ہاں! میں مقدس ہوں، ڈاکٹر خالد سہیل سے معذرت کے ساتھ



میں پہاڑوں پر پیدا ہوا۔ آسمانی بجلیوں نے مجھے خوراک مہیا کی۔ صحراؤں میں پلا بڑھا۔ جنگلوں، غاروں نے مجھے سنوارا۔ جب زلزلوں سے زمین لرزتی تھی۔ طوفان خاک کے ساتھ انسان، جانور، درخت سب اڑا کر لے جاتے تھے۔ سیلاب اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو ادھیڑ کر رکھ دیتے تھے۔ بے کسی کا جال چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ دل و نگاہ پر جہالت کی دھند چھائی ہوئی تھی۔ بے بس انسان، بے اختیاری و تحیر سے صرف دیکھتا رہ جاتا تھا، تب میں نے اسے حوصلہ دیا۔ ان آفات سے ٹکرانے کی ترغیب دی۔ میں انسانوں سے اوجھل تھا۔ اس کی آنکھ ابھی اس نور سے شناسا ہی نہیں تھی۔ انسان نے درختوں کی چھال پر ناخنوں سے جب لکیریں لگائیں تو میرا عکس ابھرنا شروع ہوا۔ اس کے ہاتھوں نے پتھروں سے مجھے تراشا اور میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ میں نے اسے اندھیری کھوہ سے نکالا۔ میں نے اہل کہف کو ضیا بخشی۔ پھر وہ شہروں میں آ بسا۔ میرے دبستان سجے اور میری آموزش گاہوں نے وہ ہیرے پیدا کیے جنہوں نے علم کلام، ابدان، فلسفہ، نجوم کے ساتھ دیگر علوم کی بنیاد رکھی۔

شہر آباد ہوئے تو اسے ہر ہر لمحہ باہمی مسائل میں اگوانی کی ضرورت تھی۔ میں نے ہی اسے ریکھاؤں سے آشنا کیا۔ انسان کے اپنے اندر موجود درندگی کو انسانیت کی حدود میں مقید کر دیا۔ بقائے باہمی کی آئینہ دار تہذیب و تمدن کے اصول وضع کیے۔ در، دیوار اور دریچوں کے معاہدوں کا میں ہی خالق تھا۔ اس کے ساتھ میں ہی ان کے درمیان دوستی و محبت کا سبب تھا۔ میری وجہ سے ان کے درمیان حرمتیں قائم ہوئیں۔ کچھ چیزیں حرام ہوئیں اور حرم بھی سجے۔ انسان کو علم، اخلاق، پیار، محبت سب میری ہی چھت کے نیچے ملا۔ میں نے ہی اس کی ذہنی اور جسمانی پرورش کے اصول وضع کیے ۔

وہ جب جب بیمار پڑا بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں اس کی مدد کی۔ میرے دربار سے ہی اسے ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے معالج ملے۔ میرے پیرو کار صدیوں انسانیت کی مشکلات حل کرنے کے لئے خود کو تکلیفوں میں ڈالتے رہے۔ مختلف رنگ و نسل کے انسانوں کو علم اور صحت کی دولت سے مالا مال کرنے کے لئے وہ خود چل کر دور دراز کے علاقوں میں گئے۔ انہوں نے نسل انسانی کی بھلائی کے لئے خود کو قربان کر دیا۔

یاد کرو! میں نے ہی انسان کو انصاف کے نام سے متعارف کروایا اور تمام انسانوں کو برابر قرار دیا۔ جب جب وہ فطری درندگی کی طرف مائل ہوا اس کے راستہ کی دیوار بنا۔ میرے ہی جانثاروں نے انصاف کے علم کو بلند کرنے کے لئے اپنے خون سے پیاسے صحراؤں کی آبیاری کی۔ ان کے کشتوں کے پشتے لگا دیے گئے لیکن میرے ہر شہید کی لاش ان قتل گاہوں سے علم بن کر اٹھی۔

میں نے انسان کی زندگی کو علم، صحت، پیار محبت کی خوشیوں سے سجایا۔ انہیں خوبیوں سے کائنات رنگین ہوئی۔ میں خود بھی حسن کائنات کا شیدائی ہوں۔ میں نے زندگی کے ساتھ موت کو بھی حسین کر دیا۔ موت کو نئی زندگی بنا کر، فنا کو جلا بخشی۔ اس فانی زندگی کو ابدیت دی۔ میں نے انسان کو بتایا کہ فنا کا حسن تمام فانی حسینوں سے زیادہ حسین ہے اور اس کا سکون ناقابل یقین ہے۔

کم فہم کہتے ہیں کہ میں روشن ضمیر نہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ میں قافیہ شناس ہوں۔ بہت دور کی کوڑی لاتا ہوں۔ جن کو مستقبل کا ادراک نہیں ہوتا وہ مجھ سے اس کا ثبوت مانگتے ہیں۔ میں ثبوت نہیں دیتا کیونکہ وہ فانی ہوتے ہیں، بدل جاتے ہیں، مٹ جاتے ہیں۔ میں دلائل دیتا ہوں کیونکہ سچ ہر دور میں سچ ہی رہتا ہے اور ثبوتوں سے ماورا ہوتا ہے۔ سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ میں ہمیشہ سے ہوں۔ اور یہ سچ دلیل ہے میری ابدیت کا۔ میں انسانی قلمرو کا شہنشاہ بے مثال ہوں لیکن میں اپنی مرضی کسی پر مسلط نہیں کرتا انسان خود ہی میری چاہت میں ڈوب جانا چاہتا ہے کیونکہ اسے ابدی سکوں صرف میری گود میں ملتا ہے۔ میری چھتر چھاؤں میں وہ صدیوں سے لطف اندوز ہوا ہے۔ ہاں میں ظل پناہ ہوں۔

انسان کا ارتقا میری ہی درس گاہوں میں ہوا۔ اس نے میرے سامنے ہی زانوئے تلمذ تہ کر کے اپنی ذات کا عرفان اور سماجی شعور حاصل کیا۔

لوگ کہتے ہیں میرا دور ختم ہو گیا ہے۔ میرے صحیفے اٹھا لئے جائیں گے۔ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔

سنو! میں ہمیشہ سے ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ انسانیت کی عظمت مجھ سے ہے، میں قابل تقدیس ہوں۔ میں بہت مقدس ہوں۔ میری وجہ سے ہی انسان بھی مقدس ہے۔ میں مذہب ہوں۔ صرف میں ہی نہیں، میرے ساتھ جو بھی جڑا وہ ذی حیات ہو یا بے جان، وہ بھی مقدس ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).