”پوسٹ آفس کے بغیر ملک“


”پوسٹ آفس کے بغیر ملک“ نامی شعری مجموعے کا شمار ہمارے وقت کی اہم ترین شعری تخلیقات میں ہوتا ہے۔ یہ انگریزی زبان کے ایک اہم ترین کشمیری امریکن شاعر آغا شا ہد علی کی شاعری کا تیسرا مجموعہ ہے۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح اس میں بھی جلاوطنی، تڑپ اور وطن کو کھو دینے سے متعلق نظمیں ہیں۔ یہ مجموعہ مجھے ایک دعوت نامہ دیکھ کر یاد آیا، جو ایک تقریب کے سلسلے میں ہے۔ یہ تقریب شاہد علی کی یاد میں اگلے ہفتے ٹورانٹو میں ہو رہی ہے، جس میں ہمارے دور کے اس بڑے شاعر کے فن و شخصیت کے بارے میں گفتگو ہو گی۔

اس مشہور شعری مجموعے کی کچھ نظموں میں ڈبلیو بی یٹیٹس، ایملی ڈکسن اور جیراڈ مینلی ہاپکنز جیسے انگریزی کے مقبول و مشہور شاعروں کے ایپی گراف ہیں۔ کتاب کے متعدد حصوں کا انتساب علی نے اپنے دوستوں کے نام کیا ہے۔ جیسا کہ تعارف و دیباچہ ان کے بچپن کے دوست عرفان حسن کے لیے وقف ہے۔ اور یہ پورا مجموعہ خود ان کی والدہ اور امریکی شاعر جیمز میرل کے لیے وقف ہے۔ تعارف میں روسی شاعر اوسیپ مینڈیلسٹم کی ایک سطر کو بطور ایپی گراف استعمال کیا گیا ہے، جس میں کشمیر ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔

علی کے لیے ”گھر“ سے مراد بڑی حد تک ایک ”خیالی وطن“ ہے جس میں جلاوطنی کے احساسات موجود ہیں۔ اس مجموعے میں جلاوطنی، مابعد نوآبادیات، اور ابلاغ جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں ناروے کے ایک نظم ہے، جسے 1995 میں کشمیر میں عسکریت پسندوں نے پکڑ لیا تھا۔ ڈینیل ہال نے اس نظم کو ”شاہد کی سیاسی نظموں میں سب سے زیادہ پرجوش“ قرار دیا ہے۔ مجموعے کی ایک اور نظم ”میں آدھی رات کو نئی دہلی سے کشمیر دیکھ رہا ہوں“ میں، علی نے کشمیر میں تشدد کا تصور کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ ”میرے والد کو مت بتانا کہ میں مر گیا ہوں“ ، کشمیر میں نوجوانوں کی گمشدگیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ایک نظم مولوی عبدالحئی کے لیے وقف ہے، جن کا بیٹا رضوان 1990 کی دہائی میں سرحد پار کر گیا تھا اور واپسی پر راستے میں مارا گیا تھا، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بغیر دفن ہوئے مر گیا تھا۔ نظم ”اے ہسٹری آف پیسلے“ ، کشمیر میں تشدد کے ساتھ شیو اور پاروتی کی کہانی کو جوڑتی ہے۔ نظم ”الوداعی“ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کشمیری پنڈتوں کو 1990 کی دہائی میں تشدد کے دوران بھاگنا پڑا۔ اس نظم کا تعارف ”وہ ویران کرتے ہیں اور اسے امن کہتے ہیں“ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس کے ذریعے علی نے اشارہ کیا ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی، ہندو اور مسلمان دونوں اسیر ہو چکے ہیں۔

تاہم، پورے مجموعہ میں، علی پنڈتوں کی واپسی اور امن کی واپسی کے لیے پرامید ہے۔ اس مجموعے میں ایک خط بھی ہے، جس میں دنیا کو ایک ایسے خطے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے، جہاں سے کوئی خبر نہیں ملتی، اور جہاں پر تشدد اور موت عام ہے اور ”ہر کوئی اپنا پتہ اپنی جیب میں رکھتا ہے تاکہ کم از کم اس کی لاش گھر پہنچ جائے۔“ ۔ خطوط اور ڈاک خانوں کے استعاروں کے ذریعے علی کشمیر میں ہونے والے المیے کی گواہی بھی دیتا ہے، اسی وقت اسے دنیا کے سامنے بیان کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ امن لوٹ آئے۔

مجموعے کی شہکار نظم ”ملک بغیر ڈاک خانے کے“ ، اصل میں پہلی بار گراہم ہاؤس ریویو میں ”کشمیر بغیر پوسٹ آفس“ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ علی نے اس پر نظر ثانی کی ہے۔ یہ نظم کشمیر میں مسلح بغاوت کے پس منظر میں لکھی گئی تھی، جو 1990 میں عروج پر تھی۔ ریاستی مشینری مکمل طور پر خراب ہو چکی تھی، جس کے نتیجے میں خطے میں پوسٹل سروسز کو سات ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا تھا۔ فوج نے کچھ ڈاک خانوں کو بنکروں میں تبدیل کر دیا تھا۔

نظم میں، شاہد نے ”برباد پتوں کی سرزمین“ کے بارے میں لکھا ہے، اور ان خطوط اور پیکجوں کا حوالہ دیا جن کے ڈھیر ڈاک خانوں میں پڑے تھے۔ اور ڈیلیور نہیں ہوئے۔ وہ تنازع کے دوران مزید پریشان کن تجربات کے بارے میں بات کرتا ہے۔ نظم چار حصوں میں لکھی گئی ہے، پہلا حصہ کشمیر واپس آنے والے راوی کے تاثرات پر مشتمل ہے۔ دوسرا بند خطے میں تشدد کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ایسے لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے، جو کوشش کے باوجود ایک دوسرے سے بات کرنے سے قاصر ہیں۔

پوسٹل اسٹامپ پر کسی قوم کا ذکر نہیں ہے، کیونکہ یہ خطہ متنازعہ ہے۔ تیسرے حصے میں راوی موذن کا کردار ادا کرتا ہے، لیکن وہ لوگوں کو نماز کے بجائے ڈاک ٹکٹ خریدنے کے لیے بلاتا ہے۔ چوتھے اور آخری حصے میں راوی ان خطوط کو پڑھتا ہے، جو جمع ہو چکے ہیں۔ دھیرے دھیرے راوی پاگل پن میں اترتا ہے، اس کا اختتام اس خیال پر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنا پسند کرے گا۔ یہ نظم علی نے اپنے بچپن کے دوست عرفان حسن کی طرف سے موصول ہونے والے خط سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ خط میں سری نگر کے جواہر نگر میں ایک واقعہ بیان کیا گیا، جہاں عرفان حسن نے ایک پوسٹ آفس میں خطوط کا ڈھیر دیکھا۔ ان میں سے بہت سے خط اپنے اور علی کے والد کے نام لکھے ہوئے تھے، جنہیں علی نے بھیجا تھا۔ عرفان نے خاندان کے ذریعے علی کو ایک خط بھیجا، جس میں انہیں اس بارے میں بتایا گیا۔

اس نظم نے علی کو گوگن ہائیم فیلوشپ اور ہمارے وقت کے انگریزی کے ایک اہم ترین شاعر کے طور پر شناخت دی۔ امریکی مصنف ہیڈن کیروتھ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، ”علی کشمیر کے لیے ایک بڑی، فیاض، ہمدرد، طاقتور اور فوری آواز میں بولتے ہیں۔ اس ملک میں بہت کم شاعروں کے پاس ایسی آواز یا اس طرح کا موضوع ہے“ ۔ ایڈورڈ سعید نے لکھا کہ ”یہ وہ شاعری ہے جس کی اپیل آفاقی ہے“ جان ایشبیری نے شاہد کو ”امریکہ کے بہترین نوجوان شاعروں میں سے ایک“ کہا۔

امریکی مصنف جوزف ڈوناہو نے لکھا: ”شاعر اپنے وطن کی تباہی کا تصور کرتا ہے، ذاتی کے دائرے سے ایک وسیع شاعری کی طرف بڑھتا ہے جو سیاسی تشدد اور المیے کے درمیان احساس کی سالمیت کو برقرار رکھتا ہے۔ پوسٹ آفس کے بغیر ملک نامی نظم کا کئی ثقافتی اور سیاسی شخصیات نے حوالہ دیا ہے۔ نظم کو تنقیدی اور عالمی سطح پر سراہا جانے سے، کشمیر کے بارے میں لکھی جانے والی سب سے مشہور نظموں میں سے ایک بننے تک، یہ ایک ایسی نظم تھی جو زمین اور خطے کے لوگوں سے جڑی ہوئی تھی، جس میں کشمیر کے درد کو بیان کیا گیا تھا۔

علی کی اس نظم نے کشمیری ادیبوں اور مصنفین کو متاثر کیا۔ کشمیری ناول نگار مرزا وحید نے لکھا،“ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے، اس وحشت کے درمیان، یہ شاہد ہی تھا جس نے اندھیرے پر روشنی ڈالی۔ دو ہزار سولہ میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایک ثقافتی شام کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے کنہیا کمار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا تھا، اس تقریب کے لیے کیمپس میں اس نظم کے نام کے پوسٹر چسپاں کیے گئے تھے۔

دو ہزار انیس کے واقعے پر بوسٹن ریویو نے لکھا تھا: ”کشمیر ایک بار پھر بغیر پوسٹ آفس کے ملک میں تبدیل ہو گیا ہے“ ۔ اس طرح اس نظام نے مشہور انگریزی شاعروں اور ادیبوں سے لے کر کشمیر کے عام آدمی تک یکساں رسائی حاصل کی اور ان کے دلوں کو چھوا۔ اس شعری مجموعے کے علاوہ فیض احمد فیض کی شاعری کا انگریزی ترجمہ بھی شاہد علی کا عظیم کارنامہ ہے، جو ان کو اس دور کی ایم ادبی شخصیات کی صف میں شامل کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments