اسرائیل کو تسلیم کرنے میں پاکستان کا فائدہ ہے


ایک تھا مشرقی پاکستان، وہ ہمارا تھا۔ پھر اس نے نام بدل لیا اور ہمارا بھی نہ رہا۔ وہ جدا کیوں ہوا؟ یہ کہانی بہت بار دہرائی جا چکی ہے۔ ہم اپنے جانی دشمن بھارت کو الزام دیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ جو ہمارے تھے، ہم سے خفا تھے ان کے دل ٹوٹ چکے تھے۔ بھارت سے مدد لے کر انہوں نے خود کو ہم سے الگ کر دیا۔ اپنا نام تک بدل لیا۔ بنگلا دیش۔ اور پھر ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے آنکھیں چرائیں اور کہا ” بنگلا دیش نا منظور”۔ انہیں ہماری منظوری کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ وہ ایک حقیقت بن چکے تھے۔ پاکستان کی دیواروں پر جا بجا بنگلا دیش نا منظور لکھا نظر آتا تھا۔ ہم خوش فہمی میں رہے کہ ایک دن وہ پھر ہم سے گلے مل جائیںگے۔ اور ہم بڑے بھائی بن کر اپنے چھوٹے بھائی کے گال پر ہلکی سی چپت لگا کر کہیں گے” شریر کہیں کے، آخر عقل ٹھکانہ آ گئی نا۔ اب ایسا نہ کرنا اور نہ ایسا سوچنا” اور چھوٹا بھائی سر جھکا دے گا۔ لیکن چھوٹے بھائی نے کہا سگ باش برادر خورد مباش۔ ہم نے اس نئے ملک کی پیدائش کو سقوط ڈھاکا کہا۔

بنگلہ دیش سونار دیش بھی بنتا جا رہا تھا۔ 1971 میں پیدا ہونے والے اس ملک کو بالآخر فروری 1974 میں ہمیں ماننا ہی پڑا کہ بنگلہ دیش سچ مچ بن چکا ہے۔ بھٹو صاحب نے ہمیشہ کی طرح ایک جذباتی تقریر کی اور بھرائی ہوئی آواز میں اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ میں آج بنگلا دیش کی حقیقت کو قبول کرتا ہوں۔

ہم پھر بھی کچھ کچھ اس خوش فہمی میں رہے کہ چھوٹے بھائی کو جلد ہی ہماری ضرورت پڑ جائے گی وہ بھلا کہاں اکیلا ہمارے بنا رہ سکے گا۔ لیکن وہ تو کھڑا رہا پیر جما کر۔ ایک فوجی بغاوت کے دوران مجیب الرحمان، ان کی بیوی اور بیٹے جب بے دردی سے قتل ہوئے تو ہم نے کہا دیکھا اب بنگالی پچھتا رہے ہیں۔ لیکن ان کے بعد دو عورتوں نے باری باری ملک چلایا۔ شیخ حسینہ اور خالدہ واجد آپس میں لڑ لڑ مر رہی تھیں لیکن پاکستان کے سامنے سینہ تانے کھڑی رہیں اور وہ وہ سنائیں کہ ہم ششدر رہ گئے۔ کتنی ہی بار معافی مانگ چکے ہیں۔ لیکن ان کے دل صاف نہیں ہوئے۔

پاکستان میں کئی بنگالی فنکار تھے اور ہم انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے اور کہتے کہ دیکھا یہ فنکار ہمارے ساتھ ہیں۔ شبنم، رونا لیلی اور شہناز بیگم کو خوب پروموٹ کیا۔ شہناز بیگم قومی نغمے سوہنی دھتی اور جیوے پاکستان گاتی رہیں۔ اور ایک دن اپنے نئے دیس روانہ ہو گیں۔۔ ہمیں رونا لیلی پر پورا اعتماد تھا کہ وہ کہیں نہیں جائیں گی۔ لیکن وہ بھی سدھار گیں۔ شبنم کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد وہ کیسے رہ سکتی تھیں۔

ایک ہمارے پائلٹ تھے۔ ایم ایم عالم۔ 65 کی جنگ کے ہیرو۔ بنگالی تھے۔ القابات ہم نے انہیں بہت دیئے۔ فالکن اور لٹل ڈریگن۔ تمغے بھی ملے۔ لیکن وہ بھی خوش نہیں تھے اور آخری عمر میں تو بہت تلخ بھی ہو گئے تھے۔ ان کی پاکستان سے وفا کی ہم نے قدر یوں کی ان کی باتوں کی خفیہ ریکارڈنگ کی اور حاکم وقت کو پہنچائیں۔ ضیا الحق نے فوری طور پر ملازمت سے سبکدوش کر دیا۔

ایک اور ملک ہے آرمینیا۔ نام تو سنا ہوگا۔ سویت یونین کی جو ریاستیں آزاد ہویں ان میں ایک آرمینیا بھی ہے۔ یہ بھی ہمیں نامنظور ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ آرمینیا اقوام متحدہ کا رکن بھی ہے۔ قبول نہ کرنے کی وجوہات انتہائی پیچیدہ اور سمجھ نا آنے والی ہیں۔ آرمینیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار تو کیا، کافی ناخوشگوار ہیں۔ اس کی وجہ آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار اور برادرانہ تعلقات ہیں، آرمینیا، آذربائیجان کی حدود کے اندر نگورنو کاراباخ یعنی ارتساخ جمہوریہ، (جو نسلی آرمینی لوگ ہیں) کی حمایت کرتا ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر اسے آذربائیجان کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ آرمینیا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ قریب قریب ایک صدی پہلے سلطنت عثمانیہ کے دور میں لگ بھگ دس لاکھ آرمینیائی افراد کی نسل کشی کی گئی۔ اس کے بعد سے ترکوں اور آرمینیوں کے تعلقات تلخ ہی رہے۔ آرمینیا الگ ریاست بنا تو اس کا مطالبہ تھا کہ ترکی اس نسل کشی کا اعتراف کرے اور معذرت کرے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ترکی اس بات سے انکاری ہے کہ ایسی نسل کشی ہوئی۔ اس نے آرمینیا کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر قبول تو کر لیا لیکن سفارتی تعلقات استوار نہیں کئے۔ بالکل یہی آزربائیجان نے بھی کیا۔

اب یہاں ہم کہاں ہیں؟ ہم ترکی بھائیوں کا ساتھ دینے میں ان سے بھی آگے نکل گئے۔ ہم نے کہا کوئی نسل کشی نہیں ہوئی۔ یہ صرف افسانہ ہے۔ اور وفاداری کی انتہا کرتے ہوئے مدعی سے بھی چست ہوگئے۔ آرمینیا کو آزاد ریست تسلیم ہی نہیں کیا۔ سفارتی تعلقات تو بعد کی بات تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جو آرمینیا کو نہیں مانتا۔

اب آتے ہیں اسرائیل کی جانب۔ دنیا میں پاکستان اور اسرائیل، دو ہی ملک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ اور قریب قریب ایک ہی وقت آزاد ریاست بنے۔ ہماری نہ سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ہی ہماری آپس میں کوئی جنگ ہوئی ہے۔ سنا ہے کہ مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیلی وزیر آعظم بن گوریان نے محمد علی جناح کو خیرسگالی کا پیغام بھیجا اور آپس میں سفارتی تعلقات کی پیشکش بھی کی۔ جناح صاحب کا کیا جواب تھا، یہ معلوم نہ ہو سکا۔ یقینی طور پر انہوں نے یہ فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا ہوگا۔ کوئی باہمی تنازع نہ ہوتے ہوئے بھی تعلقات بن نہ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں عربوں سے شدید قسم کی محبت ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں یہ محبت پنپنے لگی۔ اور بعد میں آنے والے ادوار میں یہ عشق کے درجے پر پہنچ گئی۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے کھل کر عربوں کا ساتھ دیا اور مدد بھی کی۔

 سنا ہے پس پردہ اسرائیل کافی کچھ پاکستان کے لئے کرتا رہا ہے۔ افغانستان میں روسیوں کے ساتھ جنگ میں بھی مجاہدین کی مدد کی۔ موساد نے پاکستانی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون بھی کیا اور مدد بھی کی۔ لیکن ہم اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں جا سکتے ہیں لیکن اسرائیل جانے کی اجازت نہیں۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں کوششیں کیں کہ اسرائیل سے تعلقات بہتر ہو جائیں۔ امریکہ اور ترکی نے بھی اس کی تائید کی۔ ڈرتے ورتے وہ کسی سے نہیں تھے لیکن پھر بھی دبک گئے۔ ایک یہ خیال بھی تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے افغان جنگ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ ترکی، مصر اور اردن تو کب کے اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔

پھر کچھ ایسا چمتکار ہوا کہ ایک کے بعد دوسرے عرب ملک نے اسرائیل کو نا صرف تسلیم کیا بلکہ بہترین تعلقات کا عندیہ بھی دیا۔ اس میں ڈونلڈ کے داماد کی ذاتی کوششیں تھیں اور وہ خوب رنگ لائیں۔ معاہدہ ہو گیا۔ بنیاد تو اس کی یوروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت بنا کر رکھ دی گئی تھی۔ اس وقت بھی کسی نے چوں نہ کی۔

اور اب ہم نے یہ روح پرور منظر دیکھا جہاں امریکہ، یو اے ای، بحرین اور اسرائیل کے پرچم لہرا رہے تھے۔ ہنستے مسکراتے مطمین چہرے بتا رہے تھے کہ اب دشمنی کے دن تمام ہوئے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے معاہدوں کو ’نئے مشرق وسطی کا آغاز‘ کہہ کر خوش آمدید کیا اور امید ظاہر کی کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے۔ اس معاہدے سے عرب امارت کو بہت فائدے مل سکتے ہیں۔ امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو جدید ہتھیار فروخت کرنے کا وعدہ کیا۔ ان میں ایف 35 سٹیلتھ لڑاکا طیارہ اور ای اے 18 جی برقی جنگی طیارہ شامل ہیں۔ اور اب وہ لیبیا اور یمن میں نئے جوش و ولولے سے جنگ جاری رکھ سکیں گے بلکہ ایران کو بھی آنکھیں دکھا سکیں گے۔ بحرین ایران کا دوست رہا ہے لیکن اب ایران کی بے جا مداخلت سے پریشان ہے۔ سعودی عرب مسلمانوں کے دو بڑے مقدس مقامات کے نگران ہونے کی حیثیت سے اپنا مقام رکھتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا اور ان کے جھنڈے میں کلمہ نہ ہوتا تو شاید وہ بھی اسرائیل کو منظور اور قبول کر چکا ہوتا۔ یہود و نصاریٰ کو اس کلمے کے معنی پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوتا۔

اب رہ گئے ہم۔۔۔ یوں تو ہم کسی گنتی میں نہیں۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ لیکن ہمیں شوق بہت ہے خود کو شمار کروانے کا۔ جن کی جنگیں ہم لڑتے رہے وہ امن معاہدے کر رہے ہیں اور ہم نا منظور کا گھسا ہوا ریکارڈ ایک بار پھر بجا رہے ہیں۔ ہم نہ عرب ہیں نہ عجم۔ نا مشرق وسطی میں ہیں مشرق بعید میں۔ تانے ہمارے ملتے ہیں گندھارا اور موہن جوداڑو کی تہذیب سے لیکن رشتہ کہیں اور ہی جوڑتے ہیں۔ ہمیں سنی، شیعہ، وہابی کے جھگڑوں میں الجھا کر وہ لوگ یہود اور ہنود سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے میں پاکستان کا فائدہ ہے۔ یہ بات تو مانی ہوئی ہے کہ یہودی ایک بہت ذہین قوم ہے۔ آپ کہیں گے کہ چالاک ہیں۔ چلیے مان لیا۔ اب تک 900 نوبل انعامات تقسیم کیے گئے ہیں۔ ان میں 20 فیصد یہودی ہیں۔ جن کی آبادی دنیا میں 0.2 فیصد ہے۔ یہ ہر شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ کس شعبے میں یہ آگے نہیں؟ تجارت، بینکنگ، طب، جراحی، سائنس، زراعت، آب پاشی۔ ہر جگہ ان کے جھنڈے ہیں۔۔ اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن انہوں نے صحیح ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل، سیاسی عزم اور قومی یکجہتی کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا 40 فیصد حصے کو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لی اور صحرا کو باغبان کر دیا۔ ہم ان سے یہ ٹیکنیک سیکھ سکتے تھے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ایک نزاعی نکتہ مسئلہ کشمیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان فلسطین کے معاملہ پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے تو کشمیر پراس کا موقف کمزور پڑجاتا ہے۔ ہم انڈیا کو تو تسلیم کرتے ہیں نا؟ اس سے کشمیر پر ہمارا موقف تو نہیں بدلا۔ یہ الگ بات کہ ہم کشمیریوں کے لئے کچھ کر ہی نہ سکے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ان سے اچھے تعلقات رکھنے سے وہاں آنا جانا ہو گا۔ یہ عرب ممالک فلسطین بھی جا سکیں گے۔ اور ہو سکتا ہے ان کی حالت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھا سکیں۔ اسرائیل کے لیے اب فلسطینیوں پر ظلم کرنا آسان نہ ہوگا۔ پاکستان بھی اسرائیل کے لیئے اہم ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تعلقات ہوں۔

جو ممالک وجود میں آ گئے ہیں وہ حقیقت ہیں۔ ہمارے ماننے نہ ماننے سے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ اس مسئلے پر بحث ہونی چاہیئے۔ پارلیمان میں اور پارلیمان کے باہر بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).