نظریاتی لوگوں کی کایا کلپ کیوں ہو جاتی ہے؟


2004 میں جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات (IR) میں ایک طالب علم کا داخلہ ہوا۔ وہ حافظ قرآن اور مذہبی سوچ کا حامل تھا۔ عموماً جامعات میں طلبہ و طالبات کی دوستی اپنے ہی ہم خیال لوگوں سے ہو جاتی ہے۔ 2004 جنرل مشرف کا دور عروج تھا۔ تب جامعہ بڑی حد تک APMSO اور اسلامی جمعیت طلبہ میں بٹی ہوئی تھی، لیکن طلبہ کی اکثریت طلبہ سیاست سے دور ہی رہتی تھی۔ وہ طالب علم بھی سیاست سے دور رہتا لیکن اپنے سیاسی اور دیگر نظریات کے اظہار میں بڑا جذباتی تھا۔

وہ رفتہ رفتہ ایک حلقے کا حصہ بن گیا جو جامعہ کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ میں بروز ہفتہ ہوا کرتا تھا۔ اس حلقے میں کوئی 20 یا 25 طلبہ و طالبات آتے اور کتابوں پر یا نظریات پر گفتگو ہوتی۔ وہ لڑکا اس پروگرام میں بے حد متحرک تھا۔ میں ایک مرتبہ اس پروگرام میں گیا اور دوبارہ جانا مجھے وقت کا ضیاع معلوم ہوا کیونکہ وہ بڑی حد تک یہ ایک بند ذہن حلقہ تھا۔ حد یہ تھی کہ دبستان روایت کے عظیم مفکرین جیسے محمد حسن عسکری، سلیم احمد وغیرہ کی بھی اس حلقے میں گنجائش نہ تھی۔ جتنے لوگ اس حلقے سے منسلک تھے وہ بے حد جذباتی تھے اور ہر روز تقریریں کر کر کے ان میں اعتماد بھر گیا تھا۔ ایک اور بات یہ تھی کہ وہ افراد بند ذہن تو تھے پر کند ذہن ہرگز نہ تھے اور نہ یہ کہ دنیا کے علوم و فلسفے سے ناواقف تھے۔

خیر وہ لڑکا اپنے حلقے کے نظریات کا بڑا سخت پیروکار رہا۔ حلقہ بڑی حد تک ایک Cult بن گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور رفتہ رفتہ وہ اپنے نظریات میں شدید ہوتا گیا۔ اس نے ماسٹرز بڑے اعلیٰ نمبروں سے کیا۔ اس کے IR کے ایک استاد بھی اس حلقے میں بہت آگے آگے تھے۔ اب کیونکہ حلقہ ایک Cult بن چکا تھا، اس لیے حلقے کے سب لوگ ایک دوسرے کا دیومالائی فری میسنز کی طرح ساتھ دیتے اور مدد کرتے۔ لڑکا جیسے ہی ماسٹرز ہوا، اس کو MS کی اسکالرشپ مل گئی اور وہ اقوام متحدہ کی قائم کردہ جامعہ (جو کوستاریکا میں ہے ) چلا گیا۔ اب وہاں سے آیا تو جامعہ کراچی میں ہی کانٹریکٹ پر پڑھانے لگا۔

اسکالرشپ اور کانفرنسز کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ ایک اسکالرشپ دوسری کو کھینچتی ہے۔ آپ ایک حاصل کرتے ہیں تو وہیں سے دوسری کے راستے کھل جاتے ہیں۔ آپ کے تعلقات بن جاتے ہیں اور تعلقات کے بارے میں ٹالسٹائی کہتا ہے کہ ان کو بھی کرنسی کی طرح استعمال کرنا چاہے۔ زیادہ کرو تو یہ بھی ختم ہو جاتے ہیں بالکل استعمال نہ کرو تو کرنسی بدل جاتی ہے اور تعلقات بیکار ہو جاتے ہیں۔

خیر اب اس لڑکے کے باہر کے چکر لگنا شروع ہوئے۔ اب وہ ان تمام افراد، اداروں، معاشروں، نظریات سے حقیقی طور پر مل رہا تھا جن کو وہ اپنے حلقے میں غلط، شیطانی، برا اور دجالی کہتا رہا تھا۔ اب وہ جرمنی، فرانس، اٹلی، پولینڈ اور لاطینی امریکا بار بار جا رہا تھا اور وہاں کے عام لوگوں سے ہی نہیں بلکہ علمی لوگوں سے مل رہا تھا اور ان کے نظریات کو برت رہا تھا۔

ایک اور بات کا اظہار بھی یہاں پر ضروری ہے کہ کانفرنسیں ہمیشہ ایک ایجنڈے کے ساتھ ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اگر آپ کو مفت میں بلایا جائے۔ اگر کوئی آپ کو بلاتا ہے تو وہ آپ کو کسی خاص قسم کا انسان بنانا چاہتا ہے اور آپ سے کوئی خاص کام آپ کے ملک میں لینا چاہتا ہے۔ خیر وقت گزرتا گیا اور اب یہ معاملات ہیں کہ حلقے کا سابقہ سرگرم رکن اب ایک پکا لبرل بن چکا ہے۔ داڑھی غائب۔ نظریات تبدیل۔

جب بھی میں اس مظہر پر غور کرتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ Ultra Conservative نظریات کیونکہ بڑی حد تک دنیا کو صرف سیاہ و سفید میں بانٹ کر دیکھتے ہیں اور اپنے مخالف کو صریحاً شر سمجھتے ہیں اس لیے جب ان کا سامنا اپنے مخالفین سے اصل میں ہوتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح کے انسان ہیں تو وہ اپنے سابقہ نظریات کے بالکل الٹ رخ پر چلے جاتے ہیں۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ زمانہ طالب علمی میں انسان کے معاشی مفادات نہیں ہوتے۔ وہ صرف خالص نظریاتی بن کر ہر چیز کو دیکھنا چاہتا ہے۔ بعد میں معاشیات انسان کی ایسی مجبوری بن جاتی ہے کہ کمزور انسان کو اپنے نظریات کو پس پشت ڈالنا ہی پڑتا ہے۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ جو افراد اپنی زندگی میں کبھی ایک مشنری قسم کے تبلیغی گروہ سے متاثر ہو کر کسی نظریے یا عقیدے کے حامل بنے ہوتے ہیں، ان کی بڑی تعداد کبھی بھی ان نظریات یا عقائد سے مخلص نہیں ہوتی بلکہ ان کو اس مشنری سے کوئی فوائد ملے ہوتے ہیں (جیسے ہمارے اس دوست کو جامعہ کے اس حلقے سے اعتماد ذات اور اہمیت احساس ملا تھا، اس کے علاوہ اس کو نوکری میں فوائد ملے تھے ) اور اگر ان افراد کو کوئی اس سے بہتر فوائد کہیں اور سے ملنے لگیں تو یہ اس طرف نکل جاتے ہیں۔

کمزور انسان کو اس کے نظریات نہیں، اس کے حالات Define کرتے ہیں۔ بڑی تعداد میں اقتدار میں رہنے والے افراد کا اپنی سیاسی جماعت سے کوئی جذباتی تعلق نہیں ہوتا، وہ بس اس لیے کسی جماعت کا حصہ ہوتے ہیں کہ اقتدار میں رہنا ان کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لئے کسی جماعت میں ہونا ایک مجبوری۔

ویسے بھی آج کل نظریات محض ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بحث کرنے کی حد تک ضروری رہ گئے ہیں۔ یہ کمزور افراد کا معاشرہ ہے۔ نظریات کے ساتھ کمٹمنٹ تو دور کی بات، آج کل تو لوگوں کی اپنی زندگی کے سب سے اہم ترین رشتوں سے ہی کمٹمنٹ محض برائے نام ہے، سلیم احمد نے کہا تھا

کہاں تک ہو گی غم کی پاسداری؟
لہو اپنا بھلا کب تک پئیں گے؟
کیے تھے جب کسی سے عہد و پیماں
یہ اندازہ نہ تھا اتنا جئیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).