز کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس سیمنار کے اختتام پر جنید اور قیصرہ کے خلاف گستاخانہ کلمات کی ادائیگی کا الزام لگایا گیا، انگلش ڈپارٹمنٹ کی سربراہ شیریں زبیر اور قیصرہ شاہراز تو جان بچا کر ملک سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن جنید حفیظ کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وکیل راشد رحمان کو، جو جنید حفیظ کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے، 7 مئی 2014 کو ان کے چیمبر میں گھس کر نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ اس سے قبل عدالت میں سماعت کے دوران تین افراد نے جج کے سامنے راشد رحمان کو دھمکی دی تھی کہ آپ اگلی پیشی تک زندہ نہیں رہیں گے لیکن راشد رحمان کے اس معاملے کی طرف توجہ دلانے کے باوجود جج نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا نہ ہی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی تحریری درخواست پر حکومت نے ان کی حفاظت کا بندوبست کیا تھا۔

جنید حفیظ حفیظ کو دسمبر 2019 میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے لیکن ان کے خلاف چلائے جانے والے مقدمے کی شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ جنید حفیظ کے مقدمے کی کاروائی کے دوران سات مختلف ججوں کا تبادلہ ہوا اور کیس کو غیر ضروری طور پر طویل عرصے تک لٹکایا گیا۔

جنید حفیظ کے خلاف مقدمہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ پوسٹ کرنے کا بنایا گیا جس میں استغاثہ کا گواہ پیش ہوا جس نے سیمنار کا ذکر ہی نہیں کیا لیکن جنید کی تحریروں میں گستاخانہ مواد کی موجودگی کا کہا اس سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ گستاخانہ پوسٹ کا متن بتائے تو اس نے کہا کہ گستاخی چونکہ انگریزی زبان میں کی گئی ہے لہذا وہ بتانے سے قاصر ہے کیونکہ وہ انگریزی زبان سے مکمل طور پر نابلد ہے۔

اس کے علاوہ جنید کی گرفتاری 13 مارچ 2013 کو ہوئی لیکن پولیس نے سوشل میڈیا پوسٹ کے حوالے سے جو پرنٹس دیے وہ فروری کے مہینے میں نکالے گئے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شدت پسند گروہ کے پریشر کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکے۔

جنید نہ ہی پہلا شخص ہے نہ ہی آخری جس کے خلاف بلاسفیمی کا جھوٹا اور پولیٹیکلی موٹیویٹڈ مقدمہ قائم کیا گیا ہے اس سے قبل ہم نے آسیہ مسیح کا مقدمہ دیکھا جس نے بے گناہ ہونے کے باوجود دس سال جیل میں گزارے ایک اور شخص 17 سال جیل میں گزارنے کے بعد بے گناہ قرار دے کر رہا کیا گیا۔ بلاسفیمی کے بیشتر مقدمات ذاتی جھگڑوں اور سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).