برصغیر میں سامراجیت کی لاشعوری یا شعوری پذیرائی


تاریخ میں اس بات کا حتمی سراغ پانا مشکل ہے کہ طاقتور انسان کے کمزور انسان پر قابو پانے کی روایت کتنی قدیم ہے۔ شاید یہ ایک حیوانی جبلت ہے جو انسان میں روز ازل سے موجود ہے۔ اکثر علما نے طاقتور کے کمزور پر غالب آنے کے عمل کو سامراجیت (Imperialism) کی اصطلاح سے متعارف کروایا ہے۔ بادشاہت، شہنشاہیت، ریاستیں اور مذہبی اشرافیہ بھی کمزور پر طاقتور کے غالب آنے کی مثالیں ہیں۔ نوآبادیات (Colonialism) کی اصطلاح بھی سامراجیت کی طرح زیر دست پر زبردست کی بالا دستی کی تشریح کے لئے استعمال ہوتی ہے۔

سامراجیت اور نوآبادیات بہت سی خصوصیات کی بنا پر ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ ان دونوں اصطلاحات کا تعلق مقبوضہ علاقوں یا مقبوضہ اقوام کے سیاسی، معاشی اور مذہبی معاملات سے ہے۔ نوآبادیات کی اصطلاح لاطینی لفظ کو لونس (Colonus) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب مویشی پالنے والے یا کاشت کاری کرنے والے کسان ہیں۔ اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسان اپنے مویشیوں سمیت جب کسی نئے علاقے میں وارد ہوں تو وہاں کے مقامی باشندوں کی مدد، تعاون اور اتحاد (اکثر اوقات طاقت کے بل پر ) کے ذریعے معیشت کی بڑھوتی پر توجہ دیں جو ان کے آبائی علاقے کی معیشت کو استحکام عطا کرسکے۔

سامراج کی اصطلاح لاطینی لفظ ایمپیریم (Imperium) سے نکلی ہے، جس کا مطلب ایک طاقتور کا کمزور پر اظہار حاکمیت ہے۔ قدیم تاریخ کے صفحات پلٹنے سے یونان و فارس و روم کی حکومتیں سامراجی طاقتوں کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ ان طاقتوں نے اپنی جغرافیائی حدود سے نکل کر کمزور قوموں کو اپنا مطیع اور باج گزار بنایا تھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ابتدائے اسلام میں روم اور فارس بڑی سامراجی طاقتیں تھیں، لیکن اس زمانے میں پھیلنے والے جسٹینین طاعون (Plague of Justinian) نے ساسانی ایمپائر اور رومن ایمپائر کو مفلوج کر دیا تھا۔

ان سامراجی طاقتوں کی افواج ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے سے قاصر تھیں۔ عرب کے ریگزاروں میں بکھرے ہوئے بدو قبائل کے اتحاد کی طاقت کے سامنے بازنطینی سلطنت ڈھیر ہو گئی تھی۔ صحرا سے نکلنے والے بدوؤں کو پہلی بار مہذب اور منظم ریاست کا سامنا ہوا تھا۔ عرب حملہ آوروں نے مفتوح تعلیم و تربیت یافتہ بازنطینیوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک جدید اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ اب مسلمانوں کو ایک تجربہ کار نوکر شاہی میسر آ گئی تھی۔

اس سامراجی نوکر شاہی نے جہاں اس ریاست کو ٹیکس اور پولیس جیسے محکموں سے روشناس کروایا وہاں اس نوکر شاہی سے عربوں نے سامراجیت کے سبق بھی سیکھ لیے۔ نوآبادیات کی اصطلاح زیادہ پرانی نہیں، یہ اس وقت متعارف ہوئی جب ہسپانویوں نے امریکہ پر غلبہ حاصل کرنا شروع کیا۔ امریکہ پر ہسپانوی غلبے کے عمل میں مذہب کے کردار پر بہت مباحث ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کلیسا اس نوآبادی غلبے کا حامی تھا۔ مذہبی رہنماؤں کو اس بات کی خوشی تھی کہ نئی سرزمین پر آباد لامذہب لوگوں کو عیسائی بنا کر وہ خدا کی راہ میں سرخ رو ہوں گے۔

چنانچہ کلیسا سے وابستہ رہنماؤں نے قبضے کے دوران مقامی افراد کے قتل عام سے نظریں چرا لی تھیں۔ رومن سامراج بھی اپنے پھیلاؤ کے دوران عیسائی مذہب اختیار کرچکا تھا۔ لیکن اس سامراج نے پھیلاؤ کے لئے مذہب کا استعمال نہیں کیا تھا۔ سامراجیت کی تاریخ میں شاید عربوں نے مذہب کا استحصال کھل کر کیا۔ مذہبی رہنماؤں نے کفار و مشرکین کو مذہب کی جانب راغب کرنے کے لئے ریاست کی جانب سے کی جانے والی کشور کشائی کی کھل کر حمایت کی اور انہیں اخلاقی اور مذہبی جواز فراہم کیا۔

کچھ ہی عرصے بعد یورپ نے بھی کشور کشائی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کا استحصال شروع کر دیا جو صلیبی جنگوں کی صورت میں سامنے آیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ نوآبادیات کے عروج کے زمانے میں بہت سے ادیبوں اور مفکروں نے بھی نوآبادیات کا ساتھ دیا۔ البرٹ کامیو نے ایک طرف تو الجزائر کی آزادی کے لئے گیت لکھے تھے، دوسری طرف وہ الجزائر کو فرانسیسی نوآبادیات کے ماتحت ہی دیکھنا پسند کرتے تھے۔ مشہور ادیب ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ بھی عیسائی شریعت کے نفاذ کے سخت حامی تھے۔ وقت نے پلٹنا شروع کیا اور نوآبادیات کا جبر سہنے والے ممالک سے نوآبادیات کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ مقبوضہ ممالک کے ادیبوں اور مفکرین نے نوآبادیاتی جبر کے خلاف قلم اٹھایا۔ گبریل مارکیز گارشیا، اکتاویرز، نوآبادیات کے خلاف توانا آوازیں تھیں۔ چلی کے شاعر پابلو نرودا کی شاعری نوآبادیات کے خلاف بہت موثر آوازوں میں سے ایک تھی۔

سیاست نے نوآبادیات میں ”میرا سامراج اور تمہارا سامراج“ جیسے تضادات بھی پیدا کیے۔ سوویت یونین کے زیر اثر اسکالرز اور ادیبوں نے امریکہ کو سامراجی طاقت کہنے میں زور لگایا اور امریکہ کے زیر اثر مفکرین نے سوویت یونین کو سامراج کا خطاب دیا۔ دراصل ان دونوں ریاستوں کی پالیسیاں سامراجیت کی طرف جھکاؤ رکھتی تھیں۔ اردو کے سکہ بند ترقی پسند دانشور و ادیب علی سردار جعفری اور فیض احمد فیض نے ہنگری اور چیکو سلواکیہ پر روسی ٹینکوں کی یلغار پر کوئی مذمتی بیان یا ردعمل جاری نہیں کیا تھا۔

وہ مغرب جہاں نوآبادیات کی حمایت میں ”The white Man ’s Burden“ جیسی نظم لکھی گئی تھی اور نوآبادیاتی علاقوں کو سفید فارم اقوام پر تہذیبی و ثقافتی بوجھ گردانا گیا تھا وہیں سے وجودیت کی تحریک نے جنم لیا۔ سارتر اور فانن جسے اسکالرز کے خیالات نے نوآبادیات کے در و بام لرزا ڈالے۔ زمانے نے وہ وقت بھی دیکھا کہ مہذب دنیا نے ہسپانوی نوآبادیت کو امریکہ کا راستہ سجھانے والے کرسٹوفر کولمبس کے بتوں کو مسمار کر کے نوآبادیات کی اس علامت کو اپنے شہروں سے مٹانا شروع کر دیا۔

جدید دور کا ایک اور ابھرتا ہوا سامراج نازی ازم کا نظریہ تھا جس کا علم ایڈولف ہٹلر نے بلند کیا تھا۔ ہٹلر کے بارہ سالہ سحر انگیز اقتدار نے بہت سی نوآبادیاتی طاقتوں کو زیر کر ڈالا تھا۔ جب اس ابھرتے ہوئے سامراج کو شکست ہوئی تو جرمن قوم نے اجتماعی طور پر اس سامراج کو رد کر کے جمہوریت کے راستے کو اپنایا۔ عرب سامراجیت اور ترک سامراجیت مسلمانوں کی تاریخ کے اہم ابواب ہیں۔ برصغیر کے مسلمان، عرب اور ترک کشور کشائی کو سامراجی رویہ سمجھنے پر تیار نہیں ہیں۔

پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال جو بالعموم پاک و ہند میں مسلمانوں کی مشترکہ آواز سمجھے جاتے ہیں، نے اپنی شاعری میں ایک آزاد ہسپانوی قوم پر مراکشی مسلمانوں کے قبضے کو سراہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت اسپین پر مراکشی مسلمانوں کے قبضے کو جائز سمجھتی ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال نے اپنی پین اسلامک ازم کے جذبات کے تحت عرب سامراجیت کی کشور کشائی کی کھل کر حمایت، تعریف اور توصیف فرمائی ہے :

”دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے ”

کیا ہم بالغ نظری اور وسیع القلبی سے اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ ہر سامراج کے اپنے اپنے بحر ظلمات ہوا کرتے ہیں جن میں وہ بے دریغ گھوڑے دوڑاتا چلا جاتا ہے؟ اس کی ایک قدرے غیر منظم لیکن ظالم ترین مثال منگول سلطنت ہے۔

ترک سامراجیت سے برصغیر کے مسلمانوں کو اتنا لگاؤ ہے کہ ترک تو خلافت سے دست بردار ہو گئے لیکن پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان خلافت کی بحالی کے خواب ابھی تک آنکھوں میں سجائے پھر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ترک جنگجو پر بنی ٹی وی سیریل ارطغرل نے نوجوانوں کے دل پھر سے گرمائے ہوئے ہیں۔

بنی امیہ کے سندھ پر قبضے کو تیرہ سو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس خطے کے لوگوں کی اکثریت ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سندھ پر قبضہ ایک سامراجی عمل تھا۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت ایک بیرونی حملہ آور کو تقدس عطا کر رہی ہے۔ غور کیجئے کہ جرمن قوم نے کتنی جلدی اپنے غلط طرز فکر پر نظر ثانی کر کے اسے سدھار لیا! آخر ہم کیوں اس بات کو سمجھنے پر تیار نہیں کہ ہماری زمین پر حملہ آور ہو کر ہماری باگ ڈور کوسوں دور دمشق کی خلافت کو تھما دینے والا ہمارا ہیرو کیونکر ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).