موریا آتشزدگی: ایک باپ جو یونان میں پناہ گزیں کیمپ کی بجائے اپنے جنگ زدہ ملک میں واپسی کا سوچ رہا ہے


طالب شاہ حسینی نے اپنی تین بیٹیوں اور بیمار بیوی کو ساتھ لیا اور دوڑ پڑے۔ موریا کیمپ میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔

وہ یہ منظر دور سے دیکھتے رہے جو بظاہر زیادہ آگ نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ پھر سینتیس سالہ افغان فنکار نے قریب جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے گھروالوں سے کہا کہ وہ اپنے خیمے میں رہیں،مگر جب وہ واپس آئے تو افراتفری مچی ہوئی تھی۔

انھوں نے بتایا: ’یہ بہت ہی خوفناک تھا۔ میری چھوٹی بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ ابو کیا ہم یہیں مر جائیں گے۔‘

یونان کے جزیرے لیسبوس میں قائم اس کیمپ میں گذشتہ منگل کی رات آگ لگی اور سب کچھ راکھ کر ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

یونان میں تارکین وطن کا سب سے بڑا مرکز آتشزدگی سے تباہ

یونان کے قریب تقریباً نو سو تارکین وطن کو بچا لیا گیا

یونان: تارکین وطن کا کیمپ تباہ

بے گھر اور بے یار و مددگار

طالب شاہ اور ان کی بیوی بچے جھاڑیوں میں سے بھاگتے اور باڑوں پر سے پھلانگتے ہوئے 90 منٹ تک دوڑتے رہے تب کہیں جا کر جائے امان میسر آئی۔

انھوں نے رات ہزاروں پناہ گزینوں اور تاریکین وطن کے ساتھ ایک کار پارک میں گزاری۔

طالب شاہ نے بتایا: ’میری بیٹیاں مجھ سے کہتی رہیں، ’ابو ہمیں سردی لگ رہی ہے، ہم یہاں کیوں ہیں، اب کیا ہو گا ہمارے ساتھ؟‘ مگر میرے پاس اس کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ بہت مشکل ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 2019 میں طالبان سے اپنے اہلخانہ کو بچانے کے لیے جب انھوں نے افغانستان چھوڑا تب سے وہ موت سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔

اور جب سے وہ موریا کیمپ میں آئے ہیں تب سے دن گِن رہے ہیں: نو ماہ اور پانچ دن۔

اس کیمپ میں صرف 3 ہزار افراد کی گنجائش تھی جس میں دنیا بھر سے 13 ہزار افراد آ کر رہ رہے تھے۔ یہاں 70 ملکوں کے لوگ آباد ہیں مگر اکثریت افغان ہیں۔

طالب شاہ کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ میں گزرا وقت ان کی زندگی کا سب سے تلخ تجربہ ہے۔ انھوں نے کیمپ میں ایک حاملہ عورت کو چاقو کے زخموں سے مرتے دیکھا، ڈکیتی اور چوری ہوتے دیکھی۔

ان کا کہنا تھا ’میں کئی دن سو نہیں سکا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں لوگ میرے خیمے میں گھس کر مجھے اور میرے کنبے کو نہ مار دیں۔‘

طالب شاہ نے کئی ماہ اپنی بیمار بیوی اور تین بیٹیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے عارضی خیمے میں گزارے۔ ان کی بیوی کو گردوں کا عارضہ لاحق ہے۔

بار بار منت کرنے کے بعد کہیں جا کر انھیں تقریباً ایک ماہ پہلے ایک بڑا خیمہ ملا جس میں ایک اور کنبہ بھی رہتا ہے۔

انھوں نے بتایا، ’ہمیں نیا خیمہ ابھی ہی ملا تھا مگر اب یہ جل چکا ہے۔ اگر ہم جان بچانے کے لیے نہ بھاگتے تو ہم بھی اس کے ساتھ جل چکے ہوتے۔‘

طالب شاہ شمالی افغانستان میں فاریاب نیشنل تھیٹر کے سرکردہ رکن تھے۔

وہ اپنے علاقے میں مقبول فنکار تھے اور اکثر ٹی وی شوز میں شریک ہوتے تھے جن میں وہ جنگجوؤں کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانے کے علاوہ ہلکے پھلکے انداز میں سیاسی اور سماجی مسائل کے بارے میں شعور بھی بیدار کرتے تھے۔

ان کی شادی 2009 میں ہوئی، ان کی تین بیٹیاں، فاریمہ 9 برس، پاریسہ 7 برس اور مرجان 4 برس کی ہیں۔

ان کی بیوی ایک بیوٹی پارلر میں کام کرتی تھی۔ زندگی اس وقت تک آرام سے گزر رہی تھی جب انھوں نے طالبان کے بارے میں مزاح کیا اور افغان فوج کی تعریف کی۔

اس کے بعد انھیں طالبان اور ایک مقامی ملا کی طرف سے دھمکیاں ملنے لگیں۔

انھوں بتایا، ’مجھے اپنے ملک سے محبت ہے اور میں جمہوریہ اور حکومت کے لیے کام کرنا چاہتا تھا مگر جب میری زندگی کو خطرہ لاحق ہوا تو انھوں نے میری کوئی مدد نہیں کی۔‘

ان کے والد، دو بھائی اور ایک بھتیجا دہائیوں پر محیط جنگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ اپنے خاندان میں وہ ہی باقی بچے ہیں۔

موریا کیمپ آتشزدگی

یہ واضح نہیں کہ موریا کیمپ میں آگ کیسے لگی مگر اس نے ہر شے کو خاکستر کر دیا

اگرچہ یونانی حکام بے گھر لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر زندگی بہت مشکل ہے۔

طالب شاہ نے جمعرات کو ایک گاڑی دیکھی جو خوراک تقسیم کر رہی تھی مگر بھیڑ اتنی تھی کہ ڈرائیور کو فوراً وہاں سے نکلنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا ’لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں اور رات کو بہت زیادہ سردی ہو جاتی ہے جبکہ دن کو اتنی تیز دھوپ ہوتی ہے کہ لوگ سائبان ڈھونڈتے ہیں۔‘

طالب شاہ کا کہنا ہے کہ لیسبوس میں انھیں انتی مصبتیں جھیلنا پڑی ہیں کہ اب وہ ملک واپسی کا سوچنے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے کہا: ’میری بڑی بیٹی کی نکسیر پھوٹتی ہے، یہاں نہ پانی ہے، نہ خوراک، نہ ٹوائلٹ اور نہ ڈاکٹر۔ میں نفسیاتی مریض ہوں اور نہیں جانتا کہ کیا کروں۔ میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔‘

’میں مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ہمیں باضابطہ پناہ نہیں دے سکتے تو بہتر ہے کہ واپس بھیج دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp