اسرائیل پر پیٹرول کی بارش کے لئے دعا


\"ahmad-saleem\"

”لوگو! دیکھو غیبی مدد آن پہنچی۔ مظلوم فلسطینیوں کا بدلہ االلہ رب العزت نے خود لے لیا۔ آدھا اسرائیل راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے اور باقی بھی انشاء االلہ خاکستر ہو جائے گا“

خطیب جامعہ مسجد منبر سے یہ نوید پُرجوش انداز میں سنُا رہے تھے اس کے بعد خطبہ جمعہ کو اس خواب سے زینت بخشی جس میں مدینہ کے ایک بزرگ نے فرشتوں کو آسمان سے آگ کے ساتھ پٹرول کی کنسٹر لئے اسرائیل پر اترتے دیکھا۔

پھر رحمۃ اللعالمینؐ کے اس منبر نشین اُمتی نے اسرائیل پر پٹرول کی بارش کے لئے رقت آمیز لہجے میں دعا کی اور اسرائیل کی چتا جل جانے کو تمام مسائل کا حل قرار دیا۔ البتہ تفصیل بتانے سے گریز کیا کہ ہمارے معاشرے کی رگ رگ سے ٹپکتی انتہا پسند، چوری، ڈاکے، جھوٹ، گراں فروشی، زنا و رہزنی و دیگر ناسور کا اسرائیل کے وجود سے کیا تعلق ہے۔

دوسری طرف خوابوں اور سرابوں سے باہر حقیقی دنیا کے مکینوں نے دیکھا کہ اسرائیل میں وسیع پیمانے پر پھیلی آگ پر جزوی طور پر قابو پالیا گیا ہے اور باقی ماندہ آگ کو بجھانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں ابھی تک کوئی انسانی جان ضائع نہیں ہوئی ہے۔ آگ لگنے کی وجوہات جاننے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔

آگ بجھانے کی اس کوشش میں دیگر ممالک کے ساتھ ترکی اور فلسطین کی امدادی ٹیمیں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان نے آگ بجھانے کے لئے طیارے بھیج کر یہ بات ثابت کیا ہے کہ ملکی مفادات سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اس میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار سیاسی، سفارتی و تجارتی تعلقات کو دو قومی نظریہ کی مخالفت سمجھنے والوں کے لئے یقیناً نشانیاں ہیں اور یوم جمعہ کو بوجہ اسرائیلی آتش زدگی یوم تشکر منانے کی بجائے یوم تفکر منانا چاہیے اور ان دانش کدوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں الم ناک حادثات آئے روز رونما ہوتے ہیں۔

\"israel-fire-airplane\"

گدانی پورٹ پر بحری بیڑے میں لگنے والی آگ نے گذشتہ ہفتے دو درجن سے زائد محنت کش نگل لئے۔ آگ بجھانے کی تمام تر کوششیں اس لئے بے سودثابت ہوئیں کہ آلات اور استعداد نا کافی تھے۔ 2012 میں کراچی کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں لگنے والی آگ سے 225 نفوس زندہ جل گئے تھے وجوہات کی تحقیق کی فائیلیں تہہ در تہہ حادثات کے نیچے دبتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریاں نوشتہ دیوار ہیں۔ ان حادثات سے ہم نے کیا سیکھا؟ استعداد کار میں کس قدر اضافہ کیا؟ احتیاطی تدابیر میں کسی حد تک بہتری لائے؟ سچ یہ ہے کہ بد سے بدترین کا سفر جاری ہے۔

اطلاعاً عرض ہے کہ ان حادثات میں کسی نے گردوں سے کوئی نوری مخلوق اترتی نہیں دیکھی۔ ہاں تجسس و تحقیق کی زحمت سے بچنے کے لئے خدا کی ناراضگی یا آزمائش پر ملبہ ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ جن کی فکری عنایات سے آنگن جل رہا ہے انہوں نے کبھی سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و حرفت میں ترقی کو ضروری نہیں سمجھا۔ ویسے بھی خدا کے کاموں میں ٹانگ اڑانا کوئی مناسب عمل نہیں۔ باقی 72حوروں کے حصول جیسا اہم فریضہ بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ کاش دیدہ ہوس کبھی افلاس زدہ عوام کو بھی دیکھے۔ جو ہم آواز ہو کے کہہ رہے ہیں کہ:

بہتر حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر کھنسوں
اکہتر حور دے بدلے اسا کوں رج کے روٹی دے

بڑھی ہوئی بے ہنگم آبادی پر فکر کرنے والے کب یہ سمجھیں گے کہ یہ دنیا تعداد کی نہیں استعداد کی ہے۔ چاند اور آلو پر اسم اعظم کی تلاش کی عرق ریزی سے فارغ ہو کر تسخیر کائنات کے حکم پر بھی ایک نظر ہو جائے۔ صدیوں سے جاری دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا دنگل اگر یہود و ہنود کی سازش ہے تو صاحب گریبان چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔

\"israel-fire-jews\"

حضور والا! اپنی ساری ہزیمتوں اور رسوائیوں کو خدا کے گلے سے نکال کر کبھی طبیعت کم کوش کو بھی زحمت دیں۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ اپنے ہی دانت اپنے بازو میں پیوست کر کے شخصے دیگر کو ذمہ دار ٹھہریا جائے؟

خدا لگتی کہیے تو 70گز کی دستار کی یہ ناقابل عمل للکار محنت و حرکت سے دست کشی ہے۔ ”گمراہ دنیا دار“ سائنس اور تحقیق کے امام بن کر اوج ثریا سے بھی بہت آگے جا چکے ہیں۔ حضرت اگر عبادت میں خلل نہ آئے تو ہاتھ میں گھومتی تسبیح کو روک کر دیکھے اور سجدے میں آنکھ بچا کر جائے نماز کے Tagکو بھی دیکھ لیجئے۔ Made in China لکھا ہو گا۔

نفرت کا کاروبار اور اس کو نصابی حیثیت دینے والوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی اشد ضرورت ہے محض ناموں کے آگے اور پیچھے گز گز بھر لمبے القابات و خطبات لگانے سے کوئی تبدیلی نہ آئے گی۔

گزارش یہ ہے کہ انتظار مہدی و عیسیٰ میں ہاتھ توڑ کر بیٹھ رہنے والے تلاش و جستجو اور علم و عمل میں مصروف ”عالم کفر“کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ فہم و تجسس سے عاری جذبہ خرِ عیسیٰ کی راہ تکتا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے والوں پر بدعاؤں کے میزائل داغ رہا ہے۔

خطبہ کے اختتام پر خطیب نے سبحان االلہ، ماشاء االلہ کے شور میں امریکہ اور دیگر بے راہ روی کے شکار ممالک کو نابود کرنے کے لئے وہ بڑھکیں ماریں کہ مرحوم سلطان راہی کی یاد تازہ ہو گی۔ لیکن موصوف نے یہ نہیں واضح فرمایا کہ کفر کے ان میناروں کو زمین بوس کرنے کے لئے کوئی علم و عمل کی راہ چنیں گے یا بددعاؤں سے ہی گولہ باری کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments