بائیں بازو والے


اب اس کی بھلا کیا وضاحت کرنی کہ بائیں بازو والے کن کو کہا جاتا تھا اور غلطی سے اب تک کہا جا رہا ہے۔ لوگ تو بس یہی سمجھتے تھے کہ جو ملک میں انقلاب لانا چاہتا ہے ( جو خونی ہی ہو سکتا تھا) جو خدا کو نہیں مانتا، جو سب عورتوں اور آدمیوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتا ہے اور جو جماعت اسلامی اور امریکہ کا کٹر مخالف ہے اسے بائیں بازو کے ماننے والا یا پھر بائیں بازو والا سمجھنا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے کٹر مخالف تو بہت تھے لیکن آج کی طرح انقلاب لانے کے داعی نہیں تھے۔ خدا کو نہ ماننے والے آج بھی بہت زیادہ ہیں یہ اور بات ہے کہ نجی محفلوں میں وہ ملحد ہوتے ہیں اور جلوت میں مومن لیکن جن کی ہم بات کر رہے ہیں وہ منافقت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔ جب وہ خدا سے ہی نہیں ڈرتے تھے ( کیونکہ ان کے خیال کے مطابق عدم وجود کا خوف چہ معنی دارد والا معاملہ تھا ) تو وہ لوگوں سے بھلا کیوں ہراساں ہوتے۔

امریکہ کی ”کرٹیل کمیونزم پالیسی“ پر کولہو کے بیل کی مانند چلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور جماعت اسلامی نے کمیونسٹوں سے متعلق لوگوں میں جو احساس پیدا کیا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ یہ ایسی قبیح مخلوق ہے جن کی آنکھیں لال، بال بڑھے ہوئے اور جو دیکھنے میں حواس باختہ سے لگتے ہیں، جو موقع پاتے ہی لوگوں کے معصوم بچوں کو ساتھ ملا کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنی جیسی مافوق الفطرت مخلوق بنا دیتے ہیں۔ یہ خدا کے دشمن اور حکمرانوں کے بیری ہیں۔

یہ بائیں بازو والوں کی بات کرتے ہوئے کمیونسٹوں کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ ہوا یوں کہ چند افراد کا ایک گروہ تھا، جن کا سرخیل لکھنؤ سے آیا ہوا ایک نوابزادہ تھا لیکن اس نے نواب پنے کو ٹھکرایا ہوا تھا۔ البتہ انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں ایک عام پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نام سے ضرور ہوا کرتی تھی جس کے اراکین میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جب پاکستان کی تحریک زور پکڑ گئی تو اس پارٹی نے اپنے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ پارٹیوں کے ساتھ جڑ جائیں یعنی ہندو اور سکھ آل انڈیا کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں اور مسلمان پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ۔ ملحدین کی پارٹی کا مذہب کے حوالے سے لوگوں کو تقسیم کرنا، تھی نہ عجیب بات لیکن ایسا ہوا تھا۔

جب ہندوستان اور پاکستان بن گئے تو پاکستان میں کمیونسٹ اتنے تھوڑے اور غیر منظم تھے کہ ہندوستان میں پھر سے پارٹی میں لوٹ آنے والوں نے سید سجاد ظہیر کو پارٹی کو منظم کرنے کی خاطر پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہ پاکستان آ گئے۔ ابھی کچھ کر نہ پائے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک مقدمہ گھڑا گیا جس کو ”راولپنڈی سازش کیس“ کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مذاکرات کی حد تک تو مقدمے میں بیان کردہ بات درست تھی لیکن باقی سب کچھ من گھڑت تھا۔ خیر سجاد ظہیر صاحب تو کسی نہ کسی طریقے سے نکل گئے مگر جنرل اکبر کو ان کے مبینہ ساتھیوں سمیت جن میں اپنے فیض احمد فیض بھی شامل تھے، دھر لیا گیا تھا۔ ان سب کو مختلف مدت کی سزائیں ہوئیں یوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ کمیونسٹ ہی دراصل بائیں بازو والے ہوتے ہیں۔

بائیں بازو والے زیر زمین چلے گئے۔ ان کا کام محض طلبا اور مزدوروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بائیں بازو والے انقلاب لانے کے لیے مزدوروں کو ہراول دستہ خیال کیا کرتے تھے۔ ان میں سے کسی کو اگر مزدوروں میں پذیرائی ملی بھی تو اس کی وجہ ان کا کمیونسٹ نظریہ نہیں بلکہ ان کی مزدور دوستی بنا تھا۔

تاہم ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ شروع شروع کے یہ لوگ، دروغ بر گردن راوی اپنے ملحدانہ خیالات کا برملا اظہار کر دیا کرتے تھے یوں عام لوگ ان سے دور ہٹتے چلے گئے۔ بعد میں کچھ عملیت پسندی سے کام لینے لگے اور ان میں سے بیشتر عبدالغفار خان کی پارٹی نیپ ( نیشنل عوامی پارٹی) کا حصہ بن گئے اور ادھر مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کی پارٹی کا۔

اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے سر اٹھایا جو پھر مقبول ہونے لگی۔ اب بائیں بازو والوں کے لیے اذن ہوا کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاؤ۔ وجہ یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام کی پخ لگا کر سوشلزم کو اپنا مطمح نظر بتایا تھا۔ اس نئی نوع کے سوشلزم یعنی اسلامی سوشلزم کے بانی حنیف رامے تھے۔ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی اس حکومت کی مزدور دشمن پالیسی واضح ہونے لگی تھی۔ ملتان کی کھاد فیکٹری کے مزدوروں پر تشدد اسی دور میں ہوئے تھے۔ تب پنجاب کے گورنر ملک غلام مصطفٰی کھر ہوا کرتے تھے۔

لوٹ کے بدھو پھر گھر کو۔ اب بائیں بازو والے ولی خان سے علیحدہ ہونے والے غوث بخش بزنجو کی پارٹی میں آ گئے۔ یہ کھلی پارٹیاں بائیں بازو والوں کی ذہنی استعداد، تنظیمی صلاحیتوں اور نظریے سے لگن کا فائدہ ضرور اٹھاتی تھیں لیکن ان کو کلیدی عہدوں پر اس طرح سے نہیں رکھتی تھیں جس طرح بعد میں سابق کمیونسٹ پارٹی کے ایک رکن افراسیاب خٹک کو اے این پی میں رکھا گیا۔

غرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو والے جہاں ایک طرف کم تعداد میں ہوا کرتے تھے وہاں دوسری طرف عوام سے کٹے ہوئے بھی۔ وہ ان پارٹیوں کو جو دراصل ان سے کام لیا کرتی تھیں اپنے زعم میں کمیونسٹ پارٹی کا ”اوپن ونگ“ خیال کرتے تھے۔ مختلف ناموں سے کئی کمیونسٹ پارٹیاں تھیں جن کی رکنیت 30 افراد سے لے کر 300 افراد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی البتہ ہم خیال لوگ پانچ دس گنا ضرور ہوتے تھے۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں بائیں بازو والے کتنے تھے۔

آج جب سوویت یونین کو بکھرے ہوئے تقریباً ربع صدی گزر چکی ہے، چین کو مشترکہ معاشی نظام میں ڈھلے ہوئے بھی تین عشروں سے کچھ زیادہ ہو چکے ہیں۔ کیوبا، شمالی کوریا، بیلاروس اور ویت نام کے بھی اپنے اپنے مسائل ہیں تو سوال اٹھتا ہے کیا پاکستان میں بائیں بازو والے موجود ہیں؟ بس ایسے ہی ہے کہ ہر چند کہیں ہیں پر نہیں ہیں۔

ایک دوست نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا، ”پاکستان میں بائیں بازو والے کم ہیں لیکن بائیں بازو کی پارٹیاں کہیں زیادہ۔ مگر اب بائیں بازو کے معانی وسیع تر ہو چکے ہیں، اب ان میں وہ سب شامل کیے جاتے ہیں جو انسانی حقوق، آزادی اظہار، سیکولر اقدار اور سماجی انصاف پر یقین رکھتے ہیں“ ۔

ان کی یہ بات اگر آدھا سچ نہیں تو پورا سچ اس لیے نہیں ہے کیونکہ درست ہے کہ تکنیکی طور پر ہر وہ شخص اور گروہ جو سٹیٹس کوو کے خلاف ہوتا ہے اور جو مقتدر حلقوں کی حدود کو توڑنے یا بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے، اسے آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے بائیں بازو کا خیال کیا جاتا ہے۔ دست راست تو وہی ہوتے تھے اور ہوتے ہیں جو مقتدر شخصیات اور مقتدر نظام کو مضبوط کرنے میں معاون ہوں۔ مگر اس اصطلاح یا وصف کا سیاسی پہلو صرف متبادل سیاسی و معاشی نظام کا حامی ہونا اور اسے رائج کرنے کی خاطر کسی منظم تنظیم کے ساتھ وابستہ ہو کر جدوجہد کرنا نہیں بلکہ ایک مخصوص سیاسی و معاشی نظام کو رواج دینے کی خاطر منظم تحریک میں شامل ہونا ہوتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ نظام سوشلسٹ نظام ہے، نظری طور پر جس کی معراج کمیونزم یعنی اشتراکیت پر منتج تصور کی جاتی ہے۔

یہ درست ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار، سیکولر اقدار اور سماجی انصاف پر یقین رکھنے والوں کو بائیں بازو والے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ سب خواہشات سرمایہ دارانہ نظام یا مخلوط نظام میں بھی پوری کی جا سکتی ہیں اور کسی حد تک پوری کی جا رہی ہیں۔

بات چونکہ یقین رکھنے کی ہو رہی ہے چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کسی بھی معاملے سے متعلق یقین رکھنا ”عقیدہ پرستی“ کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ سائنسی طور پر پر چیز معروض سے جڑی ہوئی اور متغیر ہوتی ہے۔ بائیں بازو کا یہ المیہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ انہوں نے مارکسیت کو ایک مذہب کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ بالعموم کسی کٹر مذہبی شخص کی طرح مارکس اور لینن کے اقوال کے حوالے دینا کہ جیسے وہی آخری سچ ہو، سائنسی طور پر سوچنے والے غیر مارکسی شخص کو چبھنا کوئی اچنبھا نہیں۔

بائیں بازو کے ایک موقر رہنما ڈاکٹر اعزاز نذیر ہوا کرتے تھے۔ ان کے فرزند حسن ناصر سید جو آج خود بھی بائیں بازو کے ایک دھڑے کے رہنما ہیں لکھتے ہیں، ”کل تک جب آپ لوگ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، تو بایاں بازو عملاً موجود تھا۔ آپ لوگوں کی تعظیم بھی تھی، اس زمانے میں بھی بائیں بازو کی متنوع پارٹیاں ہوا کرتی تھیں مگر جب آپ لوگ منظر سے غائب ہوئے ( وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں ) تو بایاں بازو ہی غائب ہو گیا، چنانچہ بات کو آگے بڑھائیے“

اس کے برعکس فہد رضوان نام کے کوئی نوجوان حسن ناصر سید سے اختلاف کرتے ہیں، انہوں نے لکھا، ”انکل! آپ شاید بوڑھے ہو گئے ہیں، اس لیے عوام میں نہیں جاتے، عوام میں آج بھی بہت سے کمیونسٹ کام کر رہے ہیں“ ساتھ ہی انہوں نے کچی آبادی، اسلام آباد میں عوامی ورکرز پارٹی کے جلسے کی چونسٹھ تصاویر بھی تصدیق کے لیے بھیج دیں۔

مجھے فہد کی بات کا جواب اس لیے دینے کی ضرورت نہیں کہ چھوٹی پارٹیاں فوری اور تند مسائل کے حوالے سے ایسی سرگرمیاں کیا ہی کرتی ہیں۔ جو لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ اس طرح کے جلسوں کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ کچی آبادی والوں کے لیے اگر حافظ سعید کی پارٹی بھی جلسہ کرتی تب بھی یہ سارے لوگ اور حافظ صاحب کے کارکن مل کر اس جلسے کو اور بڑا کر دیتے۔ بہرحال میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایسی سرگرمیاں نہیں کی جانی چاہئیں البتہ ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ ”بایاں بازو“ کیا ہوتا ہے۔ فہد بیٹے کو ایک ہدایت کر دوں کہ وہ لوگوں کے سامنے خود کو کمیونسٹ نہ کہیں، نتائج کی ذمہ داری کوئی نہیں لے گا۔

مجھے دراصل حسن ناصر کی بات ماننی ہے کہ بات کو آگے بڑھاؤں۔

جب کی بات حسن ناصر کر رہے ہیں، وہ دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کے ابھار کے زمانے کی بات ہے، جس دوران ”پارٹیوں“ نے یا ہر ”پارٹی“ نے ( سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ ”پارٹی“ سے مراد کمیونسٹ پارٹی ہے اور ایسی پارٹیاں کئی تھیں، نام ان کے مختلف تھے اور شاید اب بھی ہوں۔ ان کے ہی ایک ادغام کو پاکستان ورکرز پارٹی بھی کہا جاتا ہے ) اپنے اپنے کارکنوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایت کر دی تھی) یاد رہے ایک دو ”پارٹیوں“ نے یہ ہدایت جاری نہیں کی تھی۔

اس عوامی دھارے میں شامل ہونے کے سبب ہی ”بائیں بازو“ والے اپنی جگہ لوگوں میں بنا سکے تھے۔ خاص طور پر مزدوروں، کسانوں اور طالبعلموں میں مختلف ناموں مثلاً ٹریڈ یونین کے انتخابات میں حصہ لینے والی مختلف نام کی تنظیموں، کسان کمیٹیوں اور ڈی ایس ایف، این ایس ایف اور این ایس او جیسے ناموں کے ساتھ۔ لوگ بائیں بازو سے وابستہ لوگوں کی تعظیم بھی اس لیے کرتے تھے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے ان کی زندگیاں اور وسائل بھی ان کی کہی ان باتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوا کرتے تھے۔

بھٹو اور بعد کے ادوار میں اگرچہ اپنی اپنی ”پارٹیاں“ تھیں لیکن ان کا جھگڑا مذہبی مسالک کی مانند تند نہ تھا۔ تشدد پرستی کا عنصر تو ان زمانوں میں مذہبی مسالک کے جھگڑوں میں بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔ بعض معاملات پر احتجاجات کے سلسلے میں یہ دھڑے اگر سارے نہیں تو کئی تعاون بھی کرتے تھے۔

امام علی نازش کے تحت کمیونسٹ پارٹی میں بڑی تقسیم تب ہوئی جب روس میں تعمیر نو کے تناظر میں ایک حلقے نے اس کا ساتھ دینے اور تنظیم میں ہئیتی تبدیلیاں لانے کا اعادہ کیا جب کہ دوسرا دھڑے نے جو ٹریڈ یونین کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے اکثریت میں تھا، پرانی دھر پر چلنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ متاسفانہ میں بھی باوجود اختلاف ہونے کے وضعداری کے سبب اسی دھڑے میں شامل رہا تھا کیونکہ میرا تعلق مزدوروں کے ساتھ تھا، جس پر امتیاز عالم نے میرے بارے میں کہا تھا کہ اندھوں میں کانا راجہ بننے کا شوق ہے۔

روس نواز کامریڈوں کا کعبہ رفتہ رفتہ ڈھے رہا تھا چنانچہ وہ بددل ہوتے چلے گئے۔ جو زیادہ دانشور تھے انہوں نے این جی اوز کی راہ لی، عام لوگوں نے یا تو کاروبار کر لیے یا پھر اس قدر بد دل ہو گئے کہ کسی طرف کے نہ رہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد تو ان لوگوں کا آپس کا ”کامریڈ شپ“ کا رشتہ بھی ختم ہونے لگا تھا۔ قومی صنعت میں شامل صنعتوں کے نجی ہاتھوں میں چلے جانے کے بعد صنعتی اہلکاروں کو ”گولڈن ہینڈ شیک“ ملا جس کے سبب یک لخت ان کی ”کلاس“ تبدیل ہو گئی۔ یہ طنز ہے، مطلب یہ کہ پیسہ ملنے کے بعد ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئی تھیں۔

چین نواز ویسے ہی کام کرتے رہے جیسے کرتے تھے۔ ان کی اکثریت یورپی ملکوں میں منتقل ہو گئی تھی اور ان کے روابط آج بھی دوستانہ اور کامریڈ شپ والے ہیں۔

صرف ٹراٹسکی کو ماننے والے فعال رہے اور فعال ہیں۔ میرا چونکہ اس ”مسلک“ سے کبھی اتفاق نہیں ہوا اس لیے میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا اور نہ ہی میں نے ان کے بارے میں جاننے کی جستجو کی ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ دوست ہیں۔ یہ بیشتر خوشحال ہیں اور تسلسل کے ساتھ اپنے مسلک پر گامزن بھی۔

پاکستان میں اگر ورکرز پارٹی کی شکل میں کوئی اتحاد چل بھی رہا ہے تو بھی اس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں کیونکہ وہ عوام کو بڑے پیمانے پر اس لیے نہیں جوڑ سکتے کہ ان کے پاس کوئی متاثر کن شخصیت نہیں۔ متاثر کن ہونے کے لیے صرف بھڑکدار ہی نہیں بلکہ عوام سے ایک طویل تعلق ہونا ضروری ہے، چاہے وہ کرکٹ کے کھلاڑی کا ہی کیوں نہ ہو۔ افراسیاب آج کے افراسیاب نہ ہوتے اگر وہ اے این پی میں شامل نہ ہوتے۔ امتیاز عالم صاحب کا اول تو رویہ ہی عوامی نہیں ہو سکا تھا اور پھر وہ بالکل ہی اور سمت چل دیے اگرچہ کہنے کو وہ آج بھی بائیں بازو کے ہی ہیں۔

ہمارا اجتماعی رویہ یہ ہے کہ اگر پروفیسر جمال نقوی نے اپنے ذاتی تاثرات کتاب کی شکل میں پیش کر دیے تھے تو ہم میں سے بیشتر ”بائیں بازو کے عقیدہ پرستوں“ نے ان کے ایسے لتے لیے جیسے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہو۔

آخر میں میں اپنا موقف یہ کہہ کر پیش کرتا ہوں کہ آج کا وہ کام جو آپ کو فی الواقعی ”بائیں بازو“ کا بناتا ہے وہ ”عالمگیریت مخالف“ تنظیم میں شامل ہو کر فعال ہونا ہے لیکن تاسف یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی تنظیم نہیں جو فی الواقعی خود کو ”اینٹی گلوبلسٹ“ کے طور پر پیش کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).