کرکٹ: پاکستانی کرکٹرز کے تماشائیوں سے الجھنے کے دلچسپ قصے


سنہ 1982 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کراچی میں چھٹا اور آخری ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا کہ اس دوران شائقین میں موجود ایک 12 سالہ لڑکا میدان میں آ گیا۔

یہ وہ دور تھا جب تماشائیوں کا جنگلے پھلانگ کر کھیل کے میدان میں آ جانا عام سی بات تھی، اور یہ عموماً اس وقت ہوتا تھا جب کوئی بلے باز سنچری بنا ڈالے یا کوئی بولر اہم وکٹ لے کر اپنی ٹیم کو جیتنے کا بھرپور موقع فراہم کرے۔

اور جب فرطِ جذبات سے بھرپور یہ شائقین میدان میں کودتے تو عموماً پولیس والے یا گراؤنڈ سٹاف ان کے پیچھے بھاگتے اور انھیں پکڑ کر میدان سے باہر لے آتے تھے۔

تاہم اس میچ میں 12 سالہ لڑکے کی بدقسمتی یہ رہی کہ قبل اس کے کہ کوئی پولیس والا اسے پکڑ کر میدان سے باہر لے جاتا وہ پاکستانی ٹیم کے اس وقت کے کپتان عمران خان کے قابو میں آ گیا۔

یہ بھی پڑھیے

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘

کرکٹ کے جڑواں بھائی: ٹاس سے فیصلہ ہوا کہ کون فاسٹ بولر بنے گا

وہ بلے باز جنھیں چھکا مارنا کبھی پسند نہ تھا

انھوں نے لڑکے کا گلا دبوچ کر اُوپر کی طرف اٹھا لیا۔ عمران خان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ اس لڑکے کے لیے خود کو چھڑانا مشکل ہو گیا تھا۔

اس میچ کی کوریج کرنے والے چند صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان زیادہ دیر تک اس لڑکے کی گردن کو جکڑے رہتے تو اُس کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا۔

اس واقعے کی تصویر بیشتر قومی اخبارات میں شائع ہوئی تو اس دور میں جو ردعمل سامنے آیا اس میں بارہ سالہ لڑکے کے لیے ہمدردی کا عنصر غالب تھا۔

تاہم بات صرف عمران خان پر ہی نہیں رُکتی۔ اب آپ کو سناتے ہیں لکھنئو کے مہذب تماشائیوں کا ایک قصہ۔

وقار حسن اور لکھنئو کے ’مہذب تماشائی‘

سنہ 1952 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا کے خلاف لکھنؤ میں دوسرا ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔ سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر وقار حسن باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے۔ اس دوران تماشائیوں کے ایک انکلوژر میں سے کہے جانے والے دلچسپ فقرے اُن کے کانوں میں پڑے۔

وقار حسن نے اپنی کتاب ’فار کرکٹ اینڈ کنٹری‘ میں اس واقعے کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے۔

وقار حسن

’اجی قبلہ، آپ اگر رخ زیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے‘

’دہلی ٹیسٹ میں تماشائیوں کا رویہ ہمارے ساتھ جارحانہ تھا، لیکن لکھنؤ کے تماشائی مہذب تھے۔ وہ کھلاڑیوں پر شور مچاتے وقت بھی شائستہ الفاظ استعمال کر رہے تھے جیسا کہ ’حضور، قبلہ، اور رُخ زیبا‘۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ مجھے آج تک ایک فقرہ یاد ہے جو ان تماشائیوں کی طرف سے سننے کو ملا ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ زیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘

لکھنؤ کے کرکٹ شائقین یقیناً تمیزدار اور مہذب تھے لیکن یہ مہذب انداز ہر جگہ نظر نہیں آتا بلکہ کرکٹ کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جب تماشائیوں کی کسی بات اور حرکت نے کھلاڑیوں کو مشتعل کیا اور وہ ان سے الجھ پڑے۔ ان میں کچھ واقعات کا تعلق پاکستان کے مشہور کرکٹرز سے بھی ہے۔

عبدالقادر کا تماشائی کو مُکّا

سنہ 1987 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن میں سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں مدمقابل تھی۔ پہلا ٹیسٹ پاکستانی ٹیم جیتی تھی جبکہ دوسرا ٹیسٹ ڈرا ہوا تھا۔

برج ٹاؤن ٹیسٹ میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب پاکستانی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں آ گئی تھی اور یہی لگ رہا تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن جیفری ڈوجون اور ونسٹن بینجمن نے اپنی ٹیم کو دو وکٹوں کی جیت سے ہمکنار کر دیا۔

پاکستانی ٹیم کو امپائرز کے فیصلوں پر بہت زیادہ اعتراض تھا، خاص کر عبدالقادر اس وقت سخت غصے میں آ گئے جب امپائر ڈیوڈ آرچر نے ایک ہی اوور میں ان کی دو اپیلیں مسترد کر دیں۔

عبدالقادر نے غصے میں اپنی کیپ امپائر سے لی اور باؤنڈری کے قریب فیلڈنگ کے لیے چلے گئے۔ اس دوران تماشائیوں نے اُن پر فقرے کسے خاص کر اکیس سالہ البرٹ آگسٹ نے جو کار مکینک تھے۔ ان کے طنزیہ جملوں نے عبدالقادر کو اس قدر مشتعل کیا کہ انھوں نے اسے دبوچ لیا اور مکے مارے۔

اس واقعے سے پاکستانی ٹیم کی توجہ بھی بٹ گئی اور جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو ونسٹن بینجمن نے عبدالقادر کو دو چھکے اور ایک چوکا لگا کر میچ جتوا دیا۔

دوسری جانب مارپیٹ کا یہ واقعہ پولیس تک پہنچ گیا اور عبدالقادر کو حکم دیا گیا کہ وہ مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوں۔ عبدالقادر عدالت میں پیش ہوئے لیکن اس سے قبل ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ اور پاکستانی ٹیم منیجر انتخاب عالم کی کوششوں کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان معاملات طے پا گئے۔

معاہدے کے تحت عبدالقادر نے البرٹ آگسٹ سے معافی مانگ لی اور اسے ہرجانے کے طور پر ایک ہزار ڈالرز ادا کیے گئے۔

جب انضمامآلو آلو کی آواز پر بپھر گئے

ستمبر 1997 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ٹورنٹو میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے دوران جب انڈین ٹیم کی بیٹنگ جاری تھی تو ایک تماشائی شیو کمار نے، جس کے پاس میگافون بھی تھا، انضمام الحق پر فقرے کسنے شروع کر دیے۔

ایک روز پہلے بھی شیو کمار یہی حرکت کر چکے تھے۔ پانی کے وقفے کے دوران سب نے دیکھا کہ انضمام الحق غصے میں تماشائیوں کے سٹینڈ میں پہنچے جس پر سکیورٹی سٹاف انھیں بڑی مشکل سے گراؤنڈ میں لے آیا۔

لیکن اسی دوران انضمام الحق نے اپنے ساتھی کھلاڑی سے بیٹ لیا اور اس شخص کو مارنے کے لیے سٹینڈ کی طرف دوبارہ دوڑ پڑے۔

بعد میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ وہ آخر کب تک اس شخص کے طنزیہ فقروں کو برداشت کرتے کیونکہ وہ نہ صرف ان کے بارے میں بلکہ ملک اور مذہب کے بارے میں بھی نامناسب الفاظ استعمال کر رہا تھا۔

انضمام کا دعویٰ تھا کہ اس شخص نے پہلے ان پر اپنے میگافون سے حملہ کیا تھا جس پر انھوں نے اپنے دفاع میں بیٹ لہرایا تھا۔

اس واقعے کے بعد آئی سی سی میچ ریفری جیکی ہینڈرکس نے انضمام الحق پر دو میچوں کی پابندی عائد کی تھی۔ پولیس نے بھی ان کےخلاف مقدمہ درج کیا تھا اور انھیں ضمانت لینی پڑی تھی۔ شیو کمار کو بھی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

شاہد

جب شاہد آفریدی کی حرکت مہنگی پڑ گئی

سنہ 2007 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین میں پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کھیل رہی تھی۔

شاہد آفریدی آؤٹ ہو کر تمشائیوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ڈریسنگ روم کی طرف جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے کچھ کہا جس پر شاہد آفریدی اپنا بیٹ لہراتے ہوئے اس شخص کے چہرے تک لے گئے تھے۔

میچ ریفری کرس براڈ نے اس واقعے پر ابتدا میں کوئی کارروائی نہیں کی لیکن آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو میلکم سپیڈ کی جانب سے ویڈیو دیکھنے کے بعد اس معاملے کو دوبارہ اٹھایا گیا اور شاہد آفریدی پر آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کے لیول تین کے تحت چار ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنے کی پابندی عائد کر دی گئی۔

اس پابندی کی وجہ سے وہ اس سیریز کے بعد ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچ نہیں کھیل پائے تھے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp