’ابراہیمی معاہدے‘ پر امریکی صدر کی سرپرستی میں دستخط


دنیا کے تین بڑے توحیدی ادیان کے چوٹی کے نمائندے اسرائیل اور عرب خلیجی ریاستوں بحرین اور متحدہ عرب امارات کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور دو عرب خلیجی ریاستوں کے مابین ایک تاریخی سفارتی معاہدے پر دستخط کی تقریب کی میزبانی کرنے جا رہے ہیں۔ کیا ٹرمپ نومبر میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل اس اقدام سے اپنی مقبولیت میں اضافے کی توقع کر رہے ہیں؟

منگل 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہو رہا ہے جس کے میزبان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے اور تقریب میں شرکت کرنے والے 700 افراد ان تاریخی لمحات کے عینی شاہد ہوں گے جنہیں مشرق وسطیٰ کی سیاسی قوت میں ایک ڈرامائی تبدیلی سمجھا جا رہا ہے۔

تقریب میں کون کون مدعو؟

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ وائٹ ہاؤس کے ساؤتھ لان میں منعقد ہونے والی اس تقریب کی مرکزی اور اہم ترین شخصیات ہیں۔ ان کے علاوہ واشنگٹن میں مقیم ڈپلومیٹک کارپس جن کا تعلق ان ممالک سے ہے جو اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی حمایت کر رہے ہیں نیز چند دیگر غیر ملکی معروف شخصیات بھی اس تقریب میں شریک ہوں گی۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس سے تعلق رکھنے والے کچھ ایسے ڈیموکریٹس کو بھی مدعو کیا ہے، جنہوں نے خاموش رہتے ہوئے اس تاریخی معاہدے کی تعریف کی ہے۔

محمود، عباس، محمد بن زاید، بنجمن نیتن یاہو

معاہدے کی شکل

اس تقریب میں یہودی ریاست اسرائیل، خلیجی عرب ریاست بحرین اور متحدہ عرب امارات دو طرفہ معاہدوں کے ساتھ ساتھ ایک سہہ فریقی دستاویز پر بھی مشترکہ طور پر دستخط کریں گے۔ واضح رہے کہ اس معاہدے کو طے کرتے وقت خلیجی عرب ریاستوں نے اسرائیل فلسطینی دیرینہ تنازعے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ اس پس منظر میں خیال کیا جا رہا ہے کہ فریقین عشروں کی دشمنی دو جنگوں اور محض دو امن معاہدوں کے بعد، ایک وسیع تر عرب اسرائیل مصالحت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے۔

تاہم چند سابقہ اہلکاروں اور تنازعہ مشرق وسطیٰ پر ایک عرصے سے گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے فلسطینیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے طے کیے جانے والے اس معاہدے کے اثرات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے ماہرین نے اس امر پر زور دیا ہے کہ اس معاہدے کو فلسطینی دیگر عرب ممالک کی طرف سے اپنی ’پیٹھ پر وار‘ سمجھتے ہوئے اسے رد کر چکے ہیں۔

معاہدے کے حق میں دلائل

مذکورہ معاہدے پر سخت تنقید کرنے والے کچھ ماہرین اس طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں نے بھی بحرین اور متحدہ عرب امارات کی پیروی کی تو خطے میں ایک سیاسی زلزلہ آ ئے گا جس کے سنگین اثرات ایران، لبنان اور شام پر مرتب ہوں گے۔ عمان، سوڈان اور مراکش کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ریاستیں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مرحلے سے قریب نظر آ رہی ہیں۔

ٹرمپ کے داماد اسرائیلی وفد کے ہمراہ۔

ٹرمپ کے داماد کیا کہتے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور ان کے ایک سینیئر مشیر جنہوں نے معاہدے کے فریقین کے مذاکرات کی قیادت بھی کی، جیئرڈ کوشنر، کے بقول، ”یہ معاہدے ان ممالک کے لیے بڑا کارنامہ ہے، جو اس میں شامل ہیں۔ اس سے خطے میں امید کا ایک زبردست احساس جاگا ہے۔“ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے کوشنر کا کہنا تھا، ”ماضی کے تنازعات پر توجو دینے کی بجائے ہمیں لا متناہی امکانات کے ساتھ ایک متحرک مستقبل پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔“

منگل کو وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی یہ تقریب ٹرمپ اور ان کے داماد کی کئی مہینوں پر محیط سفارتکاری کی کوششوں کا نتیجہ ہے جبکہ رواں سال 13 اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والا معاہدہ ٹرمپ اور کوشنر کے خصوصی ایلچی آوی بیرکووٹس کی کوششوں کا ثمر تھا۔

معاہدے کے مندرجات

منگل کو وائٹ ہاؤس منعقدہ تقریب میں جن دستاویزات پر دستخط ہونا ہیں ان کے مندرجات کی تفصیلات پیشگی طور پر معلوم نہیں ہیں۔ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جو مشترکہ بیانات جاری کیے گئے ہیں ان پر وہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر ابھی واضح نہیں کہ آیا معاہدوں کے لیے تینوں حکومتوں کو مزید کارروائی کی ضرورت ہوگی اور یہ کہ ان میں سے ہر ایک فریق کو کن شرائط کا پابند ہونا پڑے گا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa