قصور واقعی عورت ہی کا تھا


تحریر: اے علوی

واقعہ اتنا دردناک ہے کہ کوئی بھی درد دل رکھنے والا انسان نہ اس سے لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ ہی کچھ بولے یا لکھے بنا اسے سکون آ سکتا ہے۔ یہ بڑی بے حسی کی بات ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی واقعہ ہونے کا انتظار کیا گیا۔ جب واقعہ ہو گیا تو انتظامیہ اس بات کا تعین کرنے لگی کہ واردات کس کے علاقے میں ہوئی ہے؟ لاہور پولیس کا کہنا تھا کہ موٹروے کے جس ٹکڑے پر واردات ہوئی ہے وہ ہماری عملداری میں نہیں آتا، موٹروے پولیس نے بھی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی، پھر سوال اٹھا کہ وہ عورت بھی باقی عوام کی طرح بھاری ٹول ٹیکس دے کر آئی تھی تو سیکیورٹی دینا کس کی ذمہ داری ہے؟

جیسا کہ فزکس کا اصول ہے کہ کوئی بھی بوجھ اٹھانے سے گھسیٹنا آسان ہوتا ہے لہذا ہر کسی نے یہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی بجائے گھسیٹ کر ایک دوسرے پر ڈال دی۔ ایک ادارے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ٹال ٹیکس سیکیورٹی دینے کے لیے نہیں لیتے۔ سوال تو پھر بھی اٹھتا ہے کہ پھر کس لیے یا کس کے لیے لیتے ہیں؟ مجھ جیسے بے گھر انسان نے جب یہ سنا کہ زمین کا یہ ٹکڑا کسی کی ذمہ داری میں نہیں آتا تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے جیسے اور بے گھروں کو ساتھ ملا کر اس حصے پر قبضہ کر کے کم از کم اپنے گھر تو بنا لیے جائیں۔ سوال پھر یہی ہے کہ اگر کوئی اس حصے پر قبضہ کر لے تو کیا انتظامیہ حرکت میں آئے گی؟ اگر ایسی صورت میں حرکت بھی ہو گی اور قبضہ مافیا کو عبرت کا نشان بھی بنایا جائے گا تو یہی ایکشن اس وقت کیوں نہ ہوا جب ایک ممتا کا دامن اس کی اولاد کے سامنے تار تار کیا جا رہا تھا؟

جب واقعہ ہو گیا تو سی سی پی او نے ساری ذمہ داری اس بدنصیب عورت پر ڈال دی۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جس انسان کی تقرری وجہ نزاع بنی ہوئی ہے وہ بھی ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان دے سکتا ہے؟ لیکن نہ صرف انہوں نے ایسا بیان دیا بلکہ اس کا دفاع بھی کیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی وفاقی وزرا بھی اس کی حمایت میں میدان میں کود پڑے۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایک تکلیف دہ رخ ہے کہ ہم حق اور مظلوم کی بجائے پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔

ان حالات میں جلتی پر تیل کا کام وزیراعظم کے اس بیان نے کیا کہ موصوف ایک باصلاحیت افسر ہیں۔ بہرحال آج کے دور میں حق کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہے اور جب وزیراعظم صاحب نے بھی موصوف کے صلاحیت ہونے کا اعلان کر دیا ہے تو میں بھی یہی اعلان کرتا ہوں کہ سی سی پی او کا کہنا بالکل درست ہے اور میرے پاس اس بات کے اور بھی دلائل ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میرا یہ کالم کسی ذمہ دار کی نظر سے گزرا تو مجھے کوئی نہ کوئی عہدہ مل ہی جائے گا کیونکہ میرے پاس عورت کے قصوروار ہونے کے زیادہ قوی دلائل موجود ہیں۔

ذمہ دار واقعی عورت ہی ہے کیونکہ وہ بے احتیاطی جیسے سنگین جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ وہ رات کو گھر سے کیوں نکلی؟ اگر اس کے تعلقات سسرال سے خراب تھے تو وہ کسی اور کے گھر بھی تو رہ سکتی تھی، اس نے پٹرول چیک کیوں نہیں کیا تھا؟ اگر اسے ایمرجنسی تھی تو اس نے اس ایمرجنسی کو آنے ہی کیوں دیا تھا؟ اس نے ڈرائیونگ کیوں سیکھی تھی؟ اگر اس نے ڈرائیونگ نہ سیکھی ہوتی تو نہ وہ گاڑی چلا پاتی اور نہ ہی یہ واردات ہوتی؟

وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر کیوں گئی تھی؟ ماں کا کیا کام کہ وہ بچوں کو دیکھے، جدید دنیا میں یہ کام بے بی سٹر کرتی ہیں۔ اس نے باڈی گارڈ کیوں ہائر نہیں کیے ہوئے تھے؟ پاکستان میں اس قدر سیکورٹی ایجنسیاں کیا جہیز میں رکھنے کے بنائی گئی ہیں؟ اس نے بلٹ کار کیوں خریدی تھی؟ کیا فائدہ فرانس میں رہنے کا اگر بندہ ایک بلٹ پروف کار بھی نہ خرید سکے؟ اگر بلٹ پروف گاڑی نہیں خرید سکتی تھی تو کم از کم کسی اچھی کمپنی کو کہہ کر کار کے شیشے تو سٹیل کے لگوا سکتی تھی؟

وہ موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ سے کیوں نہیں گئی؟ نون لیگ کا بنایا ہوا موٹر وے کس طرح محفوظ ہو سکتا ہے؟ دن کی بجائے رات کو کیوں نکلی؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتایا بھی ہے کہ ہم نے رات آرام کے لیے بنائی ہے، اس نے واردات ہونے سے پہلے فون کیوں کیا؟ کیا اسے علم غیب حاصل تھا کہ کوئی واردات ہونے والی ہے؟ اس نے بیک وقت تین اطراف یعنی موٹر وے پولیس، لاہور پولیس اور اپنے کزن کو کیوں کال کی؟ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ جب دو کشتیوں کا سوار سلامت نہیں رہ سکتا تو تین کشتیوں کا سوار کیونکر محفوظ رہے گا؟

کئی سالوں سے وہ فرانس میں رہ رہی تھی تو کیا اسے اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ کچھ پیسے خرچ کر کے ایک گن یا کم از کم ایک پستول ہی خرید لیتی؟ اس نے پاکستان کو فرانس کیوں سمجھ لیا تھا؟ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ کلمہ اسلام کے نام پر بننے والا ایک نظریاتی ملک ایک کافر ملک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟ آس پاس دو تین گاؤں تھے اگر اس نے ایک بڑا سپیکر خرید کر پاس رکھا ہوتا تو وہ شور مچا کر لوگوں کو اکٹھا کر کے بچ سکتی تھی؟

وہ فرانس ایمبیسی کو بھی تو فون کر سکتی تھی لیکن نہیں کیا؟ میں مانتا ہوں کہ عزت سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہے لیکن کیا اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بد اچھا بدنام برا؟ وہ اس واقعے کو چھپا کر خود کو بھی، پولیس کو بھی اور ملک کو بھی بدنامی سے بچا سکتی تھی؟ آپ ہی بتائیں بھلا ملک کی عزت سے بڑھ کر بھی کوئی شے ہے؟ اسے چاہیے تھا کہ خاوند کے پاکستان آنے تک اپنے سارے کام پینڈنگ کر دیتی اور اس میں حرج ہی کیا ہے؟ آخر پاکستان میں بھی تو قانون پر عملدرآمد کا کام پچھلے تہتر سالوں سے پینڈنگ ہی پڑا ہوا ہے؟ ہیں جی؟ ہاں جی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).