نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا معاملہ: مریم نواز کا سخت لہجہ ’مایوسی‘ کا غماز یا مستقبل کی سیاسی پالیسی کا؟


مریم نواز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں اپنی سزا کے خلاف نواز شریف کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر اُن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔

عدالتی حکم کے بعد سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس بارے میں متعدد ٹویٹس کیں۔

انھوں نے اپنی پہلی ٹویٹ میں لکھا ’یاد رہے کہ نواز شریف کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم اسی مقدمے میں ہے جس میں خود سزا دینے والے جج ارشد ملک نے نواز شریف کی نہ صرف بے گناہی بلکہ بلیک میلنگ اور دباؤ کے تحت زبردستی فیصلہ دلوائے جانے کا اعتراف کیا۔ جج صاحب کب کے گھر جا چکے مگر فیصلہ آج بھی جوں کا توں!‘

یہ بھی پڑھیے

’نہ گھر کے کھانے کی درخواست کرنی ہے، نہ کوئی گلہ ہے‘

’ذاتی وجوہات کی وجہ سے خاموش تھی، مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹی‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

انھوں نے مزید لکھا ’جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی؟ بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیا؟‘

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1305892715700326401

یاد رہے کہ ارشد ملک نے دسمبر 2018 میں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے بعد مریم نواز نے ان کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی تھی جس میں انھیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا دینے کے لیے ان پر دباؤ تھا۔

اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج کے طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے اُنھیں لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

مریم نواز، نواز شریف

مریم نواز نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ’مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دباؤ میں ہیں، ان کے فیصلے کہہ رہے ہیں کہ وہ دباؤ میں ہیں مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کے عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے؟‘

انھوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’جناب چیف جسٹس صاحب! کیا آپ اس بیرونی دباؤ کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے کہ کون انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور کس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں؟‘

اس سلسلے کی اپنی آخری ٹویٹ میں بھی انھوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’معزز چیف جسٹس صاحب! نواز شریف نے پہلے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی جب عدلیہ کو دباؤ کا سامنا ہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عدلیہ کو جو بھی دباؤ میں لانے کی کوشش کرے گا، ہم ہر قیمت پر اس کا راستہ روکیں گے، انشاءاللہ!‘

مریم نواز، نواز شریف

مریم نواز کا موقف پارٹی کا موقف ہے

مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شریف خاندان کے حوالے سے عدالتی فیصلے تو پہلے بھی آئے ہیں، اس دفعہ کیا ایسا ہوا ہے کہ مریم نواز نے قدرے سخت لہجے میں ٹوئٹ کی اور ججز سے سوال کیا وہ بتائیں کہ ان پر کون دباؤ ڈالتا ہے؟

اس سلسلے میں سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نون کے رکنِ قومی اسمبلی برجیس طاہر کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد جو موقف اپنایا ہے وہ عین پارٹی کا موقف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے کیونکہ سنہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے ووٹ دیا، جو کہ عوام کا ان کی پارٹی پر اعتماد کا ثبوت ہے۔

’پارٹی کی پالیسی بہت واضح ہے کہ تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، مریم نواز اور پارٹی کے دیگر رہنما احتساب کے پس منظر میں ہونے والے فیصلوں پر اپنی آرا دیتے رہتے ہیں۔

مریم نواز کے سخت لہجے کی وضاحت دیتے ہوئے معروف تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو ظاہر ہے کہ کل کے فیصلے کے بعد یہ بظاہر نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف کی قانونی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ قانونی اور سیاسی لحاظ سے ان کی وطن واپسی کے امکانات تو کم ہیں مگر دوسرا یہ کہ مریم نواز صاحبہ کے ٹوئٹس سے وہ فرسٹریشن نظر آتی ہے جس میں وہ بلاواسطہ ججز اور عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔‘

مریم نواز ’فریسٹریشن‘ کا شکار کیوں ہیں؟ اس سلسلے میں مظہر عباس کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون نہ تو قانونی لڑائی جیت رہی ہے اور نہ ہی سیاسی مقابلہ۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم قانونی اور سیاسی طور پر دیکھیں تو نواز شریف صاحب چھ سے آٹھ ہفتوں کے لیے گئے تھے مگر اب چھ، آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ اس دوران ان کی جو رپورٹس یا علاج کے حوالے سے خبریں آئیں اس سے مسلم لیگ نون کی یا میاں صاحب کی پوزیشن اور کمزور ہو گئی ہے۔‘

مظہر عباس کی رائے میں مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کا مقدمہ بھی بھرپور انداز میں لڑ نہیں پا رہی۔

’قانونی پوزیشن میں بھی نظر آ رہا ہے کہ ان (نواز شریف) کے جانے کے بعد مسلم لیگ نون نے وہ قانونی لڑائی نہیں لڑی مثلاً اگر آپ دیکھیں کہ جب پنجاب حکومت نے ان کی ضمانت کے حوالے سے تاریخ آگے بڑھانے کی درخواست مسترد کی تو وہ انھوں نے چیلنج نہیں کی، اور آگے چل کر اسلام آباد میں عدالت نے یہ سوال بھی کیا کہ آپ نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کیا جس پر مسلم لیگ کے لوگوں نے ماننا ہے کہ یہ ان سے غلطی ہوئی۔‘

انھوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے نہ آنے کا اثر مریم نواز کے مقدمے پر بھی پڑ سکتا ہے۔۔۔ ’تو حکومت کا دباؤ اپنی جگہ ہے اور وہ نظر آتا ہے لیکن سیاسی طور پر بھی مسلم لیگ نون اس کا جوابی مقابلہ نہیں کر پا رہی۔ وہ سڑکوں پر آنے میں بھی ہچکچا رہے ہیں، مریم نواز کی سیاسی سرگرمیاں ٹوئٹر یا ان کے گھر تک محدود ہیں، تو وہ نہ سیاسی لڑائی بھرپور انداز میں لڑ پا رہے ہیں نہ قانونی لڑائی۔‘

انھوں نے کہا کہ مریم نواز کی ان ٹویٹس سے شریف فیملی کی فرسٹریشن بہت واضح نظر آتی ہے۔ ’اب دبانے کا ردعمل تو یہی ہو سکتا ہے کہ یا آپ سڑکوں پر آ کر احتجاج کریں یا ٹویٹس کے ذریعے اپنی فرسٹریشن کا اظہار کریں، ابھی فوری طور پر تو یہی نظر آ رہا ہے۔‘

نواز شریف

کیا مسلم لیگ نون بھر بغاوت پر اتر آئے گی؟

تو کیا اب مسلم لیگ نون سیاسی طور محاذ آرائی یا بغاوت کی سیاست کے لیے تیاری کر رہی ہے؟

اس سوال پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ انقلابی سیاست کے لیے تو سڑکوں پر نکلنا پڑا ہے۔ ’یا تو نواز شریف اعلان کر دیں کہ وہ واپس آ رہے ہیں اور یہ نہ کہیں کہ پارٹی انھیں آنے سے منع کر رہی ہے۔ یا مریم نواز سڑکوں پر نکل آئیں، اس سوچ سے قطع نظر کہ انھیں گرفتار کیا جائے، ان پر مقدمہ چلایا جائے یا انھیں سزا دی جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں مریم نواز کی ٹویٹس میں کسی طرح کا انقلابی پن نظر نہیں آ رہا ہے۔

مظہر عباس کے مطابق دوسری طرف شہباز شریف والا لائحہ عمل ہے، جہاں وہ کوشش کرتے ہیں کہ چیزیں بہت زیادہ تصادم کی طرف نہ جائیں اور معاملات کسی نہ کسی مرحلے پر طے ہو جائیں۔

انھوں نے کہا کہ شہباز شریف کے طرز سیاست کی وجہ سے اتنا تو ہوا کہ نواز شریف علاج کے لیے باہر جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک بلاشبہ موجود ہے، لیکن اگر شریف فیملی کے لیے مشکلات بڑھیں اور ان کی سزائیں برقرار رہیں، اور نواز شریف بیرونِ ملک ہی اچھے وقت کا انتظار کرتے رہے تو ہو سکتا ہے کہ جو سپیس اس وقت مسلم لیگ کے پاس ہے وہ باقی نہ رہ پائے۔

مظہر عباس کے مطابق فی الحال تو انھیں ملسم لیگ نون ایک ابہام کا شکار پارٹی نظر آ رہی ہے جنھیں سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کا کس طرح مقابلہ کریں۔

تاہم برجیس طاہر کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کسی قسم کے مخمصے کا شکار نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp