نریندر مودی کے انٹرویوز: کیا انڈین وزیرِ اعظم اپنی بات کہنے اور سخت سوالات کے جواب دینے کے ماہر ہیں؟


نریندر مودی

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گزشتہ چھ برسوں کے دوران انھوں نے ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا جس پر ان کے ناقدین انھیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا انٹرویو کرنے والے زیادہ تر اینکرز کم از کم ایک نکتے پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ نریندر مودی اپنی بات کہنے کے ماہر ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا وہ ہر طرح کے سخت سوالوں کے جواب باخوبی دیتے ہیں؟ یا کیا وہ صرف وہی کہتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں؟

نریندر مودی 70 برس کے ہو چکے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ان کے نشر ہونے والے انٹرویوز کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی ہے۔ اُن کے کچھ حالیہ انٹرویوز پر یہ تنقید ہوئی ہے کہ ان میں اینکرز کی جانب سے زیادہ سخت سوالات نہیں پوچھے گئے تھے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گذشتہ چھ برسوں کے دوران انھوں نے ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا جس پر ان کے ناقدین انھیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نریندر مودی کی ’من کی بات‘ لوگوں کو کیوں نہ بھائی؟

مودی نے سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین کو ڈرا دیا

مودی: اقتدار کا دوسرا دور گذشتہ پانچ برسوں سے کیسے جدا ہے؟

لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ان چند سینیئر صحافیوں سے بات کرتے ہیں جنھیں وزیرِ اعظم نریندر مودی کا انٹرویو کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ ہم نے اُن سے نریندر مودی سے انٹرویو کے دوران پیش آنے والے یادگار لمحات کے بارے میں پوچھا۔

سمیتا پرکاش: اے این آئی نیوز ایجنسی

میں نے نریندر مودی کے دو انٹرویو کیے ہیں، ایک سنہ 2014 میں جب وہ گجرات کے وزیرِاعلی تھے اور دوسرا جنوری 2019 میں لوک سبھا کے انتخابات سے پانچ ماہ قبل۔

میں یہ کہوں گی کہ پہلا والا انٹرویو ایک اچھا انٹرویو تھا۔ سنہ 2014 سے کئی سال پہلے میں گجرات جا چکی تھی اور اُن کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی لیکن اس کا موقع نہیں ملا سکا تھا۔ لہذا سنہ 2014 میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو گا۔ میں نے یہ بھی سُنا ہوا تھا کہ انھیں صحافیوں کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔

مجھے وہ ایک خوشگوار طبعیت رکھنے والے ذہین شخص دکھائی دیے۔ انھوں نے مجھ سے سوالوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا یعنی دوران انٹرویو یہ پوچھو اور یہ نہ پوچھو۔ میں اس وقت سنگاپور کے ایک چینل ’نیور ایشیا‘ کے لیے بھی کام کر رہی تھی اور مجھے ان (مودی) کے کچھ ساونڈ بائٹس بھی چاہیییں تھے۔

مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ نریندر مودی کو خارجہ پالیسی کے بارے میں کافی کچھ معلوم تھا۔ ان کے وزیرِاعظم بننے سے پہلے اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ خارجہ امور کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ انھوں نے سنگاپور کے ناظرین کو ذہن میں رکھ کر بات کی، اسی وجہ سے اُن کے اس انٹرویو کو سنگاپور میں بغور سُنا گیا۔

میرے لیے انٹرویو کا مطلب ریٹنگ بڑھانا نہیں ہے۔ انٹرویو ایسا ہونا چاہیے جو سب کے لیے دلچسپی کا باعث بنے۔

میرا انٹرویو کرن تھاپر کی طرح کا نہیں ہونا تھا۔ ایک ایجنسی کے لیے انٹرویو کرنے کی وجہ سے مجھے طویل جوابات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایجنسی کے صارف میڈیا ادارے اسے اپنے حساب سے کاٹ سکیں اور ایڈٹ کر سکیں۔

آپ نریندر مودی سے اگر کوئی مشکل سوال کرنا چاہیں تو کر لیں، وہ اس کا جواب دے دیں گے، لیکن جیسا جواب وہ دینا چاہیں گے بس ویسا ہی دیں گے۔

انٹرویو سے پہلے اور بعد میں نریندر مودی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ وہ انٹرویو کے دوران پانی پیتے رہتے ہیں۔ ایک طویل انٹرویو کے بعد بھی اُن میں تھکن کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

وہ آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے مجھ سے یہ بات دو تین مرتبہ کیوں پوچھی۔ انٹرویو کے ختم ہونے کے بعد وہ بس اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

سنہ 2014 کے انٹرویو کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ انٹرویو تمام چینلوں پر ایک ساتھ نشر ہو گا۔

وجے تریویدی: ستیا ہندی

اپریل 2009 میں مجھے نریندر مودی کی کال آئی۔ انھوں نے مجھے احمد آباد بلایا۔ اُس وقت گذشتہ 20 برس سے نریندر مودی کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ جب دلی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے تو میں نے ان کے کئی انٹرویو کیے تھے۔ وہ ہر دیوالی پر مجھے فون کرتے تھے۔ وہ بہت اچھے میزبان تھے۔ وہ بہت خیال رکھتے تھے۔

اس روز ہم علی الصبح احمد آباد سے ایک چھوٹے سے ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے۔ اس ہیلی کاپٹر میں چار افراد کی گنجائش تھی لیکن ہم پانچ اس میں سوار تھے۔

اس زمانے میں نریندر مودی کا انٹرویو کرنا ایک دلچسپ کام ہوا کرتا تھا۔ وہ اپنے خیالات کو جم کر اور صاف صاف بیان کرتے تھے۔ اکثر رہنماؤں کے برعکس وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بات کرتے تھے۔

سنہ 2008 میں اسی طرح انھوں نے واضح طور پر کہا ایڈوانی کو وزیراعظم کا امیدوار ہونا چاہیے حالانکہ ان کی جماعت میں اکثر لوگ اس بارے میں کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔

ہم امریلی کی جانب محوِ پرواز تھے۔ مودی جی نے کہا ’یہ 45 منٹ کا سفر ہے اور اس کے بعد مزید 30 منٹ کا ایک سفر ہے، تم جب چاہو انٹرویو کر سکتے ہو۔‘

میں نے انٹرویو شروع کر دیا اور اس دوران نریندر مودی سے یہ پوچھا کہ کیا وہ سنہ 2002 کے فسادات کی ذمہ داری قبول کریں گے اور تشدد پر معافی مانگیں گے۔

نریندر مودی نے الٹا مجھ ہی سے سوال کر ڈالا ’کیا تم میں یہ ہمت ہے کہ تم سونیا گاندھی سے پوچھو کہ وہ سنہ 1984 کے فسادات پر معافی مانگیں گی۔‘ میں نے کہا کہ جب میں ان سے انٹرویو کروں گا تو یہ سوال پوچھوں گا۔

میں نے یہ سوال دوبارہ پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ جو کہنا چاہتے تھے وہ کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ خاموش رہے اور کیمرے کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

انھوں نے مجھے نظر انداز کر دیا اور کسی فائل پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ شور مچاتے ہوئے اس ہیلی کاپٹر میں مکمل خاموشی رہی۔

جب ہم ہیلی کاپٹر سے باہر آئے تو مودی جی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’شاید یہ ہماری آخری گفتگو تھی۔‘ جب میں پہلی ریلی کی رپورٹنگ کر کے واپس آیا تو وہ ہیلی کاپٹر مجھے لیے بغیر واپس جا چکا تھا۔ ان کے مقامی اسسٹنٹ نے بتایا کہ مودی جی نے میری واپسی کے لیے ایک گاڑی کا انتظام کیا ہے۔ میں نے انکار کر دیا اور اس کے بجائے ایک ٹریکٹر سے لفٹ لے کر واپسی کا سفر کیا۔

نریندر مودی نے اس انٹرویو کو نشر ہونے سے روکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ ہم نے وہ مکمل انٹرویو چلایا۔ میرے ایڈیٹر نے اس انٹرویو کا ایک پرومو بنایا ’انٹرویو کا مطلب ہے خاموشی۔‘ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنا مشہور انٹرویو بن جائے گا۔

اس انٹرویو کے بعد سے آج تک نریندر مودی نے مجھ سے کبھی بات نہیں کی۔ میں نے ان کی مصروفیات کی کوریج کی، ان کے امریکہ دورے پر ساتھ گیا، انھوں نے بس ایک مرتبہ مجھ سے حال پوچھا جب ایک تقریب میں ہمارا آمنا سامنا ہو گیا۔

آج مجھے نریندر مودی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ کبھی بھی نہیں تھا۔ آج بھی اگر میں سڑک پر ان سے ملوں گا تو میں وہی کروں گا یعنی اُن سے سوال پوچھوں گا۔

راجدیپ سرڈسائی

راجدیپ سرڈسائی نے این ڈی ٹی وی اور سی این این – آئی بی این کے لیے نریندر مودی کا انٹرویو کیا تھا، اب وہ انڈیا ٹوڈے میں کنسلٹنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

نریندر مودی جب گجرات کے وزیرِاعلی تھے تو میں نے کئی مرتبہ ان کا انٹرویو کیا تھا۔ لیکن سب سے یادگار انٹرویو ستمبر 2012 میں ہوا جب انھوں نے مجھے اپنی بس میں بالکل پیچھے بٹھا دیا۔ ایسا لگا کہ انھیں صحافیوں سے کچھ خوف تھا اور وہ محتاط ہو گئے تھے۔ آکار پٹیل نے اس انٹرویو کو بہترین صحافت قرار دیا تھا۔

ان سے میرا پہلا انٹرویو سنہ 1990 میں رتھ یاترا کے دوران تھا۔ انھوں نے ایک بے داغ سفید کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ یہ نیوز ٹی وی چینلوں سے پہلے کا زمانہ تھا۔ مودی ایک مضبوط اور موثر گفتگو کرنے والی شخصیت نظر آئے۔

سنہ 2001 میں نائن الیون کے حملوں سے تین چار روز بعد ہم دہشتگردی کے بارے میں ایک پروگرام ریکارڈ کر رہے تھے اور پرمود مہاجن نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا کیونکہ وہ حکومت میں تھے۔ میں شاستری بھون میں نریندر مودی سے ملا اور وہ اس مباحثے میں شرکت کے لیے فوراً تیار ہو گئے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ میں نے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔

اس زمانے میں نریندر بھائی ہر وقت ملنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا۔ وہ کبھی بھی انٹرویو سے پہلے سوالوں کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے۔ اب ان کے اکثر انٹرویو پبلک رلیشنگ لگتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان سے انٹرویو کرنا بڑی خوشی کی بات ہوتی تھی۔

سنہ 2002 کے فسادات کے دوران جب نریندر مودی گجرات کے وزیرِاعلی تھے تو میں نے ان سے ایک انٹرویو کیا اور آفس آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا انٹرویو کے دوران ٹیپ پھنس گئی تھی۔ ہمیں اسی روز رات 11 بجے ان سے دوبارہ انٹرویو کرنا پڑا۔ انھوں نے ان ہی سوالوں کے دوبارہ جواب دیے۔ کیا آج آپ کسی کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟

نوودیپ دھریوال

نوودیپ دھریوال نے نریندر مودی سے اس وقت انٹرویو کیا تھا جب وہ بی بی سی نیوز کے لیے کام کرتی تھیں۔

میں نے نریندر مودی سے گجرات سمٹ کے دوران انٹرویو کیا تھا۔ وہ سمٹ کے بارے میں بہت پُرجوش تھے۔ وہ یہ پیغام بیرونِ ملک رہنے والے انڈین شہریوں تک پہنچانا چاہتے تھے کہ گجرات میں ان کے لیے کیا ترغیب ہے اور یہ سرمایہ کاری کے لیے بہترین ریاست کیوں ہے۔

وہ انٹرویو کے لیے آئے، ہم نے ہاتھ ملائے اور ہمارے درمیان ایک مختصر اور خوشگوار گفتگو ہوئی اور انٹرویو شروع ہو گیا۔

میں ان سے سمٹ کے علاوہ فسادات پر بھی بات کرنا چاہتی تھی۔ صحافتی اور ایڈیٹوریل لحاظ سے یہی مناسب بات تھی۔ میں نے سوچا کہ دنیا بھر میں ناظرین اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور یہ سوال کرنے کا یہ پہلا موقع ہے۔

میرا سوال کچھ اس طرح کا تھا ’آپ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ آپ کی ریاست میں سرمایہ کاری کریں جبکہ یہاں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہے۔‘ انھوں نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں نے اس موضوع پر زور دیا تو انھوں نے مائیکرو فون نکالا اور اٹھ کر چل دیے۔

ان کا اشارہ بالکل واضح تھا کہ میں یہاں گجرات سمٹ پر بات کرنے آیا ہوں اور دوسرے موضوعات پر بات نہیں کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp