مار دو، لٹکا دو، جلا دو


لاہور سیالکوٹ موٹروے پر گوجرہ کے مقام پر ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والے دلخراش واقعے کے بعد بشمول عوام میڈیا کی ساری توجہ اسی واقعے پر مرکوز ہے۔ کیوں نہ ہو، واقعہ ہی اتنا دہلا دینے والا ہے۔

اس واقعے کے بعد تین طرح کی بحثیں چھڑ گئی ہیں عمومی طور پر اس واقعے سے متعلق یا اس سانحے سے متاثرہ کوئی تحریر پڑھیں یا تقریر سنیں تمام ان تین طرح کی بحثوں میں ہی اضافہ کرتی نظر آتی ہیں۔

پہلی بحث مذکورہ موٹروے پر وارداتیں رپورٹ ہونے کے باوجود سیکیورٹی کی عدم موجودگی پر مبنی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے موٹروے پولیس کی جانب سے سیکیورٹی مقرر کرنے تک پنجاب پولیس کے 250 اہلکار مقرر کر کے بحث کا یہ ”چیپٹر کلوز“ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کچھ منچلے ہیں کہ رٹ لگائے بیٹھے ہیں ذمہ داروں کا تعین کرو انہیں سزائیں دو۔ ارے بھائی منچلو! جب پنجاب حکومت اہلکار مقرر کر چکی ہے تو کاہے مغز کھپاوت ہو۔ بس ہو گیا نہ عملہ مقرر۔ بات ختم۔ آگے بڑھو۔

لیجیے جی دوسری بحث! خاتون آدھی رات کو بغیر کسی محرم کے بغیر گھر سے نکلی ہی کیوں تھی؟ کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ فرانس نہیں ہے کہ آدھی رات کو تین بچے لے کر لانگ ڈرائیو پر نکل پڑی۔ یہ والی بحث بڑی دبنگ ہوئی کیوں کہ متاثر کو مورد الزام ٹھہرانے والے بیانات دینے اور پھر ان بیانات کا دفاع کرنے والی شخصیت سی سی پی او لاہور عمر شیخ تھے اور ان کی ہمنوا بنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت۔

ان بیانات در بیانات پر اہل دانش تلملا اٹھے۔ انہیں اعتراض تھا کہ جو بندہ تحفظ فراہم کرنے کا ضامن ہے وہی وکٹم بلیمنگ کر کے دقیانوسی پدر شاہانہ سوچ کا حامل ہے لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اپوزیشن نے بھی اہل دانش کا موقف ”دھانسو“ جان کر جھپٹ لیا اور حکومت نے بھی پکی والی قسم کھا لی کہ اپوزیشن کا موقف نہیں چلنے دیگی۔

ہمارے اہل دانش بھی بڑے سادہ لوگ ہیں۔ انہیں کاروبار زندگی کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں۔ ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں۔ کیوں یہ لوگ اندھوں کے دیس میں آئینے بیچنے نکل پڑتے ہیں۔ اب ذرا بتائے اندھوں کے دیس میں آئینے بیچنا بھی کبھی سودمند سودا ہو سکتا ہے؟

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں محترمہ عاصمہ شیرازی صاحبہ کا بی بی سی پر چھپنے والا کالم ہی پڑھ لیں۔ محترمہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ مبارکباد کے سلسلے سے متاثر ہونے کے بجائے لکھتی ہیں کہ ”جناب سی سی پی او صاحب کا (کہا ہوا) یہی وہ سچ ہے جس پر وہ اصل میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ قوم ان کی مشکور ہے کہ انھوں نے عوام کی آنکھیں کھولیں اور انھیں خواب غفلت سے جگایا۔“ اب بتائیے محترمہ بھی اندھوں کے دیس میں آئینے بیچنے کی کوشش نہیں کر رہی تو کیا کر رہی ہیں!

سچ یہی ہے کہ اہل دانش کتابوں اور مثالی باتوں سے باہر کاروبار دنیا کے بارے میں ”ککھ وی نئی جانتے“ ، اگر عاصمہ بھی اس دھندے کو جانتی ہوتیں تو کیا وہ کے قوم خواب غفلت کی نیند میں ہونے کا گمان بھی کیسے کر سکتی تھیں۔ انہیں لگتا ہے قوم خواب غفلت کی نیند سوئی ہوئی تھی اور سی سی پی او کے بیان نے اسے جگایا ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ قوم تو روز اول سے روز ابد تک بیدار ہے وہ محترمہ خود سوئی ہوئی تھیں اور موٹروے سانحے پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ہیں۔ اگر میری بات کا یقین نہ ہو دیکھ لیجیے قوم کے مطالبات کیا ہیں۔ کیا سوئی ہوئی قوم ایسے مطالبات کر سکتی ہے؟

ویسے تیسری بحث بھی قوم کے مطالبات کے حوالے سے ہے۔ اور بیدار قوم مار دو، جلا دو، لٹکا دو کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اور اس بیدار قوم کے ”ہائیلی“ بیدار وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ قوم ٹھیک سمجھتی ہے۔ مگر انہیں ڈر ہے کہ اگر قوم کے مطالبات مان لئے تو ”ڈارک ایجز یعنی اندھیرے دور“ میں بسنے والے یورپین تجارتی تعلقات منقطع کر دیں گے، لہٰذا انہوں نے قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مار دو، لٹکا دو، جلا دو کے متبادل کے طور پر ”خسی کردو“ کا مطالبہ استعمال کرنے کا گوہر نایاب نسخہ عنایت کر دیا دیا ہے۔ اہل دانش کو ہمارے وزیر اعظم سے کچھ سیکھنا چاہیے کہ کس بازار میں کیا سودا بیچنا ہے۔

ابھی تک موٹروے واقعے پر میڈیا کے مطابق ملک بھر میں غم و غصے کی لہر چھائی ہوئی ہے لیکن دیکھو تو صرف غصہ ہی غصہ نظر آتا ہے۔ یہ غصہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا زینب کے کیس میں نظر آیا تھا۔ جیسا سانحہ ساہیوال پر بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ ذہنی معذور صلاح الدین کے پولیس کسٹڈی میں موت واقع ہونے بعد دیکھنے کو ملا تھا اور یہی غصہ ہمیں کراچی میں پولیس اہلکار کی گولی سے ایک معصوم بچی امل عمر کی ناگہانی موت پر بھی دیکھنے کو ملا تھا۔

یہ غصہ نیا نہیں ہے اگر اس کی کاربن ڈیٹنگ کرائیں تو عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ اہل دانش سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم ”قوم گجنی“ ہے یعنی شارٹ ٹرم میموری رکھتی ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی قوم کے خواب غفلت کی نیند سونے کے گمان جیسا ہی بے تکا اور خیالی ہے یقین نہ آئے تو دیکھ لیں زمانۂ قدیم سے آج تک مار دو، لٹکا دو، جلا دو وہیں کا وہیں ہے۔ کہاں بھولے ہیں! کب بھولے ہیں؟

بقایا معاملات کو بھول جائیں صرف موٹروے واقعے کو ہی دیکھ لیں اہل دانش کتنے بھولکڑ ہیں۔ ہماری قدیم روایتی مطالبات کے برعکس سمجھتے ہیں کہ مار دو، لٹکا دو، جلا دو مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑی ہی بے تکی دلیل بھی دیتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہوگی تو ذمہ داریاں متعین ہوں گی، ہر ایک اپنے آئینی و قانونی دائروں میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے گا اور آپ کو یہ نہیں پوچھنا پڑے گا کہ موٹروے پر سیکیورٹی کیوں نہیں تھی یا سیکیورٹی دینا کس کی ذمہ داری تھی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہوگی تو سی سی پی او کو پتہ ہوگا کہ ایک عام شہری کے کیا حقوق ہیں اور وہ کب کہاں کیسے نکل سکتا ہے اور کب نہیں نکل سکتا۔ قانون کی حکمرانی ہوگی تو متاثر اور ملزم کا فرق واضح طور پر نظر آئے گا اور ملزم و مجرم کی تفریق بھی بہ آسانی ہو جائے گی باقی سخت سزاؤں سے خوف نہیں بلکہ سماجی بگاڑ پیدا کیا جا سکتا ہے اور سرعام سزاؤں سے معاشرے میں بے رحمی اور سفاکیت جیسے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ اب یہ بھی کوئی بات ہے؟

اور کہتے ہیں کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہوگی تو لوگوں میں قانون کا اور پکڑے جانے کا خوف پیدا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی ہوگی تو ہمیں ہر بار سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ قانون کی حکمرانی ہوگی تو انصاف صرف میڈیا کے ہائی پروفائل کیسز تک محدود نہیں ہوگا بالکل تھر اور چولستان کے تپتے صحراؤں سے کراچی کے کنکریٹ جنگلوں کے درمیاں کسی جھونپڑی میں بسنے والے معذور کو بھی انصاف ملے گا۔

بات یہیں رکتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن کہتے ہیں کہ یہ موٹروے واقعے کا مرکزی ملزم عابد اس سے پہلے بھی تو جنسی زیادتی کے کیسز میں نامزد تھا لیکن بات میڈیا پر نہیں آئی نہ ہی ہائی پروفائل کیس بنا اس لئے تمہیں اس کا نام معلوم نہ تھا لیکن وہ تھا تو عادی مجرم۔ اور قانون میں اس کے جرم کی معمولی سی ہی سہی لیکن سزا بھی درج تھی مگر افسوس کہ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے باعث وہ معمولی سی سزا بھی اسے نہ ملی، جس نے اسے مزید شہ دی اور موٹروے جیسا سانحہ ہو گیا۔ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو وہ معمولی سزا بھی یہ واقعہ روک سکتی تھی۔

اب عمران خان کی تجویز کردہ سزا یعنی ”خسی کرو“ یا مار دو، لٹکا دو، جلا دو والا مطالبہ ہی مان لیا جائے! لیکن جب نظام انصاف ہی اتنا مفلوج ہو کہ دو سال کی سزا بھی نہ دے پائے تو خصی تو صرف قربانی کے بکروں کو ہی کرتے رہیں گے؟

وہ کیا ہے نہ مجھے بھی اپنا سودا بیچنا تھا اور میں جانتا تھا کہ اندھوں کو کیا پتہ کہ آئینہ کیا ہوتا ہے لہٰذا میں ”گنجوں کے دیس میں کنگھی“ لے آیا۔ مجھے پتہ ہے کہ اندھے آئینے کی اہمیت و افادیت سے نابلد ہیں لیکن گنجے کنگھی کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور اس کی افادیت بھی جان سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ میری یہ کنگھی بھی ان کے کسی کام کی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).