ریپ، ریپسٹ اور متاثرہ افراد


ریپ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر عامتہ الناس میں ریپ کے حوالے سے یہ تاثر قائم ہے، کہ صرف زور زبردستی سے کیا جانے والا جنسی فعل ہی ریپ کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ جب کہ ہر وہ جنسی فعل یا حرکت جو کسی ایک فرد کی رضا مندی کے بغیر، بچے بچی یا کسی کی معصومیت اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر سرزد ہو، ریپ کے ہی زمرے میں آتی ہے۔ حتی کے شریک حیات کی مرضی بھی شامل حال نہ ہو، تو ترقی یافتہ معاشرے میں یہ فعل ایک نوع کے ریپ میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ گھناؤنا فعل زیادہ تر متاثرہ خاتون، مرد، لڑکا، لڑکی، بچے اور بچی کے سگے رشتے دار و قریبی عزیز، آجر، گھریلو نوکر چاکر، استاد اور معاشرے کے با اثر افراد کی طرف سے عمل میں آتا ہے۔ اور عموماً ظلم و زیادتی کا شکار معصوم بچے بچیاں اور مجبور، معذور اور بے سہارا خواتین اور لڑکے لڑکیاں ہوتی ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے، کہ اکثر ایسے معاملات منظر عام پر نہیں آتے۔ اور متاثرہ فرد اپنے والدین یا کسی بڑے سے شکایت بھی کرے، خصوصاً خاتون، لڑکی یا بچی اپنی ماں یا دوست کو اس قبیح فعل سے آگاہ کرے، تو عموماً معاملہ دبا دیا جاتا ہے اور چپ رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ بظاہر اس کی وجہ یہی ہے، کہ متاثرہ فرد اور کنبہ بدنام ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ پیچیدہ قانونی کارروائیوں وجہ سے ملزم کے بچ نکلنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

خواتین بھی مرد اور خصوصاً لڑکوں کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایسے معاملات میں باہمی رضا مندی کا عنصر جہاں غالب ہوتا ہے، وہیں خواتین کے پیش نظر جسمانی سے زیادہ مالی منفعت پیش نظر ہوتی ہے۔ ہاں، کمسن لڑکوں کے ساتھ یہ فعل بہلا پھسلا اور رجھا کر کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا واقعہ شاذ و نادر ہی سننے میں آتا ہے، کہ خواتین نے کسی مرد یا لڑکے پر تشدد کیا ہو یا اسے ہلاک کیا ہو۔ اسی وجہ سے ایسے واقعات عموماً پوشیدہ رہتے ہیں۔

ریپ کرنے والے افراد کے ماضی کو کھنگالا جائے، تو ریپسٹس کی بڑی اکثریت اپنے بچپن یا لڑکپن میں اس اذیت کو سہ چکے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ریپ کا شکار ہونے والے فرد میں ایک انتقامی جذبہ اور مجرمانہ ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس کو جب موقع ملتا ہے، وہ اپنے انتقام کی آگ یہ گھناؤنا فعل انجام دے کے بجھاتا ہے۔ چونکہ بچپن میں اس کو جس کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ملی نہیں ہوتی۔ بلکہ معاشرے میں اکثر و بیشتر متاثرہ فرد کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ اور بعض صورتوں میں متاثرہ فرد نفرت انگیز نظروں اور نفرت آمیز رویوں کا شکار بھی ہوتا ہے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رو نما ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے، کہ بچوں کو بچپن سے ایسی تعلیم و تربیت اور رہنمائی نہیں ملی ہوتی، کہ وہ کسی قریبی رشتے دار یا اجنبی کی طرف سے کی جانے والی نا زیبا حرکات کے محرکات کو بر وقت سمجھ پائیں اور حادثہ پیش آ جانے کی صورت میں والدین یا اساتذہ کو بر وقت آگاہ کریں۔ جن بچوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے، عادی مجرم ان کو ڈرا دھمکا کر یا بہلا پھسلا کر چپ رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ماضی میں ایسے واقعات پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا تک ہی محدود رہتے تھے۔ اور صرف ایک خبر کی حیثیت رکھتے تھے۔ فی زمانہ ایسے واقعات پر عوامی سطح پر احتجاج اور غم و غصے کی لہر کا دوڑ جانا، سوشل میڈیا کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اور نچلی سطح پر بھی ریپ اور بچوں سے زیادتی کے کچھ واقعات منظر عام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دو چار دہائیوں میں چند اجتماعی اور انفرادی ریپ کیسز قومی سطح پر منظر عام پر آئے۔

مشہور زمانہ شبنم ڈکیتی کیس بھی ان میں سے ایک ہے۔ ملزمان پکڑے گئے، ملٹری کورٹ نے تمام ملزمان کو سزائے موت سنائی۔ لیکن مدعی کے وکیل صاحب نے عدالت میں درخواست دی، کہ مجرمان پڑھے لکھے نوجوان ہیں، اس لیے ان کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی جائے۔ موت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔ کہا جاتا ہے، کہ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا، چونکہ مجرمان با اثر تھے۔

وینا حیات کیس بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی طرح مختاراں مائی کیس میں بھی چھے میں سے ایک کو سزائے موت اور باقی کو بری کر دیا گیا۔ اور بعد میں سزائے موت کو بھی عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور یہ کیس شاید اب تک عدالت عظمی میں زیر سماعت ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کیس بھی گزشتہ عشرے کی بات ہے۔ ان تمام کیسز میں نامزد ملزمان با اثر تھے۔ کوئی وزیر بن گیا، اور کسی کے بارے میں سنا، کہ اسلامیات پڑھانے لگ گیا۔ مختاراں مائی اور ڈاکٹر شازیہ کیس میں تو جنرل پرویز مشرف نے متاثرین کو ہی برا بھلا کہا اور ریپ کیس کو شہرت و غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کا طریقہ گردانا۔ یہ ہی ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔ زینب کیس میں مجرم کو سزائے موت مل گئی۔ لیکن ریپ کیسز میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

گزشتہ دنوں موٹر وے لنک روڈ پر بھی ایک خاتون کے ساتھ ہی ڈکیتی اور ریپ کا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ حسب معمول و سابق عوام اور ذرائع ابلاغ سراپا احتجاج ہیں۔ حکومتی، انتظامی اور سیاسی سطح پر بونگیاں مارنے کا مقابلہ جاری ہے۔ اور ایک بڑا طبقہ سی سی پی او سمیت متاثرہ خاتون کی کوتاہیاں گنوانے اور حادثے کا ذمے ٹھہرانے میں جتا ہوا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے، کہ مرکزی ملزم کے علاوہ شریک ملزم پکڑے جا چکے ہیں۔ عوامی سطح پر ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ جاری ہے۔ تجربے کار وزیر اعظم اس معاملے میں کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے مجرمان کو آختہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اور کچھ حکومتی وزیروں مشیروں نے سر عام پھانسی کی سزا تجویز کی ہے۔

ریپ کیسز میں عمر قید سے لے سزائے موت کی سزا مجرمان بھگت چکے ہیں۔ لیکن ریپ کیسز میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، کہ سکول، کالج، یونیورسٹی اور دینی مدارس کی سطح پر بھی طلبا و طالبات کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔ گھر ہو یا تعلیمی ادارے، جب تک بچوں کو اپنی حفاظت خود کرنے کے طریقے نہیں بتائے جائیں گے۔ معاشرہ متاثرہ افراد کو لعن طعن کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ خصوصی طور پر گھریلو سطح پر ہونے والے ایسے واقعات کو پوشیدہ رکھ کر ریپسٹ کی من مانیوں کو بڑھاوا دینے کا عمل ترک نہیں کیا جائے گا۔ مکار و عیار، ذہنی و نفسیاتی عارضے میں مبتلا افراد یہ فعل کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اور با اثر افراد بھی پیچیدہ قانونی کارروائیوں اور ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے بآسانی ایسے کیسز میں اپنا دامن بچانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).