FATF قوانین، شہری آزادیوں کی بحث اور پارلیمانی تماشا


پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منی لانڈرنگ کے بارے میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے کے لئے تین مختلف بل منظور کرلئے۔ یہ تینوں بل اس سے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کی اکثریت پر مشتمل سینیٹ میں مسترد کردیے گئے تھے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی آڑ میں شہریوں کو ہراساں کرنے اور ان کی نگرانی کا طریقہ اختیا رکیا جائے گا۔ تاہم سینیٹ میں ان بلوں کو مسترد کرنے کے باوجود مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے بائیکاٹ کرنے یا شور مچانے کے علاوہ کوئی خاص کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اپوزیشن کی طرف سے سینیٹ میں ان بلوں کو مسترد کرنے کا مقصد بھی کسی خاص ترمیم کو سامنے لانے یا ان قوانین کو متوازن بنانے کی کوشش کی بجائے دراصل حکومت کو ایوان بالا میں اپنی برتری دکھانا مقصود تھا۔ اگست کے آخر میں آج منظور ہونے والے دو بلوں کو سینیٹ میں مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن نے قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے اپوزیشن لیڈروں کے بارے میں نازیبا ریمارکس پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے انکار پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے ان بلوں کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ گویا بلوں کا متن موضوع بحث نہیں تھا بلکہ ایک فرد کا بیان اپوزیشن کی حکمت عملی طے کرنے کا سبب بنا تھا۔ مشترکہ اجلاس سے پہلے سینیٹ نے حکومت کی طرف سے پیش کئے ہوئے تیسرے بل کو بھی بظاہر محض حجت کے طور پر مسترد کیاتھا۔ تاہم حکمران جماعت تحریک انصاف نے مشترکہ اجلاس میں اپنی بالا دستی ثابت کرتے ہوئے ان بلوں کو منظور کروالیا۔

حکومت یوں بھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے اور کسی مفاہمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتیں بھی کسی سیاسی ایجنڈے کی بجائے نعروں اور ذاتی اختلافات کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی کا سبب بنتی ہیں۔ گو کہ اس صورت حال میں اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ ان قوانین کے ذریعے حکومت ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں شہری آزادیوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ تو دوسری طرف حکومت اپوزیشن پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ اس نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بلوں کا راستہ روکنے کی کوشش صرف اس لئے کی ہے کہ وہ حکومت سے کرپشن کے الزامات میں مقدمات کا سامنے کرنے والے اپنے لیڈروں کے لئے ’این آار او‘ حاصل کرسکے۔ اپوزیشن ان سرکاری دعوؤں کو الزام تراشی کہتی رہی ہے لیکن نہ تو حکومت نے یہ الزام لگانے میں احتیاط برتتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن نے بہتر قانون سازی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

اپوزیشن اگر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے سرکاری بلوں میں واقعی ایسے نقائص کو محسوس کررہی تھی تو سینیٹ کی کارروائی کے دوران اس کے پاس یقیناً یہ موقع تھا کہ وہ ضروری ترامیم کو بلوں میں شامل کرکے اسے قومی اسمبلی میں واپس بھیجتی۔ قانون سازی کے عمل میں اگر اپوزیشن پارٹیاں مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرتیں تو حکومت کو بھی شاید پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی بجائے اپوزیشن کی تجویز کردہ معقول تجاویز پر غور کرنا پڑتا۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ پارلیمانی عمل میں حکومت زیادہ تکبر اور ضد کا مظاہرہ کررہی ہے یا اپوزیشن سینیٹ میں اکثریت اور قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم نمائندگی کے باوجود اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنے سے گریز کررہی ہے۔ یوں بھی حکومت تمام اہم اپوزیشن لیڈروں کو بدعنوان قرار دینے پر اصرار کرتی ہے لیکن عدالتوں میں پراسیکیوٹر کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور ثبوت سامنے لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن بھی پارلیمانی ماحول اور حکمرانی کے نظام میں بہتری کی بجائے حکومت سے استعفیٰ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ہی گفتگو کو اپنا شیوہ بنائے ہوئے ہے۔

درون خانہ حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں موجودہ صورت حال قائم رکھنے پر ’متفق‘ ہیں۔ اپوزیشن امید کررہی ہے کہ عمران خان کو ملک کی امید سمجھ کر برسر اقتدار لانے والے حلقے بالآخر اس حکومت کی غلطیوں اور ناکامیوں سے عاجز آجائیں گے اور سابقہ حکمرانوں کی ’گستاخیوں‘ کو معاف کرکے انہیں دوبارہ گلے لگانے یا اقتدار دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ اپوزیشن کا سارا رویہ غالب کے غیرمتداول کلام سے استفادہ کرتے ہوئے یہی کہہ رہا ہے کہ ، مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت… اپوزیشن جماعتوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ فوج موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ملکی حالات سے مجبور ہوکر دوبارہ انتخاب کروانے اور اپوزیشن میں شامل جماعتوں کو ایک اور موقع دینے پر آمادہ ہوجائے گی۔ اس مقصد کے لئے گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران حکومت جانے کے ٹائم فریم کے بارے میں متعدد پیش گوئیاں کی جاچکی ہیں لیکن فی الوقت یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

ملک میں بنیادی حقوق، شہری آزادیوں، اظہار رائے اور میڈیا کی خود مختاری کو محدود کرنے کے حوالے سے جن اداروں سے شکایت کی جاتی ہے اگر ملک کی سیاسی اپوزیشن انہی سے ’رحم و کرم‘ کی امید پر سیاست کرے گی تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ امید بر نہیں آئے گی۔ ادارے عمران خان سے خوش ہیں کیوں کہ معاملات اسی سمت میں جارہے ہیں جدھر وہ لے جانا چاہتے ہیں۔ کشمیر پالیسی ہو، افغانستان کے معاملات ہوں، امریکہ سے تعلقات کی نوعیت کا تعین کرنا ہو یا بھارت کے ساتھ محاذ آرائی کی صورت حال ، تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف عسکری گائیڈ لائن کے مطابق پالیسی پر عمل پیرا ہے بلکہ بیان بازی میں بھی جوش و ہوش کا وہی توازن قائم رکھا جاتا ہے جو مسودہ میں لکھ دیا گیا ہو۔ اپوزیشن عمران خان کو نامزد وزیر اعظم ہونے کا طعنہ تو دیتی ہے لیکن نامزد کرنے والی قوت کے بارے میں حرف شکایت زبان پر لانے کے لئے تیار نہیں۔ عام شہری کو کبھی یہ بات سمجھ نہیں آسکے گی کہ اگر عمران خان کٹھ پتلی حکومت کی سربراہی کررہے ہیں تو اپوزیشن پتلی کی ڈوریاں ہلانے والوں کے بارے میں کیوں مہر بلب ہے۔ یوں بھی اگر حکومت بے اختیار ہے تو رونما ہونے والے معاملات و سانحات کی ذمہ داری بھی فیصلے کرنے والوں پر عائد ہونی چاہئے۔ وہی جواب دہ بھی ٹھہریں گے۔ شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی اپوزیشن سے ایسی توقع عبث ہوگی۔

عمران خان  وزیر اعظم بن کر اپنا مقصد حیات حاصل کرچکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی مقبولیت چند نعروں پر اور ان کا اقتدار ، اختیار نہ مانگنے کے اصول پر استوار ہے۔ وہ یہ دونوں شرائط پوری کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ جن اپوزیشن لیڈروں کو وہ گزشتہ ایک دہائی سے بدعنوانی کا مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں، ان کے ساتھ مفاہمانہ طرز عمل ان کے پاپولر ووٹ کو نگل جائے گا۔ اس لئے دنیا بھر کے دانشور خواہ پاکستان کے موجودہ بحران اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے وسیع سیاسی مفاہمت کے لئے کیسے ہی دلائل دیں ، عمران خان کو اس میں اپنا خسارہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایسی ہر صورت حال سے بچنے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔

کورونا وائرس کے خلاف پالیسی اور اب کراچی کے مسائل کے حوالے سے دو ایسے مواقع دیکھنے میں آئے ہیں کہ عسکری اداروں نے بیچ کا راستہ نکالنے اور کسی نہ کسی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کو ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کورونا کی مہم سمارٹ لاک ڈاؤن کی کامیابی اور دنیا بھر میں ستائش کے نعروں پر ختم ہوئی۔ اور کراچی کے مسائل 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرنے کے ساتھ حل کرلئے گئے۔ اس کے بعد سے سندھ اور مرکزی حکومت اپنے اپنے طور پر یہ بتانے پر مصر ہیں کہ کون فنڈ میں زیادہ حصہ دے گا۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بجٹ میں 3 ہزار ارب روپے کے خسارے سے دوچار حکومت کراچی کے لئے گیارہ سو ارب روپے کہاں سے لائے گی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت اپنے مقررہ ٹارگٹ سے 900 ارب روپے کم محاصل جمع کرسکی تھی۔ ملک کا بجٹ خسارہ 3 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کا شکار معیشت کی بہتری کے لئے کوئی سیاسی پارٹی منصوبہ بندی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ شہری آزادیوں اور جمہوری روایات کی طرح معاشی بحالی کا منصوبہ بھی اسی وقت اہم ہوسکتا ہے جب کسی ایک خاص پارٹی کو اقتدار مل سکے۔ پھر دوسروں کو اس میں کیڑے دکھائی دینے لگیں گے۔

اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں شہری آزادیوں پر حملہ قرار دیا تھا۔ ملک میں صحافی اٹھا لئے جاتے ہیں یا ان کے خلاف غداری کے مقدمے قائم ہوتے ہیں۔ ایک میڈیا ہاؤس کا مالک 6 ماہ سے زائد عرصہ سے قید میں ہے لیکن اپوزیشن بنیادی حقوق پر ان حملوں کے بارے میں مذمت سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ جس ملک میں کسی قانونی اختیار کے بغیر شہری اٹھا لئے جائیں، ماورائے قانون قتل معمول بن چکا ہو ، آزادیوں کو ریاستی مفادات کے نام پر سلب کیا جاچکا ہو اور ناپسندیدہ خبروں، تبصروں اور کتابوں کو سنسر کرنے کی ریت ہو ، وہاں ایف اے ٹی ایف کے نام سے بننے والے چند قوانین سے ملک کے عام شہریوں کو کیا فرق پڑے گا۔

 قانون کی بالادستی قائم کئے بغیر کسی قانون کی باریکیوں پر گفتگو بے محل اور بے مقصد کاوش کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو اس وقت قانون کا احترام سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک طاقت ور قانون سے بالا اور کمزور اس کے نشانے پر رہے گا، کوئی قانون بننے یا نہ بننے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali