اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن معاہدے: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا اگلا عرب ملک عمان ہو گا؟


عمان

عمان کی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تجارت گذشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے اور سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عمان کا دورہ بھی کیا تھا

مصر، اُردن اور متحدہ عرب امارات کے بعد اب بحرین مشرق وسطیٰ کا چوتھا ملک بن گیا ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔

حال ہی میں اسرائیل اور بحرین نے اپنے تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔

گذشتہ ماہ اگست میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے پر عملدرآمد کا باضابطہ آغاز اُس وقت ہوا جب اسرائیل سے پہلی پرواز سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے یو اے ای پہنچی۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ان امن معاہدوں نے عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے کیونکہ اس سے قبل کئی عشروں سے زیادہ عرصے سے عرب ممالک مسئلہ فلسطین اور مسلم دنیا کے تیسرے مقدس شہر مشرقی یروشلم کے پیش نظر اسرائیل کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے پاکستان غلطی کر رہا ہے؟

اسرائيل، ایران اور عمان کی ‘لو ٹرائینگل کا ہیرو’

اسرائیل اور عرب ریاستیں: مسئلہ فلسطین سے کویت کا تاریخی تعلق کیا ہے؟

اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے عرب ممالک کی یہ دیرینہ شرط رہی ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطین کو علیحدہ ریاست کا درجہ نہیں دیتا وہ (عرب ممالک) اس کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ فلسطین کے رہنماؤں نے علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کو ’دھوکہ دہی‘ قرار دیا تھا۔

اسرائیل امارات

عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات

سنہ 1948 سے، یعنی جب سے اسرائیل ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا ہے، عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ سنہ 1948 میں ہی کچھ عرب ممالک نے نئے قائم ہونے والے اس ملک کے وجود کو ختم کرنے کی ناکام کوششیں بھی کی تھیں۔

سنہ 1949 میں مصر کی فوج نے ایسی ایک کوشش کی تھی تاہم بعدازاں مصری افواج کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا تاہم سنہ 1979 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے والا پہلا ملک مصر ہی تھا۔

اس معاہدے کی وجہ سے عرب لیگ نے مصر کی رکنیت بھی منسوخ کر دی تھی۔ مصر کے بعد اردن نے سنہ 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اسی کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں اسرائیل کے لیے نئی راہیں کھل گئی ہیں۔

دوسری جانب ایران اور ترکی جیسے ممالک نے مشرق وسطی کے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اس پیش رفت پر سخت اعتراض کیا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

کیا اب عمان کی باری ہے؟

اسرائیل کے حوالے سے مشرق وسطی کے ممالک کے رویوں میں آنے والی ان سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بڑی وجوہات میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت، تیل کی قیمتوں میں کمی، خلیجی ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت کے خطرات اور امریکی حمایت کے خاتمے کا خوف ہے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل کا جلد ہی عمان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے مابین باضابطہ سفارتی تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے۔

عمان کی اسرائیل کے ساتھ غیر رسمی تجارت گذشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے۔ سنہ 2018 میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے عمان کا دورہ بھی کیا تھا۔ اُس وقت انھوں نے عمان کے اس وقت کے رہنما سلطان قابوس سے مشرق وسطی میں امن کے قیام پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

اگرچہ عمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاہدے کے امکان کے بارے میں باضابطہ طور پر ابھی تک کچھ نہیں کہا ہے تاہم عمان نے بحرین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے قیام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

اسی خیرمقدم کی وجہ سے عمان کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہونے کی قیاس آرائیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔

دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشیا سینٹر کے پروفیسر آفتاب کمال پاشا نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ عمان، اسرائیل امن معاہدہ جلد ہو سکتا ہے۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’عمان اور اسرائیل کے درمیان پرانے تعلقات رہے ہیں۔ عمان خلیج کا پہلا ملک تھا جہاں میڈرڈ کانفرنس کے بعد سنہ 1992 میں آبی تحقیق پر مبنی ایک مرکز کھولا گیا تھا۔ اسرائیلیوں کا باقاعدگی سے یہاں آنا جانا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسرائیل کے اُس وقت کے وزیر اعظم رابن بھی وہاں گئے تھے اور اس کے بعد شمعون پیریز نے بھی عمان کا دورہ کیا تھا جبکہ نتن یاہو نے سنہ 2018 میں عمان کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسرائیلی وزیروں نے بھی عمان کے دورے کیے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف امریکہ عمان پر اسرائیل کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دیتا رہتا ہے۔

عمان کی خارجہ پالیسی

لیکن عمان کی اپنی ایک مخصوص خارجہ پالیسی رہی ہے۔

عمان کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں اور سنہ 2018 میں نتن یاہو کے مسقط دورے سے محض چار روز قبل عمان کے وزیر خارجہ کے سیاسی معاون محمد بن عوز الحسان نے تہران کا دورہ کیا اور ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات کی تھی۔

عمان نے اسرائیلی وزیر اعظم کے استقبال کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بھی بیک وقت دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور عمان کی خارجہ پالیسی کی یہی خصوصیت رہی ہے۔

عمان نے 1970 کی دہائی سے اب تک اپنے ملک کے لیے ایک انوکھی حکمت عملی اپنائی ہے، مشرق وسطی کے ممالک میں ایسا شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر عمان علاقائی تنازعات میں عام طور پر غیر جانبدار رہا ہے۔

اس کے علاوہ عمان ایک عرب ملک کے ساتھ خلیج تعاون کونسل کا ممبر بھی ہے۔

عمان نے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے جبکہ حالیہ برسوں میں مشرق وسطی میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، مثال کے طور پر یمن اور شام کے حالات۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمان نے ہمیشہ دونوں فریقوں کی حمایت کی ہے تاکہ ایک ثالث کی حیثیت حاصل کر سکے۔

عمان کو درپیش مشکلات

ایران کے ساتھ اس طرح کی پُرامن خارجہ پالیسی اور اچھے تعلقات کے تناظر میں کیا عمان کے اسرائیل کے ساتھ مل جانے سے نئی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں؟

پروفیسر پاشا اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’عمان کے ایران کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ جب ظفار میں بغاوت ہوئی تو ایران نے وہاں اپنی فوج بھیج دی اور بغاوت کو کچل دیا۔ انقلاب کے بعد بھی ایران کے ساتھ عمان کے اچھے تعلقات رہے ہیں اور جب سنہ 1979 میں مصر نے پہلی بار اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تو عمان واحد ملک تھا جس نے اس کا کھل کر استقبال کیا تھا۔‘

’لہذا عمان عام طور پر ایران، ترکی، اسرائیل اور یہاں تک کہ عراق کے ساتھ بھی توازن کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ جب خلیجی ممالک نے صدام حسین سے رشتہ توڑ لیا اس وقت بھی عمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سلطان قابوس کی خارجہ پالیسی کی یہ ایک خصوصیت تھی، لیکن ابھی تک نئے سلطان کا موقف واضح طور پر سامنے نہیں آ سکا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لیکن جس طرح سے نئے سلطان ہیثم بن طارق السعید نے وزیر خارجہ کو ہٹا دیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ عمان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کوئی بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات عمان میں سلطان قابوس کا تختہ پلٹنا چاہتا تھا۔‘

’سلطان قابوس اسی وجہ سے بہت ناراض تھے۔ سلطان قابوس یمن کے معاملے پر بھی ان دونوں ممالک سے ناراض تھے کیونکہ یمن کی جنگ کی وجہ سے پناہ گزین کے مسئلے سے عمان کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے اب نئے سلطان پرانی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں یا آزادانہ نئی پالیسی اپناتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔‘

فلسطین

اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے میں خطرہ

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ عمان کے سامنے دو خطرات ہیں جن پر انھیں توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔

’پہلا خطرہ یہ ہے کہ ظفار میں جس بغاوت کو کچل دیا گیا تھا وہ اب بھی سرگرم ہے۔ ظفار عمان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کی یہ شکایت ہے کہ وہاں کا تیل اور گیس اپنے عوام کے بجائے دوسرے صوبے کے لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب یمن حوثی اور جنوبی یمن میں تقسیم ہے اور ظفار کے جنوبی یمن سے اچھے تعلقات ہیں کیونکہ وہاں ایک ہی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر وہاں صورتحال کسی بھی وجہ سے خراب ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر عمان پر پڑے گا۔ دوسری طرف پریشان کُن بات یہ ہے کہ عمان ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے، عمان اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتا ہے لیکن اب آہستہ آہستہ امریکہ بھی اسرائیل کو آگے کر کے خطے میں اپنی موجودگی کم کرنا چاہتا ہے۔‘

پروفیسر پاشا کہ مطابق عمان کو اس بات کا بھی خوف ہے کہ اگر ایسی صورتحال بنتی ہے تو عمان کو ایران کے ساتھ کی ضرورت ہو گی اور عمان اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے پہلے یقینی طور پر اپنے ان خدشات کو ذہن میں رکھنا چاہے گا۔

’شاید اسی لیے دوسرے عرب ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کے باوجود اس نے ابھی تک اسرائیل کی جانب کسی سمجھوتے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp