19 ستمبر 1955 ء: کہانی سکندر مرزا کے ”مستقل“ گورنر جنرل بننے کی


پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد ذہنی طور پر انتہائی مخبوط الحواس ہو چکے تھے اور اپنے ماتحتوں اور ملنے والے لوگوں کو سرعام گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ گورنر جنرل ہاؤس کے ملازمین اور ارباب بست و کشاد میں سے ہر کوئی ان سے تنگ تھا مگر کسی کو ان سے استعفیٰ لینے کی ہمت نہیں تھی۔

اسی دوران 6 اگست 1955 ء کو ملک غلام محمد اپنی شدید علالت کے باعث دو مہینے کی چھٹی لے کر برطانیہ چلے گئے اور گورنر جنرل کا عہدہ عارضی طور پر میجر جنرل (ر) سکندر علی مرزا کو سونپ دیا۔ سکندر مرزا شاید اسی موقع ہی کے انتظار میں تھے چنانچہ 19 ستمبر 1955 ء کو انہوں نے ملک غلام محمد سے زبردستی استعفیٰ لیا اور خود ہی ”مستقل“ بنیادوں پر گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔

گورنر جنرل بنتے ہی سکندر مرزا نے سب سے پہلے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے جان چھڑائی۔ اپنے اس انتہائی اقدام کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملکی سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر وزیر اعظم کی چھٹی کروائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اسکندر مرزا معزول وزیر اعظم بوگرہ کی حکومت میں وزیر داخلہ، وزیر دولت مشترکہ اور امور کشمیر کے اہم ترین عہدوں پر فائز کیے گئے تھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرقی پاکستان میں بطور گورنر بھی تعینات رہے۔

معزول وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو واپس امریکا میں سفیر بنا کر بھیج دیا گیا، جبکہ 12 اگست 1955 ء کو بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ یہ دوسری بار تھا کہ ایک سول سرونٹ پاکستان کا وزیر اعظم بنا۔ اسی اثناء میں گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات بھی بڑھنے لگے جو بالآخر چوہدری محمد علی کے استعفیٰ پر ختم ہوئے۔ چوہدری محمد علی نے وزارت عظمیٰ بھی چھوڑی اور مسلم لیگ کی پارٹی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

آزادی کے نو سال بعد 1956 ء میں پاکستان کا پہلا آئین تیار ہوا اور 23 مارچ 1956 ء کو اس آئین کے نفاذ کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہو گیا جس کے بعد اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر صدارت کا حلف اٹھایا۔ اب گورنر جنرل کی جگہ صدر مملکت کا عہدہ وجود میں آ گیا اور عوامی لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی کو 1956 ء میں وزارت عظمیٰ ملی۔ کیا حسین اتفاق تھا کہ صدر مملکت اسکندر مرزا اور وزیر اعظم سہروردی دونوں کا تعلق بنگال سے تھا۔

سہروردی نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کی تو اسکندر مرزا نے وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔ بالآخر سہروردی نے اسکندر مرزا کو استعفیٰ پیش کر دیا۔ جسے فوراً ہی منظور کر کے انہوں نے ابراہیم اسماعیل چندریگر (آئی آئی چندریگر) کو قائم مقام وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا۔

آئی آئی چندریگر کو یہ عہدہ صدر اسکندر مرزا نے اپنی خواہش پر دیا تھا، سو صدر نے اس وزیر اعظم کو بھی دو مہینے سے زیادہ ٹھہرنے نہ دیا اور 16 دسمبر 1957 ء کو آئی آئی چندریگر سے استعفیٰ لے کر گھر روانہ کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ملک فیروز خان نون کو وزارت اعظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھایا۔

7 اور 8 اکتوبر 1958 ء کی درمیانی شب پاکستان کے اس آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل، وزیر اعظم برطرف اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا اور اس وقت کے کمانڈر انچیف محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

اسکندر مرزا نے نہ صرف سفارش کر کے جونیئر افسر ایوب خان کو آرمی چیف لگوایا تھا بلکہ مارشل لا سے صرف تین ماہ پہلے ان کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کی تھی۔ انہی ایوب خان نے مارشل لا کے 20 دن کے اندر اندر اسکندر مرزا کو جہاز میں لدوا کر پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ بھجوا دیا۔

جب یہ مارشل لا لگا، اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا اور وہ اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدر مملکت نے عافیت اسی میں جانی کہ جمہوریت ہی کا دھڑن تختہ کر لیا جائے۔

اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کی زبانی مل جاتی ہے۔ معروف سول سرونٹ اور صاحب طرز ادیب قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق آپ بیتی ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ 22 ستمبر 1958 کو صدر پاکستان اسکندر مرزا نے انہیں بلایا۔

”ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انہوں نے اس کتاب کی اشارہ کر کے کہا، ’تم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے؟‘ جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسی صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔“

23 مارچ 1956 ء کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا، وہ آئین پاکستان کی دستور اسمبلی نے انہی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خود مختار ملک کی حیثت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسکندر مرزا میر جعفر کے پڑ پوتے تھے۔ وہی میر جعفر جنہوں نے 1757 ء میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے حکمران سراج الدولہ کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور جن کے بارے میں علامہ اقبال کہہ گئے ہیں :

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن

انہی اسکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا نے اپنی کتاب ”فرام پلاسی ٹو پاکستان“ میں حیرت انگیز طور پر کچھ اور ہی کہانی بیان کی ہے۔ صاحب کتاب نے سراج الدولہ کو بدمزاج اور بے رحم ٹھہراتے ہوئے لارڈ کلائیو کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار خود انہی کو قرار دیا تو دوسری طرف یہ عجیب و غریب مماثلت بھی ڈھونڈی کہ جن لوگوں نے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا تھا (مراد اپنے جد امجد میر جعفر سے ہے ) انہی کے ساتھ نوجوان حکمران نے بے وفائی کی۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس جنگ کے تقریباً ٹھیک دو سو سال بعد بنگال کی تاریخ کراچی میں دہرائی گئی اور میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا نے جس ایوب خان کو پروان چڑھایا تھا، اسی نے اپنے محسن کے سر سے تاج صدارت نوچ لیا۔

7 اکتوبر کو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ آئین معطل کر کے اور اسمبلی تحلیل کر کے انہوں نے درحقیقت وہی شاخ کاٹ ڈالی ہے جس پر ان کا قیام تھا۔ چنانچہ اسکندر مرزا کے 7 اور 27 اکتوبر کے درمیانی 20 دن بڑے مصروف گزرے۔

اس دوران انہوں نے پہلے تو فوج کے اندر ایوب مخالف دھڑوں کو شہ دے کر ایوب خان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو 24 اکتوبر کو ایوب خان کو وزیر اعظم بنا ڈالا۔ لیکن ایوب خان کو برابر اسکندر مرزا کی ”محلاتی سازشوں“ کی اطلاعات ملتی رہیں اور انہوں نے بھی بھانپ لیا کہ اگر آئین نہیں ہے تو پھر صدر کا عہدہ چہ معنی دارد؟

چنانچہ 27 اکتوبر کی رات جنرل برکی، جنرل اعظم اور جنرل خالد شیخ اسکندر مرزا کے گھر پہنچ گئے۔ ملازموں نے بہتیرا کہا کہ صاحب اس وقت آرام کر رہے ہیں، لیکن جرنیل اتنی آسانی سے کہاں ٹلتے ہیں۔ انہوں نے سلیپنگ گاؤن میں ملبوس محو استراحت صدر مملکت کے آرام میں مخل ہو کر ان سے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لے لیے اور کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیں، آپ کو ابھی اسی وقت ایوان صدر سے نکلنا ہو گا۔

اسکندر مرزا نے اپنے منصب کے حوالے سے خود کو ملک و قوم کے لئے ”ناگزیر“ قرار دیتے ہوئے دلائل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن بیگم ناہید ایک بار پھر زیادہ معاملہ فہم ثابت ہوئیں اور انہوں نے صرف اتنا پوچھا۔ ۔ ۔ ”جنرلز! مگر میری بلیوں کا کیا ہو گا؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).