ندا یاسر: مبینہ اغوا اور قتل ہونے والی پانچ سالہ بچی کے والدین سے چبھتے سوال کرنے پر سوشل میڈیا صارفین مارنگ شو ہوسٹ پر برہم


گذشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی سکرین پر جیسے ہی مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ شروع ہوا تو پروگرام کی میزبان ندا یاسر نے اس کی شروعات کراچی میں رواں ماہ مبینہ طور پر اغوا اور ریپ کے بعد قتل ہونے والی پانچ سالہ بچی کے بارے میں بات سے کی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس شو کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ میں یہ شو کروں یا نہ کروں، کیونکہ اس طرح کی چیزیں کرنے کے بعد سارا دن ڈپریشن رہتا ہے۔۔۔‘

ابھی وہ پروگرام کی تمہید ہی باندھ رہی تھیں کہ مہمانوں میں موجود ایک برقع پوش خاتون کی سسکیاں سنائی دینے لگتی ہیں۔

یہ خاتون اس پانچ سالہ بچی کی والدہ تھیں۔ یہ شو دو گھنٹے جاری رہا جس میں ندا یاسر نے اس بچی کے والدین سے طویل گفتگو کی اور اُن سے چند ایسے سوال کیے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا صارفین ندا یاسر کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’پاکستان محفوظ ہے لیکن یہاں کے لوگ محفوظ نہیں‘

’شہباز صاحب! یہ کوئی مبارک دینے والی خبر یا موقع ہے؟‘

’عین ممکن ہے کہ اُن کی نیت بالکل ٹھیک ہو لیکن یہ کیا ہے‘

صارفین کی ٹوئٹس دیکھیں تو ندا کے سوالات پر تنقید کی جا رہی ہے اور ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنے شو کی ریٹنگ کے لیے حساس موضوع پر متاثرہ والدین سے جان بوجھ کر جذباتی سوالات کیے۔

تاہم بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ندا یاسر نے سوشل میڈیا پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی اور اس حوالے اپنی وضاحت انھوں نے ایک تفصیلی ویڈیو کی صورت میں پیش کی ہے۔ اس ویڈیو میں ندا یاسر نے کہا ہے کہ اگر ان کے سوالات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر معافی کی طلبگار ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ٹوئٹر صارف بریرہ آفاق نے ندا یاسر سے اپنی ٹویٹ میں پوچھا کہ ’آپ ایسا کسے کر سکتی ہیں۔ میرا مطلب ہے صرف ریٹنگ کے لیے آپ نے (بچی کے) والدین کو شو پر بلایا۔۔۔‘

رحما نامی صارف نے لکھا کہ ’ندا یاسر نے ریپ اور قتل کا شکار ہونے والی پانچ سالہ بچی کے والدین کو اپنے شو میں بلایا اور ان سے انتہائی حساس سوالات کیے، بچی کے والد کچھ بول نہیں پا رہے تھے جبکہ والدہ روتی جا رہی تھیں۔‘

رحما کی ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے سحر نامی صارف نے لکھا ’قابل نفرت۔‘

عثمان رفیق نامی صارف نے لکھا کہ ’ہمارا معاشرا کتنا بدبودار اور بے حس ہو گیا ہے۔ میں ایک مداح کے طور پر ندا کو پسند کرتا ہوں مگر مجھے تکلیف ہوئی۔ والدین کا سوچیں۔ ریٹنگ اور شہرت کے لیے ہم کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ندا یاسر پر پابندی لگانا کافی نہیں ہو گا۔ ٹرینڈ بنانا بھی کافی نہیں ہو گا۔ مثال قائم کرنی ہو گی۔‘

حنا باسط نامی صارف نے لکھا کہ ’صرف ریٹنگ کے لیے ایک باپ سے سوال ہو رہا ہے کہ کیا ہوا تھا؟‘

شہریار حامد نے ٹویٹ کی کہ ’مسئلہ ندا یاسر کا نہیں ہے۔ میڈیا ہاؤسز کو پرائیویٹ کاروبار کے طور پر چلایا جاتا ہے یہ اشتہاروں سے اپنا سرمایہ اکھٹا کرتے ہیں اور پھر ادارے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ سے یہ پتہ لگاتے ہیں کہ کس چینل کو زیادہ دیکھا جاتا ہے۔‘

ٹی وی شو کے میزبان وقار ذکا نے ٹویٹ کی کہیں ندا کے خلاف چلایا جانے والا ٹرینڈ بھی ریٹنگ میں اضافے کے لیے تو نہیں ہے؟

پروگرام میں کیا ہوا تھا؟

دوران پروگرام ندا متاثرہ والدین سے حساس نوعیت کے سوالات کرتیں اور کہتیں کہ وہ ایسا اس لیے کر رہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جان سکیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کر سکیں۔

ندا نے والد سے سوال کیا کہ ’کیا ہوا تھا کتنے دن پہلے کی بات ہے؟‘ جس پر مقتول بچی کے والد نے پورا قصہ سنایا۔ شو آگے بڑھتا ہے اور آخرکار ندا والد سے پوچھتی ہیں کہ جب بچی کی میت ملی تو کیا اس کی شکل پہچانی جا رہی تھی؟

تھوڑی دیر بعد ندا بچی کے اہلِخانہ سے معذرت کرتی ہیں کہ انھیں یہ سوالات کرنے پڑ رہے ہیں لیکن وہ یہ اس لیے کر رہی ہیں تاکہ مجرم پکڑا جا سکے۔

ندا یاسر کا مؤقف

بی بی سی سے گفتگو میں ندا یاسر نے کہا کہ انھوں نے اس حوالے سے ویڈیو پیغام جاری کر دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ درحقیقت انھوں نے متاثرہ بچی کے والدین سے خود رابطہ نہیں کیا تھا بلکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن سے ان والدین نے خود رابطہ کیا تھا۔

پاکستان

iStock
انھوں نے کہا کہ جب والدین کی شو میں آنے کی درخواست ان تک پہنچی تو انھوں نے سوچا کہ انھیں سب کام چھوڑ کر ان والدین کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ان کا پروگرام آن ایئر ہونے کے دو دن بعد ریپ کرنے والا مبینہ ملزم پکڑا گیا اور بچی کے والدین نے انھیں بہت دعائیں دی ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے سوالات سے کسی کی دل آزادی ہوئی ہے تو وہ معافی چاہتی ہیں۔

ندا یاسر نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے یہ شو ریٹنگ کے لیے نہیں کیا تھا اور حقیقت یہ کہ اس طرح کے شوز کی زیادہ ریٹنگ ویسے ہی نہیں آتی۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو دوران پروگرام پروڈیوسرز نے حساس سوالات کرنے سے نہیں روکا؟جس پر ندا یاسر کا جواب تھا ’نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پروگرام میں سیدھی سیدھی بات کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس طبقے کے ساتھ اگر میں گھما پھرا کر بات کرتی تو انھیں سمجھ نہیں آنی تھی۔ ’میں اُن کو یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ آپ نے بچی کو اکیلے کیوں بھجوایا؟ لیکن میں دوسرے لوگوں کو بچانے کے لیے یہ کر رہی تھی اور اسی لیے اپنے سوالات دوہرا رہی تھی۔

انھوں نے کہا کہ لائیو شو میں جانے انجانے میں آپ کے منھ سے کوئی بات نکل جاتی ہے اسی لیے انھوں نے سب سے معافی مان لی ہے۔

ندا یاسر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ردعمل سے وہ ڈر گئی ہیں اور آئندہ انتہائی محتاط انداز میں پروگرام کریں گی۔

چینل

’یہاں پر کوئی اخلاقیات نہیں ہیں، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ رپورٹنگ صرف ریٹنگز اور نمبرز کے لیے ہوتی ہے‘

کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ’یہاں پر کوئی اخلاقیات نہیں ہیں، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ رپورٹنگ صرف ریٹنگز اور نمبرز کے لیے ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پیمرا بھی اس معاملے میں متحرک نہیں ہے۔ ’پیمرا کا زیادہ فوکس حکومت اور فوج کے خلاف بولنے والوں یا کبھی کبھی مذہب کے حوالے سے پروگرامز پر ہوتا ہے، جو کہ قابل مذمت ہے۔ مگر جس طرح ریپ اور بچوں سے زیادتی کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں اس پر پیمرا ایکشن نہیں لیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں یاد نہیں کہ آخری مرتبہ پیمرا نے کب جنسی تشدد سے متاثرہ بچوں اور خواتین کی غلط رپورٹنگ پر کوئی نوٹس لیا ہو۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا جس طرح متاثرین اور ان کے لوحقین سے سوالات پوچھتا ہے اور اس نوعیت کے معاملات کو رپورٹ کرتا ہے وہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp