فراس الخطیب کی کتاب ”اسلام کی گمشدہ تاریخ“ (حصہ دوم)


مصنف: فراس الخطیب
مترجم: ادیب یوسفز
عرب کے پڑوسی

جزیر نما عرب صحراؤں میں ہونے اور جدید ترین تہذیبوں سے دور ہونے کے باوجود، عربی اپنے پڑوسیوں سے جدا نہ تھے۔ رومی عیسوی کے اوائل میں جزیرہ نما کی شمالی سرحدوں کے ساتھ ایک علاقائی سپر پاور بن چکے تھے۔ شام کے صوبہ فلسطین میں یہودیوں کی متعدد بغاوتیں ختم کرکے، رومیوں نے اس علاقے پر اپنے کنٹرول کی مہر ثبت کردی تھی۔ بدو عربوں کے لئے، اس کا مطلب شمال میں ایک مالدار اور مضبوط تجارتی ساتھی کی موجودگی تھی۔ تاجر باقاعدگی سے جزیرہ نما کے مغربی حصے میں یمن سے شمال میں، شام جاتے تھے، جہاں سے ہندوستان اور اٹلی کے مقامات سے آنے والے سامان کی تجارت ہوتی تھی۔ رومی زرخیز کریسنٹ کی موزون اور مانوس علاقوں میں رہنے اور خانہ بدوش عربوں کو زیادہ دور دراز علاقوں کے ساتھ تجارت کرنے پر خوشی تھے۔

عرب کے شمال مشرق میں ایرانی سطح مرتفع ہے۔ 200 عیسوی میں فارس میں ساسانی سلطنت کا عروج رومیوں اور فارسیوں کے مابین صدیوں سے جاری جدوجہد کے آغاز کا سبب بنا۔ جس کے اثرات عربوں پر پڑیں۔ دو عظیم سلطنتوں کے مابین سرحد میں اتار چڑھاؤ ہوا، لیکن یہ جزیرہ نما عرب کے شمالی حصے، عام طور پر صحرائے شام میں تھا۔ رومیوں اور فارسیوں نے عرب قبائل (عام طور پر وہ لوگ جنہوں نے عیسائیت اختیار کی) کو پراکسی کے طور پر استعمال کرکے بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس تنازعہ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کے خواہاں، دو عرب قبائلی ریاستیں بڑی طاقتوں کے لئے مؤکل ریاستوں میں تبدیل ہوگئے۔ غاسانیوں نے اپنی ایک بادشاہت قائم کی جو اب اردن، شام اور فلسطین کے جدید ممالک ہیں، جہاں انہوں نے سلطنت روم کے لئے سپر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اسی طرح، لخمیوں نے جنوبی میسوپوٹیمیا کو کنٹرول کیا اور فارس کی خدمت کی۔ دونوں عرب سلطنتیں ان کے مالکان کی طرف سے بہت متاثر ہوئیں، جنہوں نے دشمن کے مقابلے میں اپنی ان رعیتوں کو مسلح کرنے کے لئے بھاری بھرکم خرچے کیے۔

پھر بھی دونوں فریقوں کے مابین مستقل جنگ نے آہستہ آہستہ چاروں فریقین کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔ 600 ء کے اوائل تک، رومی اور فارسی کئی دہائیوں کی جنگ سے تھک چکے تھے اور وہ عسکریت پسندی کی طاقت کے لحاظ سے کمزور پڑ رہے تھے۔ غاسانیوں اور لخمیوں نے بھی جنگ کے تناؤ کو محسوس کیا، کیونکہ وہ اس تنازعہ میں محض مہرہ تھے۔ تاہم، زیادہ تر عرب قبائل نے دونوں سامراجی طاقتوں کے مابین بیرونی تنازعہ میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ وہ کسی بھی ایک ریاست کو فاتح قرار دینے کے مقابلے میں دو برسرپیکار سلطنتوں کے ساتھ منافع بخش تجارت کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

جزیرہ نما کے جنوب میں حبشہ، جدید ایتھوپیا میں اکسم کی طاقتور بادشاہت تھی۔ حبشی کے پہاڑوں کی اونچائی پر مبنی، اکسم ایک طاقتور تجارتی ریاست تھی جو اندرون افریقی ریاستوں، بحر ہند کے سمندری راستوں اور جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے سے جڑی تھی۔ تجارت کے لئے ایک سنگم کے طور پر، اس نے عرب تاجروں پر کافی اثر ڈالا، جنہوں نے یمن میں اکسومیوں کے ساتھ معاملات انجام دیے۔ روم کی طرح، اکسم بھی ایک عیسائی سلطنت تھی جس کا متعدد مقامات پر فارس کے ساتھ تناؤ جاری تھا۔ یمن سے گزرنے والے تجارتی راستوں پر قابو پانا تناؤ کا مستقل ذریعہ تھا، کیونکہ دونوں فریقین مقامی رہنماؤں کو مہرہ بنانے کی کوشش میں تھے۔

600 ء کے اوائل میں بڑھتی ہوئی عالمگیریت کے دور میں عرب اپنے پڑوسیوں سے واقف تھے اور جزیرہ نما عرب کے باہر واقعات سے متاثر ہو گئے تھے۔ تین طاقتور ریاستوں کے چوراہے پر رہنے کا مطلب بین الاقوامی سیاست سے آگاہ ہونا اور اپنے مفادات کے لئے دشمنیوں کو استعمال کرنے کی مہارت حاصل کرنا تھا۔ تاہم ایک نازک مقام پر موجودگی کے باوجود، عرب صحرا کی گہرائی میں محفوظ رہے۔ انہوں نے اپنے جزیرہ نما کو جزیرۃ العرب کہا، جس کا مطلب ہے ”عرب کا جزیرہ“ ۔ جس کی وجہ سے یہاں کے باشندے الگ تھلک تھے۔ یہ تنہائی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ سخت ماحول کا مطلب یہ تھا کہ آس پاس کی کوئی بھی ریاست عرب زمینوں پر حملہ اور قبضہ نہیں کر سکتی تھی۔ عربوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا روایتی چکر اور ان کی طرز زندگی علاقائی سیاست اور جنگوں سے متاثر نہیں ہوئی۔

اس محفوظ ماحول میں 600 ء کے اوائل میں ایک تحریک اٹھی۔ جس کے آس پاس کی ریاستوں اور بالآخر پوری دنیا پر بہت بڑے اثرات مرتب ہوئے۔ اس تحریک سے عربوں کی تقدیر ہمیشہ کے لئے بدل گئی۔ اپنی انوکھی صلاحیتوں کو استوار کرنے اور ان منفی ثقافتی خصلتوں کو ختم کرنے جو انہیں گھومنے پھرنے پر مجبور کر رہی تھیں، خانہ بدوشوں کی طرح لڑتے رہنے ؛ ان سب مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ جغرافیہ، آب و ہوا، ثقافت اور سیاست سب نے مل کر ایک بہترین ماحول پیدا کیا جس میں اسلام عالمی تاریخ کی کسی بھی دوسری تحریک، مذہب یا سلطنت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے عالمی طاقت بن گئی۔

اس تحریک نے عرب کے صحراؤں سے نکل کر روم اور فارس کی سلطنتوں کو مسمار کیا۔ مختلف علاقوں کو فتح کر کے متنوع لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جس سے 700 ء میں ایک ایسی سلطنت تشکیل پائی جو سپین سے ہندوستان تک پھیلی؛ جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ریاست ثابت ہوئی۔ 600 ء کے ابتداء میں ان عربوں کے لئے اقتدار اور تہذیب میں یہ نمایاں ترقی ناقابل ادراک تھی، جو محض زندہ رہنے کے لئے تگ و دو کر رہے تھے۔ تاہم یہ سب کچھ اس ایک آدمی کی آمد سے ممکن ہوا جو ایک انقلابی پیغام اور عربوں سے ایک نئی منزل مقصود کا وعدہ لے کر آیا۔ جس کی رسائی عرب کی ریت سے اس پار بیرونی دنیا تک تھی: یہ انقلابی شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).