گلزار کی خوشبو


یوں تو گلزار کی تمام فلمیں اعلی پائے کی ہوتی ہیں مگر آپ اپنے کسی دوست یا عزیز سے جو میری طرح سے فلموں اور فلم سے وابستہ افراد کا رسیا ہو پوچھ دیکھیں کہ وہ گلزار کی کس فلم کو اپنی پسندیدہ قرار دیں گے تو میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اکثریت اجازت، آندھی، موسم اور ماچس کا نام لے گی۔ یہ ترتیب اوپر نیچے بھی ہو سکتی ہے، مگر پسندیدہ فلمیں انہی ناموں سے ہی ہوں گی۔ مجھے بھی یہ تمام فلمیں بہت پسند ہیں مگر ایک دوست کو بتاتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ گلزار کی تمام فلموں میں سے میری پسندیدہ فلم کون سی ہے تو میں کہیں سے دبی ہوئی اس فلم کو نکال باہر لاؤں گا جس کا نام خوشبو ہے۔

یہ خوبصورت فلم مشہور بنگالی رائٹر سرت چندرا چتوپڈھے کی کہانی پر مبنی ہے، جس کا منظرنامہ اور مکالمے گلزار نے تحریر کیے ہیں۔

فلم کی کہانی بنگال/ آسام کے گاؤں میں رہنے والی ایک لڑکی کسم (ہیما مالنی) کی ہے جس کی شادی بچپن ہی میں گاؤں کے ایک اونچے زمیندار گھر کے اکلوتے لڑکے برنداون (جیتندر) سے ہو جاتی ہے۔ کسم کے باپ کی اچانک موت اور اس سے جنم لینے والے زمین و جائیداد کے کسی تنازعے کے باعث طیش میں آتے زمیندار ( اوم شیو پوری) اپنے لڑکے کا بیاہ کسم سے توڑ کر اسے اس کی ماں ( لیلا مشرا) اور بھائی کو گاؤں سے بیدخل کر دے دیتا ہے۔

وقت گزرتا جاتا ہے کسم بھی ساتھ والے گاؤں میں رہتے ہوئے جوان ہو چکی ہے۔ کسم کی ماں کی موت ہو چکی ہے، اس کا بھائی (اسرانی) شہر سے سستے کھلونے لا کر انہیں اپنے سر پہ دھرے چھابے میں لاد آس پاس کے گاؤں کے بچوں کو بیچتا ہے، کسم اپنے گاؤں کے زمیندار کی حویلی میں بیمار چودھرائن ( چندرما بہادڑی) کی سیوا پر مامور ہو جاتی ہے، سلائی کڑھائی اور اس سیوا سے اسے جو کچھ آمدنی اور بخشش ملتی ہے اس سے ان کا خرچ چلتا ہے۔

کسم کو اپنی ماں اور اپنے ساتھ ہونے والی ساری زیادتیاں یاد ہیں مگر وہ ابھی تک برنداون کے نام کو اپنے دل میں بسائے، من ہی من میں اسے اپنا پتی مانے اس دن کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ جب ایک دن اس کا پتی اس کو سمان کے ساتھ لینے کے لئے آئے گا اور وہ اس کے ساتھ اپنے سسرال جا کر اس کی سیوا میں اپنا جیون بتائے گی۔ بہت سالوں کے بعد برنداون شہر سے ڈاکٹر بن کر گاؤں لوٹتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا چار سال کا لڑکا چرن بھی ہوتا ہے۔

کسم جس حویلی میں وہ کام کرتی ہے ایک دن اتفاق سے اس کی برنداون سے مد بھیڑ ہو جاتی ہے، وہ وہاں چودھرائن کے علاج کو آیا ہوتا ہے۔ جب کسم کو پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر بادل گاؤں سے آیا ہے تو وہ اسے پہچان جاتی ہے۔ چودھرائن برنداون کے سامنے کسم کی شکل و صورت اور عادات و اطوار کی تعریف کرتے ہوئے جب اس کے ماضی اور حال کا تذکرہ کرتی ہے تو برنداون کا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ چرن جو اپنے باپ کے ہمراہ حویلی آیا ہے وہ باہر اپنے باپ کی سواری کے پاس کھڑا چیزوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔

کسم اسے دیکھتے ہوئے اس کے پاس جاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ کیا وہ بیسن کے لڈو کھائے گا۔ بچہ فوراً ہاں بولتا ہے۔ لڈو کھانے کے بعد چرن کسم سے پینے کو پانی مانگتا ہے۔ کسم پانی بھرا گلاس تو لاتی ہے مگر دیتی نہیں۔ چرن پیاس کی شدت سے بے چین پانی مانگتا ہے تو کسم کہتی ہے کہ پہلے وہ اسے ماں بولے تب پینے کو پانی ملے گا۔ کسم اور چرن کے بیچ اس کھینچا تانی میں برنداون باہر آتا ہے تو چرن اسے شکایت لگاتا ہے کہ ”بابا دیکھو کہتی ہے پہلے ماں بولو پھر پانی ملے گا“ ۔

برنداون اس بات پر بہت محظوظ ہوتا ہے اور کسم جھینپ جاتی ہے۔ برنداون جب اپنی حویلی میں آتا ہے تو اپنی ماں ( درگا کھوٹے ) سے چودھرائن کی حویلی میں کسم سے ہونے والی ملاقات کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہ ماں سے کسم اور اس کے خاندان کا حال دریافت کرتا ہے، اس کی ماں ساری تفصیل سناتی ہے۔ برنداون کہتا ہے کہ کیا گزری ہوئی باتوں کو بھلایا نہیں جا سکتا ہے وہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ کسم نے آج تک شادی نہیں کی، وہ آج تک برنداون کو ہی اپنا پتی مانے بیٹھی ہے۔

یہ بات سنتے ہی اس کی ماں کے وجود پر ایک سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ کسم کی سہیلی منو (فریدہ جلال) کو پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر برنداون نے شہر سے گاؤں آ کر اپنا کلینک کھولا ہے تو وہ اس بات کی اطلاع دینے کسم کے پاس آتی ہے۔ منو ایک زندہ دل اور ہنس مکھ لڑکی ہے۔ کسم منو سے ڈاکٹر اور اس کے لڑکے چرن کے ساتھ حویلی میں ہونے والی ملاقات کا احوال بتا دیتی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چرن کی ماں کون ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہانی آ گے بڑھتی ہے جب کچھ سال پہلے برنداون آسام کے ایک جنگل میں اپنے دوست کے ہمراہ شکار کھیلنے گیا ہے۔ جنگل بہت گھنا اور آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ رات بسر کرنے کے لئے وہ ایک اجڑا ہوا گھر پاتے ہیں۔ دروازہ بند ہے، وہ دروازہ تھپتھپاتے ہیں تو ایک لڑکی ( شرمیلا ٹیگور) دروازہ کھولتی ہے اور اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس اجاڑ ویرانے میں یوں دو اجنبی مردوں کو اچانک اپنی دہلیز پر کھڑا دیکھتی ہے۔

دونوں مرد اپنی مجبوری بتاتے ہوئے اس سے ایک رات بسر کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس لڑکی کا نام لکھی ہے وہ اس کھنڈر میں اپنی اندھی دادی ( پرتہما دیوی) جو ایک تپ دق کی مریضہ اور زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے کے ہمراہ رہ رہی ہے۔ دادی کو جو گھر میں زندگی کے آثار محسوس ہوتے ہیں تو اس پر کھانسی کا دورہ پڑتا ہے وہ لکھی کو پکارنے لگتی ہے۔ لکھی دادی کے لئے پانی کا گلاس بڑھاتی ہے تو وہ اسے کہتی ہے کہ وہ اتنی دیر کیوں کر دیتی ہے، وہ کہاں تھی، کیا بابو آ گیا ہے؟

بابو کی امید پر دادی زندہ ہے جس سے لکھی کی سگائی ہوئی ہے۔ بابو اس ویرانے کو چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہر چلا گیا ہے جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آنے والا۔ دادی ہر آہٹ پر بول اٹھتی ہے ”بابو تو آ گیا؟“ یہ ایک سمبالک مکالمہ ہے۔ لکھی صحن میں مہمانوں کے کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہوتی ہے کہ دادی پر کھانسی کا ایک شدید دورہ پڑتا ہے۔ برنداون سے رہا نہیں جاتا اور وہ لپک کے اس کوٹھڑی کی طرف بڑھتا ہے جہاں دادی پڑی کھانس رہی ہے۔

جیسے ہی برنداون دادی کو بٹھانے کے لئے اپنا بازو اس کی پیٹھ کے نیچے سے نکالتا ہے تو دادی بابو تو آ گیا، تو آ گیا، میں نہ کہتی تھی لکھی کہ بابو ایک دن ضرور آئے گا کی گردان شروع کر دیتی ہے۔ دادی کو شانت کرنے کے لئے برنداون کہتا ہے کہ ہاں وہ آ گیا ہے اور اب لکھی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا، ایسا کرنے سے دادی گہری نیند سو جاتی ہے۔ اسے سوتا چھوڑ کر ڈاکٹر واپس برآمدے میں لگے اپنے بستر پر آ کر سو جاتا ہے۔

جب صبح ہوتی ہے تو لکھی انہیں بتاتی ہے کہ دادی رات کو نیند میں ہی بھگوان کو پیاری ہو گئی۔ دونوں دوست افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت لیتے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر برنداون کے دوست کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنا بٹوا تو وہیں بھول آیا ہے۔ برنداون اسے کہتا ہے کہ رہنے دے اس میں جو پیسے ہوں گے وہ لکھی کے کچھ دن کام آ جائیں گے۔ وہ کہتا ہے کہ اس بٹوے میں پیسے کہ علاوہ چند اہم کاغذات بھی ہیں جو پیچھے چھوڑے نہیں جا سکتے۔

دونوں پلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ گھر کے دروازے کے کواڑ کھلے ہیں اور گھر پر مکمل ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ برنداون کا دوست اس پلنگ کی طرف لپکتا ہے جہاں وہ سویا تھا، تکیہ اٹھاتا ہے تو نیچے سے اس کا بٹوا پیسوں اور کاغذات کے ساتھ صحیح و سالم برآمد ہوتا ہے۔ ایسے میں کیسی پیتل کے برتن کے فرش پر گرنے کی آواز آتی ہے تو برنداون فکرمند ہو کر اس جانب بھاگتا ہے۔ اس بستر پر جہاں دادی پڑی رہتی تھی وہ دیکھتا ہے کہ لکھی بے ہوش پڑی ہے، اس کے منہ سے زہر پینے کے کارن کف نکل رہا ہے اور فرش پر ایک پیتل کا گلاس گرا ہوا ہے۔

برنداون لکھی کو موت کے منہ سے بچاتا ہے۔ جب وہ ہوش میں آتی ہے تو روتے ہوئے کہتی ہے کہ اسے کیوں بچایا، اسے بھی دادی کی طرح مر جانے دیا گیا ہوتا۔ وہ دادی کی طرح اپنی تمام عمر اس ویرانے میں بابو کے انتظار میں نہیں بتانا چاہتی۔ الغرض اس بات پر سے پردہ اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر برنداون اسے اپنے ہمراہ شہر لے گیا، اس سے بیاہ رچا لیا اور چرن اسی کا لڑکا ہے اور اب لکھی بھی اس دنیا میں نہیں رہی۔ کسم اور اس کی سہیلی منو کا پنگھٹ پر جاتے، راہ چلتے اگر کبھی ڈاکٹر اور چرن سے ٹاکرا ہو جاتا تو منو ڈاکٹر برنداون سے چرن کو کسم کے لئے دن کے چند پہر کے لئے مانگ لیتی۔ اس طرح چرن کسم کے قریب آنا شروع ہو گیا۔ منو کا منگیتر برجو ڈاکٹر کے کلینک میں کمپاؤڈر ہے اور ایک طرح سے برنداون کا دست راست ہے۔

اپنے بیٹے کی اس بات پر کہ کسم نے آج تک شادی نہیں کی ایک دن ڈاکٹر کی ماں کسم کے بھائی کنج کو طریقے سے اپنے گھر بلاتی ہے اور اسے بہت محبت اور خلوص سے پیش آتی ہے اور اس سے اس کی شادی اور بال بچوں کے بارے میں کریدتی ہے، کنج بڑی بے ساختگی سے کہتا ہے کہ جب تک کسم گھر بیٹھی ہے وہ کیسے اپنا بیاہ رچا سکتا ہے تو برنداون کی ماں کہتی ہے کہ کب تک یونہی وہ بہن کو بن بیاہے گھر بٹھائے رکھے گا۔ کنج ان کو اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دے دیتا ہے۔

گھر آ کر کنج کسم سے اس ملاقات کا تذکرہ کرتا ہے۔ کسم کنج پر سخت برہم ہوتی ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ برنداون کی ماں نے اسے بن بیاہی کہہ کر کنج کو اس کے بیاہنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ کنج کو کھری کھری سناتی ہے۔ اگلے دن صبح سویرے بنا کچھ کھائے پیے کنج پھیری پر چلا جاتا ہے۔ دن چڑھتے ہی کسم دیکھتی ہے کہ دروازے پر ڈاکٹر برنداون، اس کی ماں اور چرن کھڑے ہیں۔ وہ انہیں یوں اچانک دیکھ کر ہڑبڑا جاتی ہے۔ رات کو غصے میں جب وہ کنج پر برس رہی تھی تو کنج اسے مہمانوں کے آنے سے متعلق بتا ہی نہ پایا۔

وہ رسوئی میں آ کر اناج اور چاول کے کنستر کھولتی ہے تو وہ خالی ملتے ہیں۔ وہ برآمدے میں کھیلتے چرن کو آواز دے کر اپنے پاس بلاتی ہے اور اس سے اپنے باپ کو بلوانے کا کہتی ہے۔ برنداون جب آتا ہے تو کسم شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بازار سے کچھ ترکاری اور سودا سلف لانے کا کہتی ہے تا کہ کھانا بنا سکے۔ سب کچھ احسن طریقے سے تکمیل تک پہنچ جاتا ہے جاتے ہوئے برنداون کی ماں شگن کے کڑے کسم کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہتی جاتی ہے کہ باقی باتیں وہ کنج سے طے کر لے گی۔

کسم کو یہ انداز ناگوار لگتا ہے شام کو جب کنج گھر آتا ہے تو دن بھر کا قصہ سنانے کے بعد اسے شگن کے کڑے دیتے ہوئے کہتی ہے کہ اگلے روز جب وہ پھیری پر جائے تو بادل گاؤں سے ہوتا برنداون کی ماں کو ان کے کڑے لوٹاتا جائے جو وہ کھانے سے پہلے ہات منہ دھونے کے واسطے اتار کر جاتے وقت واپس پہننا بھول گئیں تھی۔ برنداون کی ماں کو جب یہ کڑے واپس ملتے ہیں تو اس کے مان کو شدید ٹھیس لگتی ہے اور وہ اب ارادہ کر لیتی ہے کہ اپنے لڑکے کے لئے ایک اونچے خاندان کی لڑکی بیاہ کر لائے گی۔ اسی دوران گاؤں میں طاعون پھیلنا شروع ہو گیا ہے جس کے باعث موت کے خوف سے لوگ گاؤں چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔

اس کے بعد کہانی میں کیا موڑ آتا ہے اس کو جاننے کے لئے آپ اس فلم کو یوٹیوب پر دیکھیے۔

گلزار بتاتے ہیں کہ جب فلم کی کاسٹنگ ہو رہی تھی اور موقع آیا کہ کون ”لکھی“ کا کردار ادا کرے گا تو میں نے شرمیلا ٹیگور کا نام تجویز کیا۔ جیتندر نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ کیا شرمیلا جی اتنا چھوٹا سا رول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی؟ میں نے کہا میں بات کر کے دیکھتا ہوں اور پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ اسی سب پلاٹ کے بطن سے آنے والے سالوں میں گلزار کی ایک اور کلاسک فلم ”نمکین“ نے جنم لیا۔ جس کا مرکزی کردار شرمیلا ٹیگور نے ہی ادا کیا تھا۔

گلزار بتاتے ہیں کہ جب یہ فلم بننی شروع ہوئی تو وہ جیتندر کے چاکلیٹ ہیرو اور جمپنگ جیک کے امیج کا دور دورہ تھا اور لڑکیاں جیتندر پر دیوانہ وار مرتی تھیں۔ فلم کی کہانی چونکہ لارجر دین لائف نہیں تھی اس لئے تمام سٹار کاسٹ کو نہایت واجبی سا میک اپ کرنا او دیہاتی ماحول کے مطابق کاٹن کی ساڑھیاں اور لنگھیاں پہنتی تھیں۔ گلزار نے جیتندر کو بتایا کہ وہ چونکہ ڈاکٹر کا کردار نبھا رہا ہے لہذا اسے باریک مونچھیں اور موٹے فریم والا نظر کا چشمہ پہننا ہو گا۔

موٹے فریم کے چشمے کا سن کر جیتندر نے دوڑ لگا دی اور کہا کہ ایسے گیٹ اپ میں دیکھ کر تو اس کی فیمیل فینز اس سے بھاگ جائیں گی۔ میں نے اس کو قائل کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خوشبو کے گیٹ اپ میں گلزار نے اپنی لک جیتندر میں سموئی تھی۔ کسی حد تک یہ درست بھی لگتا ہے اگر ستر کی دہائی کے گلزار کو برنداون کے گیٹ اپ میں دیکھا جائے تو دونوں میں کافی مشابہت ملے گی۔

فلم کیریکٹر ڈریون سے زیادہ ایوینٹ ڈریون کہانی پر مبنی تھی۔ وقت کی سطح پر نمودار ہونے والے واقعات کے ہاتھ میں کرداروں کی زندگی کی ڈوریاں تھیں۔

ایک مرتبہ اداکارہ تبو نے اپنے ایک انٹرویو میں اپنے پسندیدہ سین کے بارے میں بتایا تھا کہ فلم خوشبو کا وہ سین جس میں فریدہ جلال کی رخصتی ہو رہی ہے اور ہیما ملنی وہ تمام کلمات کہتی ہے جو فلم کے آخر میں اس کی اپنی رخصتی کے وقت سوپر امپوز ہوتے ہیں۔

اس خوبصورت فلم کے ذریعے گلزار نے رشتوں کے درمیان پائے جانے والے جذباتی عدم توازن کے عنصر کو رشتوں پر اثرانداز ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ہر رشتہ جہاں توجہ کا طالب ہے وہیں اس کی زندگی کے لئے اس کی توقیر اور عزت نفس بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔

میں غالباً چھٹی جماعت میں تھا جب میں نے پہلی بار اس فلم کو دور درشن سے دیکھا تھا۔ فلم جوں جوں اپنے کلائمیکس کی جانب بڑھ رہی تھی توں توں میرے دل کی اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔

آخری سین میں صبح کے وقت جب برنداون کسم کے گھر سے نکل رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ کسم دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی ہے۔ برنداون اس سے کہتا ہے کہ ایک بار اس کا دل پھر کسم کو اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ہے لیکن وہ ڈرتا ہے کہ کسم پہلے کی طرح پھر انکار نہ کر دے۔ برنداون جاننا چاہتا ہے کہ اس میں آخر کس بات کی کمی ہے جو ہر بار کسم کے انکار پر ختم ہوتی ہے؟ کسم کہتی ہے کہ اس میں ادھیکار کی کمی ہے، کہ جس ادھیکار سے وہ برنداون کو روک لیتی ہے، جس ادھیکار سے وہ اس کے چار سالہ چرن کو اپنے پاس رکھ لیتی ہے وہ ادھیکار نہیں دیکھ پاتی برنداون میں، ورنہ نہ کہنے والی وہ کون ہوتی ہے۔

جس ادھیکار سے وہ یہ سب کچھ کہتی ہے اسی ادھیکار سے برنداون کیوں نہیں کسم کا ہاتھ تھام کر اس اپنے ساتھ لے جاتا، کیوں ہر بار اس کی ضد مانتا اور ہٹ سنتا ہے، وہ اپنے ادھیکار سے کیوں نہیں کسم کا اہنکار چور کر دیتا۔ (یہاں ادھیکار سے مراد حق ہے، جس کو انگریزی زبان میں رائٹ کہا جاتا ہے ) ۔ اس دوران چار سالہ چرن آتا ہے اور سیندور کی ڈبیا باپ کو دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایسے نہیں جائے گی یہ رنگ بالوں میں ڈال دو تب جائے گی، اور یوں کسم مانگ میں سیندور بھر جانے کے بعد برنداون کے چرنوں کو چھو کر کو اس کو ہندو روایت کے مطابق سجدہ کرتی ہے۔ (بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار لگے لیکن کسم کا یوں اپنے پتی کو سجدہ کرنا میری نظر میں کو بہت بلند کر گیا۔ )

میرے سینے میں سسکیوں کا ابال اٹھ رہا تھا جب کسم کا بھائی اسے کہتا ہے کہ ”اس بار مڑ کہ نہ دیکھ بہن، اب اس آنگن کو پرایا کر دے، جا اپنے پتی کے ساتھ چلی جا۔“ کسم اپنے ساڑھی کے پلو سے گھر کی چابیوں کا گچھا کھولتی ہے اور ہم سکرین پر اس کی آواز سنتے ہیں۔ ”جس آنگن میں کھیلی تھی، جس آنگن میں پلی تھی وہ تیرا تھا بابل میرا نہیں۔ جو کھایا تھا وہ لوٹا کر جا رہی ہوں۔ اس گھر کا اب کوئی قرضہ میرے ساتھ نہیں، اس گھر کے لئے میں آج سے پرائی ہو گئی“ ۔ اس کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ کسم چابیوں کا گچھا اپنا ہاتھ پیچھے کر کے گھر کے آنگن میں پھینکتی ہے۔ میں کروٹ کی اوٹ لئے ہوئے یہ اختتام دیکھ رہا تھا اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر کے تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).