پاکستان کی پولیس کب غیر سیاسی ہو گی؟


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے چند روز پہلے موٹر وے ریپ کیس کے حوالے سے پیدا ہونے والی بے چینی وخوف کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس کو پروفیشنل بنانے اور اس کے نظام میں سیاسی مداخلت ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے محفوظ کئے بغیر عام شہریوں کی حفاظت ممکن نہیں ہوگی۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک سرکاری اہلکار ساجد گوندل اغوا کیس کی سماعت کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’ کیاوزیر اعظم جانتے ہیں کہ شہر میں کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا کسی شخص کے واپس آنے سے مقدمہ ختم ہوگیا اور جرم کا سراغ نہیں لگایا جائے گا؟‘

جسٹس گلزار احمد کی تجویز اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اٹھائے ہوئے سوال یکساں طور سے اہم ہیں لیکن صورت حال کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں جنسی بربریت کا شکار ہونے والی خاتون کو ’مورد الزام‘ ٹھہرانے والا پولیس افسر عمر شیخ نہ صرف بڑی شان سے اپنے عہدے پر قائم ہے بلکہ اسی مقدمہ کی تفتیش پر بھی مامور ہے۔ ایک طرف اس افسوسناک سانحہ کے حوالے سے یہ مباحث کئے جارہے ہیں کہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا اور اس ادارے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کی کارکردگی بہتر ہو اور وہ دیرینہ ظالمانہ ہتھکنڈوں کو ترک کرے۔ دوسری طرف اس جرم میں مطلوب ایک ملزم کی تلاش میں پنجاب پولیس اس قدر بد حواس ہے کہ کبھی وہ ملزم کی بجائے اس کی بیٹی کو اٹھا لاتی ہے اور کبھی ملزم کے والدین اور اہلیہ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

 پولیس کے یہ سارے ہتھکنڈے اسی نوآبادیاتی نظام کی یاد گار ہیں ، جس کی برائیاں گنواتے ہوئے وزیر اعظم نے آج ہری پور میں بتایا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اہل پاکستان کا خود پر اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ وہ تحقیق وجستجو اور ایجادات کی بجائے نقالی کرکے مطمئن اور خوش ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ان سماجی علتوں سے نجات حاصل کرے گی۔ کیا وزیر اعظم سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اس سلسلہ میں ان کا پہلا اہم قدم کیا ہوگا؟ کیا پولیس نظام میں اصلاحات اور اس ادارے کو خود مختار بنانا ایک ایسی حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست نہیں ہونا چاہئے جو تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے تھی۔ تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں جن وعدوں کو نمایاں طور سے پیش کیا گیا تھا ، ان میں پولیس اصلاحات سب سے اوپر تھیں۔

بدقسمتی سے عملی صورت حال یہ ہے کہ لاہور پولیس کے نگران عمر شیخ کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد اسد عمر جیسا بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ وفاقی وزیر ایک قومی ٹیلیویژن پروگرام میں پوچھتاہے کہ ’انہوں نے کوئی قانون شکنی تو نہیں کی تو عمر شیخ کو کس بات کی سزا دی جائے‘۔ اور صوبے کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار عمر شیخ کے بیان کو ’غیر ضروری ‘ قرار دینے سے زیادہ کچھ کہنے سے قاصر رہتاہے۔ اور وزیر اعظم کے مشیر داخلہ اس افسر کو ساتھ کھڑا کرکے ان کی خوبیاں گنوانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ عمران خان اپنی سیاسی مجبوری کی وجہ سے عثمان بزدار اور محمود خان جیسے وزرائے اعلیٰ کی سرپرستی پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل فہم ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مشیروں و معاونین خصوصی کی دوہری قومیت کے سوال پر وضاحتیں دینے اور اسے جائز کہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ایک شہر کی پولیس کے سربراہ کو ملک کے باختیار وزیر اعظم کی سرپرستی حاصل ہو۔ اول تو ایک صوبے کے دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ سے ملک کے وزیر اعظم کا کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔ دوسرے کیا تحریک انصاف کی حکومتوں میں پولیس افسروں کی تقرری وزیر اعظم ہاؤس میں مشاورت کے مطابق کی جائے گی۔ اور ایک بار کسی افسر کو عمران خان کی تائید حاصل ہو گئی تو کابینہ میں شامل سب وزیروں مشیروں پر اس شخص کی مکمل حمایت کرنا لازم ہوگی؟

وزیر اعظم نہ جانے کس امید پر عمر شیخ کو لاہور لائے ہیں اور وہ ان سے کون سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ایک شہر کی پولیس کے نگران کی تقرری کے لئے نہ صرف پنجاب جیسے بڑے صوبے کے انسپکٹر جنرل سے مشورہ لینا مناسب نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کے احتجاج اور ایک ماتحت افسر کی طرف سے آئی جی کے بارے میں قابل اعتراض گفتگو کے باوجود کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر کو تبدیل کرنے کی بجائے 22 گریڈ میں کام کرنے والے آئی جی کو تبدیل کیا گیا اور وزیر اعظم کے ایک وفاشعار مشیر نے دعویٰ کیا کہ اگر ضرورت پڑی پانچ نہیں پانچ سو آئی جی تبدیل کریں گے۔ کیا پاکستانی سیاست میں یہ نیا لب و لہجہ ہے؟ ماضی میں پنجاب اسمبلی کے موجودہ اسپیکر جوش وفاداری میں سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو وردی میں دس بار صدر منتخب کروانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ تو اس بار تبدیل کیا ہؤا ہے؟ اگر موجودہ حکومت کے دو سال گزرنے کے بعد بھی پولیس تبادلوں تک کے بارے میں سرکاری پالیسی نہیں بدلی اور ان کے فیصلے بھی وزیر اعظم کو ہی کرنے ہیں تو باقی ماندہ تین برسوں میں کیا بدلاؤ آسکے گا؟

عمر شیخ کی تقرری کو بدستور سرکاری سرپرستی اور تحفظ فراہم کرنے کا جو مقصد سمجھا جاسکتا ہے، وہ اس پیغام سے یکسر مختلف ہے جس کا تقاضہ ملک کے چیف جسٹس حکومت اور وزیر اعظم سے کررہے ہیں۔ چیف جسٹس دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ جب تک سیاست دان پولیس نظام میں مداخلت بند نہیں کریں گے ، اس وقت تک پولیس کا نظام عوامی بہبود کا ادارہ نہیں بن سکتا۔ عمران خان قانون کے پابند اور اعلیٰ عدلیہ ااور اس کے ججوں کو عزت دینے والے سیاست دان اور وزیر اعظم کی شہرت رکھنا چاہتے ہیں۔ ان پر واجب ہے کہ وہ چیف جسٹس کے استفسار کا جواب دیں یا ان کی یہ ’غلط فہمی‘ دور کریں کہ ان کی نگرانی میں کام کرنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک پولیس کے اختیار کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں ۔ اسی لئے چن چن کر ایسے افسروں کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مستقبل قریب میں انہیں حکمرانوں کے سیاسی مفاد اور ضرورتوں کے لئے استعمال کیا جاسکے۔

حکمران جب پولیس افسروں کو اپنے مقاصد کے لئے آلہ کار بنائیں گے تو وہ لامحالہ خود کو قانون سے بالا سمجھیں گے اور قانون کو موم کی ناک بنائیں گے۔ اس عمل میں وہ اگر حکومت کو ایک فائدہ پہنچائیں گے تو اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے دس غلط اقدام کریں گے۔ یہی طریقہ اس بدعنوانی کو مضبوط کرنے کا سبب بنتا ہے جس سے اس ملک کا عام شہری نالاں ہے۔ عمران خان بڑے سیاسی لیڈروں کی جس کرپشن کو سامنے لاکر قوم کے سارے مسئلے حل کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی ویسی ہی سیاسی ضرورت ہے جیسے من پسند پولیس افسروں کو اہم ذمہ داریاں دے کر ان سے اپوزیشن کے خلاف خدمات لینے کا عمل، عمران خان یا دیگر سیاسی لیڈروں کی ضرورت و مجبوری ہے۔ ان دونوں طریقوں کو اختیار کرکے ملک میں بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اسے ختم کرنے کے لئے چیف جسٹس کے مشورے پر عمل ضروری ہوگا یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بات پر غور کرنا ہوگا کہ پولیس کو شہریوں کی حفاظت کے لئے کیسےمؤثر طور سے استعمال کیا جائے۔

میڈیا میں چھا جانے والے اور سیاسی بیان بازی کا سبب بنے والے ایک سانحہ کی تحقیقات اور اس پر پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے سامنے آنے والی خبریں دردناک بھی ہیں اور ان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا دعویٰ کرنے والی پنجاب پولیس دراصل دہائیوں پرانے دباؤ، جبر اور ظلم کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے یا تو بے گناہوں کو کسی سنگین جرم میں دھر لیا جاتا ہے یا پھر ایسے مقدمے عدالتوں میں جاکر ملزموں کی رہائی کا سبب بنتے ہیں۔ ملک میں جبری آبرو ریزی کے ایسے درجنوں واقعات تلاش کئے جاسکتے ہیں جن میں ملزموں کو سزا نہیں ملی۔ اگر صرف موٹر وے ریپ کیس میں نامزد ملزم عابد علی کے پس منظر کے متعلق سامنے آنے والی معلومات کو ہی دیکھ لیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ سنگین جرائم میں ملوث لوگ کیسے سزا پانے سے محفوظ رہتے ہیں۔ پولیس جن کمزور بنیادوں پر یہ مقدمہ تیار کررہی ہے، اس کی روشنی میں عدالت پہنچنے تک پولیس اور حکومت کی ساری پھرتیاں بے سود ثابت ہوسکتی ہیں۔ یا پھر دباؤ کا ہی کوئی ہتھکنڈا استعمال کرتے ہوئے کسی ایک شخص کو سزا دینے کا اہتمام کرلیا جائے گا۔

اس وقت میڈیا اور سیاست دانوں کی ساری ہمدردیاں چونکہ مظلوم خاتون کے ساتھ ہیں، اس لئے کسی کو ملزم نامزد کئے گئے افراد کے اہل خانہ پر کئے جانے والے جبر پر سوال اٹھانے یا اعتراض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس آج میڈیا میں یہ خبر نمایاں طور سے پیش کی جاتی رہی کہ پولیس نے ملزم عابد علی کی بیوی کو پکڑ لیا ہے۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا ایک چور کی سزا اس کی بیوی کو دینے کا قانون منظور ہوگیا ہے؟ دنیا کا کون سا قانون یا اخلاقی ضابطہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والے کے اہل خانہ کو ان کے تمام شہری اور انسانی حقوق سے محروم کردیتا ہے؟ اس سے پہلے خود آئی جی پنجاب وزیر اعلیٰ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اسی ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش میں اس کی بیٹی کو پکڑنے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اس دوران عابد علی کے والدین کی گرفتاری کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔

پولیس ملزموں کو دباؤ میں لانے کے لئے ان کے بے گناہ اہل خاندان کو گرفتار کرتی ہے۔ یہ ہتھکنڈے خاص طور کسی معاملہ میں عوامی دلچسپی پیدا ہونے اور حکومت کے اصرار پر اختیار کئے جاتے ہیں۔ انصاف کی دہائی دینے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ پولیس کے ایسے ہی ہتھکنڈے موٹر وے سانحہ جیسے المیوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali