فیری لینڈ کا یادگار سفر


فیری میڈوز کا صرف خواب دیکھنا اور اس تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کرنا دونوں الگ الگ کام ہیں۔ ایک آسان ہے جبکہ ایک مشکل۔ خواب آپ کہیں بھی اور کسی بھی شہر کے آرام دہ کمرے میں بیٹھ کے دیکھ سکتے ہیں لیکن وہاں تک جانے کے لیے سفر کرنا انتہائی صبر آزما کام ہے۔

بہرحال سننے میں آیا تھا کہ سفر جیسا بھی ہو کٹ جاتا ہے اور اگر اس سفر میں اپنوں کا ساتھ ہو تو پھر آپ اس سفر میں انگریزی والا سفر کرتے ہوئے بھی یادوں کی پٹاری میں اچھی اچھی یادیں سمیٹ لاتے ہیں۔

میرا یہ پہلا سفرنامہ بھی اسی شمال کا ہے جہاں یہ فیری میڈوز بستا ہے۔ دن تھا گرمی کا اور شہر تھا لاہور جہاں سے فیری لینڈ کے اس سفر کے لیے لاہوری فیریز یوں رخت سفر باندھ کے ساتھ نکلی کہ جیسے گویا کسی شادی کے فنکشن پر پہنچنا ہو۔ بہرحال یہ ایک کزنز ٹرپ تھا جس کا پلان کافی عرصے تشکیل دیا جا رہا تھا اور بالآخر مقررہ دن ہم قرآن کے سائے تلے روانہ ہوئے۔

پرخطر راستوں کا سن چکے تھے لہذا کوشش یہی تھی کہ شام سے پہلے کہیں قیام کیا جائے اور یوں ہماری پہلی قیام گاہ بابوسر ٹاپ قرار پائی جہاں آ کر پتا چلا کہ پلان میں کہیں کچھ غلطی ہو گئی ہے کیونکہ آگے کا راستہ بند تھا لیکن پھر چند گھنٹوں بعد خوش قسمتی نے یوں ساتھ دیا کہ راستے کھلنے کی اطلاعات ملی۔

گاڑی پہاڑوں کی سڑکوں پہ بل کھاتی گونر فارم پہنچ گئی جہاں رات کا قیام تھا اور صبح ناشتے کے بعد ہم نکل پڑے فیری میڈوز کی طرف جس کا آدھا راستہ جیپ کے ذریعے طے ہونا تھا۔ میں نے جب جیپ کے سفر اور مقامی ڈرائیور صاحب کی کم عمری دیکھی تو سوچا جو کچھ آتا ہے پڑھ لوں مگر ڈرائیور صاحب نے کمال مہارت سے میرے ڈر کو کم کیا اور ہم آنکھوں کو خیرہ کرنے والے نظاروں اور پہاڑوں کی خوبصورتیوں سے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سے آگے کا سفر پیدل تھا۔

جیپ کے تھکا دینے والے سفر کے بعد پیدل سفر پے دل راضی تھا اور بظاہر لگ رہا تھا کہ راستوں میں کچھ مشکل نہیں لیکن پھر کچھ دیر بعد یہ سمجھ آیا کہ راستے بھی امتحان لیتے ہیں۔ دور سے بہت پاس نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی ان پہ سفر کرنا شروع کرو آنکھ مچولی کھیلتے تھکا دیتے ہیں۔

یہاں کچھ نے پہاڑی جہاز یعنی گھوڑوں اور خچروں کو پیدل چلنے پر ترجیح دی لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو ان راستوں پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑنے کو تیار تھے لہذا ٹولیوں کی شکل میں اونچے، نیچے راستوں پر چڑھائی جاری رہی جن میں مجھ جیسی بھی شامل تھی۔

اس سارے منظر میں ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کام آئی اور ہم ایک دوسرے کو موٹیویٹ کرتے رہے کہ اگر آج یہ پیدل سفر طے کر لیا تو کل کو ہم بھی اپنی بہادری اور حوصلے کے قصے سنا سکیں گے لیکن پاؤں تھے کہ ہمیں لگاتار بد دعائیں دے رہے تھے لیکن پھر جس طرح سے نانگا پربت نے ہمیں سلامی دی ہماری ساری تھکن اڑن چھو ہو گئی۔

روح کو سکون دینے والی شام ہماری منتظر تھی۔ اب انتظار تھا تو پیچھے رہ جانے والے ہماری ایک ساتھی اور دو جیالے جوانوں کا جو پیچھے رہ گئے۔ ان کا انتظار تشویش اور بے چینی پیدا کر رہا تھا۔ وہ رات تاروں بھرے آسمان سے خوبصورت تھی مگر ہماری فکر نے اجازت نہ دی کہ ہم اس سے محظوظ ہوں بہرحال ہمارے کچھ ساتھی پیچھے رہ جانے والے ساتھیوں کی کھوج میں نکلے اور یوں پھر رات گئے ہم نے ان پہاڑوں کے درمیاں قدرت کی تخلیق کو جی بھر کر داد دی۔ اس نظارے کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں رات کے کھانے کے ساتھ بون فائر کا اہتمام تھا اور پھر اگلی صبح ہم بیال کیمپ اور ناگو ماہی جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ اگلا سفر بھی خاصا تھکا دینے والا تھا لیکن ہمت کرتے ہوئے بہرحال ہم دوپہر تک بیال کیمپ پہنچ گئے۔ یہاں کی خاموشی بولتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور ناگو ماہی کے پہاڑ اپنا سحر پھونک رہے تھے جو دل کے نہاں خانوں میں کہیں ثبت رہ گئے۔ یہاں کے حسن میں سب کچھ ہوتے بھی ایک تنہائی کا عالم تھا جسے سمجھنا شاید انسانی فطرت کے بس میں نہیں۔ یہی فیری میڈوز کی منزل تھی۔

یہاں ہر اک نے کیمپ کوکنگ کے جوہر دکھائے اور ویو پوائنٹ سے قدرتی نظاروں کو سلامی دی۔ شام کب ہوئی کچھ پتا ہی نہیں چلا اور ہم اسی سحر میں کھوئے رہے۔ مجھے فیری میڈوز ایک خطرناک حسینہ لگی جو پرخطر راستوں سے ہو کر خود کا دیدار کرواتی ہے۔

ہماری اگلی منزل سکردو تھا۔ جہاں اگلے دن ہم نے قیام کیا اور شام ہونے کے قریب جب ہم نے اپر کچورا جھیل کے خوبصورت راستوں کا نظارہ کیا تو آنکھیں گویا اس قدرت کے سب سے حسین مناظر کو قید کر رہی تھیں۔ یہاں جھیل کنارے چائے کا بھی اپنا ہی مزا تھا جس نے اعصاب کو ایک نئی طمانیت بخشی۔

گاڑٰی اگلی منازل کی طرف تھی اور محفل سب کزنز کے شور و غل اور موسیقی سے پر تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ چند منچلے فیری میڈوز کو دیکھ کر مست ہو گئے ہیں۔ یہاں شنگریلا آ کر قیام کیا۔ اگلی صبح منٹوقہا واٹر فال کی طرف گئے جہاں پہاڑوں سے بہتا پانی پیاسی روح کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہے پر شرط یہ ہے کہ سیراب وہی حاصل کر سکتا ہے اس کی گہرائی سے آشنا ہو ورنہ دیکھنے والے کے لیے بس بہتا پانی۔

شگر فورٹ کا نظارہ بھی کافی دلفریب تھا لیکن ہمیں وہاں پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو گئی۔ جہاں پہاڑوں پہ ڈوبتا سورج اپنی کشش میں ہمیں قید کر رہا تھا بہرحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے شگر فورٹ بھی دیکھ لیا۔

یہاں ہماری گاڑی نے شاید ہمارے بوجھ سے ذرا اکتا کر ٹائر ناکارہ ہونے کا اعلان کیا اور اس کے بدلے میں ملنے والا انتظار ہمارے حصے میں آیا اور یوں تھوڑے ریسٹ کے بعد چلتے، پھرتے، ٹہلتے پہاڑ کے پار شوگر پیلس آٰیا۔

اس جگہ سے آسمان کا نظارہ بڑا دلچسپ تھا۔ خاموش رات میں آ سمان کی چادر سفید موتیوں سے بھری ہوئی تھی اور اس سے دل کے دریچوں میں شمعیں روشن ہو رہی تھی۔ سب اس حصار میں جکڑ گئے اور یہ بھی ایک بہترین لمحہ قرار پایا۔

یہاں کھانے کا اہتمام ہوا۔ اگلی صبح شنگریلا جھیل کنارے چھاؤں میں آدھے مناظر آنکھوں میں محفوظ کیے اور آدھے کیمرے کے سپرد کیے اور آگے چل نکلے۔ یہاں سے اگلی منزل وادی سوق تھی جس کی جھیل کا بہتا پانی فضا میں نغمے بکھیر رہا تھا اور وہیں پھر انہی لہروں کے سنگ ہم نے بھی گیت بکھیرے۔

رستے اور منزلیں تبدیل ہوتی جا رہی تھی ہم کچھ دیر کے لیے سکردو ٹاپ ویو پر ناشتے کے لیے جس کے بعد دیوسائی کا رخ کیا۔ یہاں بادلوں کا سایہ ہمارا بہترین رفیق رہا۔ اس سفر میں ایک کردار کا اضافہ ہوا اور وہ تھا بابو ڈرائیور جس نے ٹرکوں پہ لکھے سب شعر یاد کر رکھے تھے اور وہ سبھی اس نے ہمارے بھی سماعتوں کے گوش گزار کیے۔

شیوسر جھیل سے گزرتے ہم اگلی منزل کی جانب گامزن سفر تھے اور استور پہنچ کر ہوٹل کے حالات دیکھ کر اسی وقت گلگت جانے کی ٹھان لی۔ یہاں دریائے گلگت کنارے رات کے کھانے کا اہتمام تھا۔ یہاں فیری لینڈ کے ساتھیوں کی واپسی کے سفر کا آغاز ہوا اور یہی اختتام تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).