کورونا وائرس اور شادی ہالز کے ایس او پیز: کیا اب پاکستان میں شادیوں کی تقاریب پہلے جیسی نہیں ہوں گی؟


شادی ہالز

BBC
</figure>پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیشِ نظر ملک بھر میں 13 مارچ سے تمام شادی ہالز بند کر دیے گئے تھے، تاہم اب حالات بہتر ہونے پر حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انھیں دوبارہ کھول دیا جائے۔

دیگر کاروباروں اور صنعتوں کی طرح شادی ہالز اور مارکی بزنس سے منسلک افراد کے لیے بھی حکومت کی جانب سے ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں، جن پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تقریب میں آنے والے مہمانوں اور شادی ہالز انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی۔

شادی ہالز مالکان کا کہنا کہ جو ایس او پیز حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں اُن پر تقاریب میں شرکت کرنے والے افراد کے تعاون کے بغیر عمل کرنا بیحد مشکل ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں سکول کھلنے پر کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی؟

کیا عقیدے اور دعا کی طاقت نے پاکستان کو کورونا سے محفوظ رکھا؟

پاکستان کی نوجوان آبادی کورونا کے بدترین اثرات سے بچاؤ کی اہم وجہ ہے؟

مشورہ کرنے کی غرض سے باہم سر جوڑ کر بیٹھے شادی ہالز ایسوسی ایشن کے ممبران کا اس موقع پر ایک ہی سوال ہے اور وہ یہ کہ مرد حضرات سے تو ہم ماسک کی پابندی کروا لیں گیں لیکن خواتین سے کس طرح اس پر عمل کروایا جائے گا؟

شادی ہالز ایسوسی ایشن کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ اب تمام سختیاں شادی ہالز والوں پر ہوں گی کیونکہ ہم تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ ماسک پہن لیں، کسی کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اب ہزاروں روپے پارلر میں میک اپ پر خرچ کرنے والی خواتین تو شاید ماسک نہیں پہنیں گی۔‘

شادی ہالز

BBC
</figure>ابھی تک اس مسئلے کا حل نا تو شادی ہالز کے مالکان نکال سکے ہیں اور نا ہی حکومتی حلقوں کی جانب سے انھیں اس مسئلے کا کوئی حل بتایا گیا ہے۔ 

بی بی سی کی جانب سے بیشتر خواتین سے یہ سوال پوچھا کہ کیا ماسک کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے وہ میک اپ پہلے کی طرح ہی کریں گی یا پھر اس میں کوئی تبدیلی لائیں گی؟ اس کے ساتھ ساتھ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ تقریب میں ماسک استعمال کریں گی؟

ان سوالوں کے جواب میں بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ اگر تو ہمیں ماسک کا استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے صرف آنکھوں کا اچھا سا میک اپ کرنا ہی کافی رہے گا جبکہ بہت سی ایسی خواتین بھی تھیں جن کی رائے میں پارلر سے مہنگا میک اپ کروانا اور پھر ماسک پہن لینا پیسے ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔

چند خواتین کی یہ رائے سامنے آئی کہ ایس او پیز پر عملدرآمد صرف چند روز کے لیے ہی ممکن ہو سکے گا اور پھر حالات معمول پر آ جائیں گے۔

تاہم کئی خواتین نے یہ کہا کہ شادی کی تقریب پر میک اپ کرنا تو لازمی ہے کیونکہ تقریب میں تصاویر بھی تو بنوانی ہوتی ہیں۔

شادی ہالز

BBC
</figure><strong>کیا اب شادیاں پہلے سے مختلف ہوں گی</strong>

بی بی سی کی جانب سے یہ سوال ایک ایسی دلہن سے کیا گیا جن کی شادی کورونا کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی۔

سعدیہ کا کہنا تھا کہ ان کے گھر والے اور سسرال والے شادی خاصی دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے ایک سال پہلے سے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔

’تاہم اب ہمیں اپنے سب ارادے تبدیل کرنے ہوں گے کیونکہ کورونا کے خوف کے ساتھ ساتھ اب ایس او پیز کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔‘

حکومت کی جانب سے شادی ہالز اور مارکی مالکان کے لیے جاری کردہ ایس او پیز کچھ یوں ہیں:

  • تمام شادی ہالز میں 50 فیصد مہمانوں کی گنجائش کو کم کیا جائے گا، یعنی پانچ سو مہمانوں کی گنجائش والے ہال میں اب ڈھائی سو مہمانوں کے انتظام کرنے کی اجازت ہو گی
  • سماجی فاصلے کو ہال میں یقینی بنایا جائے گا، جس کو پورا کرنے کے لیے کرسیوں اور صوفوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ رکھا جائے گا
  • تقریب میں شریک ہر شخص بشمول ہال انتظامیہ کے ممبران کا ماسک پہننا لازمی ہو گا
  • ہال میں داخل ہونے والے ہر شخص کا درجہ حرات چیک کرنا ہال انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی
  • تقریب میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور بغل گیر ہونے پر بھی پابندی ہو گی
  • ہال میں کسی بھی تقریب کے شروع ہونے سے پہلے اسے سینیٹائز کرنا انتظامیہ پر لازم ہو گا
  • تقریب کم سے کم وقت میں اختتام کرنے پر زور دیا گیا ہے
  • آگاہی لیے ہالز میں جگہ جگہ کورونا سے بچنے کے لیے احتیاطی ہدایات اور ایس او پیز آویزاں کرنا ضروری ہو گا
  • ہال کے داخلی دروازے اور ہال کے اندر جگہ جگہ ہینڈ سینیٹائزر رکھنا اور اس کا استعمال کرنا ضروری ہو گا

ان ایس او پیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے لاہور میں ایک شادی ہال کے مالک محمد عقیل کا کہنا تھا کہ ان تمام ایس او پیز پر عملدرآمد سے ہمارے خرچے بڑھ جائیں گے۔

’ہال کو ہر تقریب کے بعد سینیٹائز کرنا، لوگوں کو ماسک فراہم کرنا، اپنی لانڈری کو ہر تقریب کے بعد دھلوانا اور دیگر ہدایات پر عمل کرنے کے لیے ہمارا مزید خرچہ ہو گا۔‘

شادی ہالز

BBC
’لانڈری کو ہر تقریب کے بعد دھلوانا اور دیگر ہدایات پر عمل کرنے کے لیے ہمارا مزید خرچہ ہو گا‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسری جانب جب ہم 50 فیصد مہمانوں کی تعداد کم کریں گے تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ جتنا ہم کماتے تھے اب اس کا آدھا کما سکیں گے اور جو کمائیں گے وہ اخراجات کی مد میں صرف ہو جائے گا۔‘

اسی دوران شادی ہالز مالکان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہالز کو بند کرنے کے اوقات کار کو بڑھایا جائے۔

اس بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہونے ایک شادی ہال کے ملک جہانگیر کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان تمام ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کے لیے ہمیں تقریب کو مکمل کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہو گا۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ ’ہالز کو بند کرنے کے اوقات بھی رات دس بجے سے بڑھا کر کم از کم 11 بجے کر دینے چاہییں۔‘

شادی ہالز

BBC
</figure><strong>’</strong><strong>اتنا نقصان ہوا کہ </strong><strong>کاروبار ہی</strong><strong> بند ہو گئے</strong><strong>‘</strong>

شادی ہالز اسوسی ایشن پنجاب کے صدر محمد خالد کے مطابق پاکستان میں تقریبا 18 سے 20 ہزار شادی ہالز موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کورونا کے باعث یہ انڈسٹری چھ ماہ تک بند رہی جس سے اسے اتنا تقصان پہنچا کہ لوگ قرضوں میں ڈوب گئے اور انھیں ہالز اور مارکیاں بند کرنا پڑیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے بہت سے ایسے دوست ہیں جنھوں نے کرائے پر جگہ لے کر مارکی اور ہالز کھول رکھے تھے۔ مشکل حالات کے باعث بہت سے لوگوں نے اپنے گھر اور جائیدادیں بیچی ہیں۔ جبکہ کچھ مالکان نے کرایہ نا دینے کی وجہ سے اپنی جگہیں خالی کروا لی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت سے یہ درخواست ہے کہ اگر اب یہ انڈسٹری کھول دی گئی ہے تو ہمیں کچھ نا کچھ ریلیف ضرور دیا جائے تاکہ ہم اپنے حالات کو بہتر کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp