محمد اختر مسلمؔ۔ لاکھ تاروں کی بہاریں ہیں مگر تم تو نہیں


شاعر مشرق علامہ اقبال سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے، تو اقبال نے فرمایا کہ میرا ذہنی ارتقاء۔ والد مرحوم بھی اقبالؔ کی پیروی میں ذہنی اور فکری ارتقاء کی منازل طے کرتے رہے۔ مطالعہ کی وسعت اور تنوع ان کی قدر خاص تھی۔ مطالعہ میں وہ مشرق سے بیزار ہوئے نہ مغرب سے حذر کیا، بلکہ ہر شب کو سحر کرنے کی جستجو میں رہے۔ اکثر قریبی احباب کو تحفتا کتابیں پیش کرتے تھے۔ ہمیں بھی اکثر ہماری عمر کے لحاظ سے کتابیں پڑھنے کو دیتے۔

میں جب پانچویں جماعت میں تھا تو سیرت مبارکہ پر مجھے جو پہلی کتاب پڑھنے کو دی وہ فقیر سید وحید الدین احمد کی ”محسن اعظم و محسنین“ تھی۔ اسی طرح میجر عزیز بھٹی شہید کی سوانح سے متعلق کتاب اور عنایت اللہ مرحوم کی ”پاک فضائیہ کے شاہین“ بھی اسی جماعت میں پڑھنے کو ملیں، پھر ان کی تربیت سے مطالعہ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے کتب خانے میں قرآن پاک کی بے شمار تفاسیر و سیرت طیبہ ﷺ کے نسخے، دیگر دینی و ترقی پسند لٹریچر کے ساتھ ساتھ تاریخ، فلسفہ، سیاست، ادب، تصوف، سوانح عمری، خودنوشت اور شاعری کا ایک قابل ذکر ذخیرہ موجود ہے۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی علمی مجلس میں کسی کتاب کا ذکر سنا ہو اور وہ ان کے کتب خانے میں موجود نہ پائی ہو۔ انہوں نے ان مختلف مکاتب فکر کا مطالعہ اندھی تقلید کی بجائے کھلے ذہن اور آنکھوں سے کیا۔ فکر و تدبر جس کا تقاضا قرآن اپنے قاری سے کرتا ہے اس تقاضے کو انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔ اپنے نظریات کو دلائل کے ساتھ پیش کرتے تھے، اور زبردستی اپنے نظریات کسی پر مسلط نہ کرتے، حتیٰ کے ہم پر بھی۔ بس نیک و بد سمجھا دیتے۔ اپنے نظریات اور عقائد کے حوالے سے مصلحت پسند تھے نہ ہٹ دھرم۔ اگر کوئی بہتر دلائل سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتا اور وہ مطمئن ہو جاتے تو اپنے نظریات سے رجوع کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہ کرتے۔ نظریاتی اختلافات کو کبھی بھی ذاتی اختلاف نہیں بننے دیتے تھے۔

ساٹھ کی دہائی میں جب ملک پر جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا تسلط اپنے عروج پر تھا تو اس وقت ملک میں چلنے والی سوشلزم کی تحریک سے دیگر پڑھے لکھے متوسط طبقے کی طرح متاثر ہوئے۔ لیکن اس کے مذہبی فلسفے کو ، ایک مسلمان اور وہ بھی ایسے مسلمان کے لیے جس کی صحبت ہی مولانا سعید بن وحید مرحوم، مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم، مولانا محمد طاسین مرحوم اور الطاف جاوید مرحوم سے رہی ہو، کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا، لہذا اسلامی سوشلزم کے حامی رہے اور ہفت روزہ نصرت کی ٹیم کا حصہ رہے۔ ان کی بنیادی فکر سرمایہ داری، جاگیر داری اور ظلم اور استحصال کا رد رہی۔

کتاب ”قرآن اور انسانی حقوق“ انہوں نے 2010 ء میں تالیف کی۔ ایسے دور میں جب مغرب میں انسانی حقوق کا بہت چرچا ہوا تو انہوں نے اپنی تالیف میں اقبال کی زباں میں یہ بتایا کہ :

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ ء حیواں ہے یہ ظلمات

کتاب کا بنیادی مقدمہ اس مغربی تصور کا رد تھا کہ جس میں وہ انسانی حقوق کے تصور کی ارتقائی تاریخ کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان سے کرتے ہیں اور پھر پانچویں صدی عیسوی کے زوال پذیر روم سے اپنی سیاسی فکر کا ناتا جوڑتے ہیں۔ جس میں وہ ایک ہی زقند میں گیارہویں صدی عیسوی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی سے دسویں صدی عیسوی تک کا پانچ سو سالہ طویل اسلامی عہد ان کی تاریخ کتب میں اہم مقام نہ پا سکا۔ قرآن اور انسانی حقوق میں بتانا یہ مقصود تھا کہ اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان کا وجود، خالق کائنات نے جس طرح طبعی زندگی کے اسباب ہوا، پانی، خوراک انسان کی پیدائش سے پہلے عطا کر دیے تھے، اسی طرح ضابطۂ حیات سے بھی آدم اور نسل آدم کو بذریعہ وحی آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جو نبی کریم حضرت محمد ﷺ پر آ کر ختم ہوا۔

آج دنیا کے ہر گوشے سے بنیادی حقوق کے حصول کی آوازوں کا بلند ہونا اور تکریم انسانیت کے تصور کا پنپنا قرآنی شعور اور سیرت طیبہ ﷺ کے ہی احسانات ہیں۔ کتاب کے دس ابواب میں قرآن مجید میں بتائے گئے انسانی حقوق پر پورا ایک باب موجود ہے۔ جس میں قرآن کا نظریہ میثاق، احترام آدمیت، مساوات مرد و زن، عزت کا معیار، آزادی، محنت کا معاوضہ اور حق محنت، مذہبی آزادی اور جان و مال اور عزت و حرمت کا تحفظ، تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح خواتین کے حقوق پر بھی ایک مکمل باب موجود ہے، جس میں دیگر معاملات کے علاوہ خاص کر عورت کی گواہی اور حصول معاش میں عورت کے کردار پر قرآنی احکام کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔

یہ اعتراف بھی ہے کہ اپنے مطالعہ، فکر اور حلقۂ احباب کی بنیاد پر وہ عملی طور پر بھرپور کردار ادا نہ کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، کوئی بھائی بہن ہوتا تو دست و بازو بنتا اور سامان دعا کرتا۔ تعلق اس متوسط طبقے سے تھا جو اپنے سفید کپڑوں کا بھرم رکھنے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہتا ہے۔ دفتر کے بعد اے / او لیول کے طلباء کو ٹیوشن پڑھاتے اور ہمارے لیے سامان زیست کا انتظام کرتے۔

آج میں حالات کو دیکھتا ہوں تو قمر جلالوی کا یہ مصرعہ یاد آ جاتا ہے کہ :
لاکھ تاروں کی بہاریں ہیں مگر تم تو نہیں
ان کا انتقال 17 ستمبر 2014 ؁ء کو ہوا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).