کورونا وائرس: صحتیاب ہونے والا مریض بڑی سکرینوں سے ڈرنے لگا


کووڈ کی مریضہ

انڈیا میں وائرس کے مریضوں کی تعداد 50 لاکہ سے بڑھ گئی ہے

انڈیا میں کووڈ 19 کے کیسز میں مسلسل اضافے سے ایک دوسری ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی گئی ہے یعنی مریضوں میں ذہنی صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

42 سالہ راجیش تیواری کو اپنے فون سے بڑی کسی بھی سکرین سے خوف آنے لگا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بڑی سکرینیں، خاص طور پر ٹی وی سیٹ اور کمپیوٹر مانیٹر کوئی دیوہیکل مخلوق ہیں جو ان پر حملہ آور ہو سکتی ہیں۔

تیواری میں یہ وہم اس وقت پیدا ہونا شروع ہوا جب وہ انتہائی نگہداشت یونٹ میں طویل عرصے تک داخل رہے۔ جون کے شروع میں ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور حالت مزید خراب ہونے پر انھیں ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں پانچ دن بعد انھیں وینٹیلیٹر پر ؟ال دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی ’کورونا واریر‘ جو کینسر کے باوجود لوگوں کی مدد کرتی ہے

انڈیا کورونا کے پھیلاؤ کے وجوہات کو تسلیم کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟

کووڈ 19: مرنے والوں کی لاشیں گڑھے میں ’پھینکنے‘ پر سخت تنقید

تیواری تقریباً تین ہفتوں تک ہسپتال میں رہنے کے بعد صحتیاب ہوئے۔ لیکن انھیں جلد ہی احساس ہوا کہ وہ مکمل طورپر صحتیاب نہیں ہوئے ہیں۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا ‘میں اب بہتر ہوں کیونکہ میں نے علاج کرایا۔ لیکن ہسپتال سے رخصتی کے بعد کے پہلے چند ہفتے بہت مشکل تھے۔’

ایمبولینس

تیواری کے اہل خانہ انھیں سلامتی کے ساتھ گھر لاکر پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ تیواری کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ایک دن وہ ٹی وی سیٹ دیکھ کر چیخ پڑے اور اسے توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کے بعد فیملی کو ٹی وی دیکھنا بند کرنا پڑ گیا اور کسی کو گھر میں لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

تیواری نے کہا کہ وہ آئی سی یو میں لگے مانیٹر کو اور ان پر چمکتے نمبروں اور ان کی آواز کو بھولنے کی کوششوں کے باوجود نہیں بھول پا رہے ہیں۔

’کووڈ مجھے مار ڈالے گا‘

امیت شرما اور ان کے اہل خانہ کا بھی ایسا ہی تجربہ تھا۔ 49 سالہ شرما نے آئی سی یو میں 18 دن گزارے اور دیکھا کہ لوگ ہر روز مر رہے ہیں۔ جوان اور بوڑھے، مرد اور خواتین ہر طرح کے کووڈ 19 مریض ان کے ارد گرد مر رہے تھے۔

انھوں نے کہا ‘ایک دن میرے آس پاس کے دو مریضوں کی موت ہوگئی اور ان کی لاشیں کئی گھنٹوں تک وہیں پڑی رہیں۔ میرے ذہن سے وہ تصویر نہیں نکل رہی ہے۔ مجھے اب بھی اچانک سے ڈر لگتا ہے کہ کووڈ مجھے مار ڈالے گا۔’

شرما تکلیف دہ تجربے کو بھلانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے چچا نے بتایا کہ صحتیاب ہونے کے بعد وہ گھر میں بہت خاموش خاموش رہنے لگے۔’ انھوں نے مزید کہا ‘اور جب بھی وہ بات کرتے ہیں تو ہمیشہ ان مریضوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنھیں انھوں نے کووڈ وارڈ میں مرتے دیکھا تھا۔’

ذہنی امراض کے ماہر کیا کہتے ہیں؟

ممبئی کے پی ڈی ہندوجا ہسپتال کے ایک سینیئر ماہر نفسیات ڈاکٹر وسنت مندرا بتاتے ہیں کہ انڈیا میں صحتیاب ہونے والے متعدد کورونا مریضوں کو ذہنی صدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر ایسے لوگ جو وینٹیلیٹر پر تھے یا جنھوں نے طویل عرصے تک کسی آئی سی یو میں گزارے تھے۔

ڈاکٹر مندرا نے کہا ‘جب آپ ہسپتال پہنچتے ہیں آپ کا دماغ اس وقت تک تھک چکا ہوتا ہے۔ اور پھر کووڈ وارڈوں کی تباہی آپ کے ہوش و حواس پر حاوی ہوجاتی ہے۔’

کورونا بینر

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


جنوبی ہند میں ایرناکولم میڈیکل کالج کے نگہداشت کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اے فتاح الدین نے کہا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو ان کے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور وہ اپنے ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں کو بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت حفاظتی ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے مریضوں کی اپنے ڈاکٹر پر اعتماد پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی جلد صحتیابی میں خلل پڑتا ہے۔

کورونا وائرس سے صحتیابی کا تجربہ ایک تنہا تجربہ ہوسکتا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب مریض زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے واقعات کا تجربہ کرتا ہے تو صحتیابی کے بعد اس کے ساتھ صدمے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر منڈرا نے کہا کہ ان مریضوں میں افسردگی، اضطراب، فلیش بیکس اور واہمہ جیسی علامات ابھرتی ہیں۔

ڈاکٹر

ڈاکٹروں نے اس بابت متبنہ کیا ہے کہ اس کے باوجود ابھی تک کورونا وائرس کے مریضوں سے وابستہ ذہنی صحت کے معاملات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ سرکاری پریس کانفرنسوں یا انڈین میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ذہنی صحت کے معروف ڈاکٹر سومترا پٹھارے نے کہا کہ انھیں اس بات پر حیرت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ‘آپ وبائی مرض کے دوران جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ذہنی صحت کی سہولیات کے معاملے میں انڈیا کی ناقص سرمایہ کاری کا عکاس ہے۔’

انڈیا میں دماغی صحت کے مریضوں کے علاج کی سہولیات اور ان کے ماہرین کی کمی ہے اور چھوٹے شہروں میں صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے جہاں لوگ اکثر علامات کو پہچاننے کے قابل بھی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر پٹھارے نے کہا کہ انڈیا کے ذہنی صحت سے متعلق زیادہ تر انفراسٹرکچر شہروں میں مرکوز ہیں جبکہ ملک کی 80 سے 90 فیصد آبادی کی ذہنی صحت کے ماہرین تک کم یا کوئی رسائی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس وبائی مرض کے دوران یہ فرق اور بھی بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت جلد ہی اس مسئلے کو تسلیم کرنے اور اس کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی تو انڈیا کو ‘ذہنی صحت کی وبا’ کا سامنا ہوگا۔

ڈاکٹر پٹھارے نے کہا کہ اس کا اچھا نقطہ اغاز یہ ہے کہ ہم لوگوں میں اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کریں۔ اور اگلا قدم ذہنی صحت کی سہولیات کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں۔

انھوں نے کہا ‘مجھے معلوم ہے کہ یہ راتوں رات نہیں ہوگا لیکن ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہی ہوگا۔’

افسردگی

دلی کے فورٹس ہسپتال میں ذہنی صحت کے شعبہ کی سربراہ کامنا چھبر نے کہا کہ اس وبائی امراض کے دوران ذہنی صحت کے لیے رجوع کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کامنا چھبر نے کہا کہ ایک طویل لاک ڈاؤن، مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور مستقل الرٹ رہنے کی وجہ سے لوگوں میں زیادہ اضطراب اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ عام طور پر اضطراب اور افسردگی کے بارے میں بات کرنے ہسپتال پہنچ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسئلہ ‘ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین’ ہوتا جارہا ہے۔

ڈاکٹروں نے اب کووڈ کے علاج کے بعد پروٹوکول کے ایک حصے کے طور پر ذہنی صحت پر توجہ دینے پر زور دینا شروع کیا ہے۔ ڈاکٹر فتح الدین نے کہا کہ ہر ہسپتال کو اس ضمن میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اگر ‘ہم لوگوں کو کووڈ سے بچا بھی لیتے ہیں تو بھی انھیں ڈپریشن اور پی ٹی ایس ڈی کی وجہ سے کھو دیں گے۔’

مریضوں کی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp