یوگی آدتیہ ناتھ: آگرہ سے شیوا جی اور مغلوں کا رشتہ کیا تھا؟


تاریخ ہمیں وراثت کا احساس دلاتی ہے اور حال کو دیکھنے کے لیے نقطہ نظر فراہم کرتی ہے۔

یہ واقعہ سنہ 1666 کا ہے۔ مغل حکمران اورنگزیب کا خیال تھا کہ ان کے ریاست دکن کی توسیع کے عزائم میں صرف مراٹھا ہی انھیں چیلنج کر سکتے ہیں۔ شہنشاہ اورنگزیب نے اپنے دور حکومت میں راجہ جئے سنگھ کو دکن پالیسی تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اسی وجہ سے اورنگ زیب نے ذاتی طور پر ناپسندیدگی کے باوجود راجہ جئے سنگھ کے کہنے پر شیوا جی کے ساتھ معاہدے پر اتفاق کیا۔

مغلوں کی دعوت پر شیوا جی اورنگزیب کے آگرہ دربار پہنچے۔

اُس وقت مغلوں کے دربار میں صرف شہنشاہ بیٹھا کرتے تھے اور دوسرے درباری کھڑے رہتے تھے۔ دربار کے ضابطے کے مطابق جس کو جتنا اعلیٰ منصب دیا جاتا اس کی حیثیت اتنی ہی زیادہ ہوتی اور مغل دربار میں اثر و رسوخ بھی اسی حساب سے۔

وہ اگلی صف میں کھڑے ہوتے تھے اور باقی کو پیچھے کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ منصب کا مطلب عام زبان میں ’درجہ‘ یا ’عہدہ‘ ہوتا ہے۔

جب شیوا جی اورنگزیب کے دربار پہنچے تو انھیں پانچ ہزار منصب داری والی صف میں کھڑا کیا گیا حالانکہ وہ سات ہزار والی منصب داری چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ ناراض ہو گئے۔ انھوں نے بھرے دربار میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ اور اس گستاخی پر اورنگزیب نے انھیں قید کروا دیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اورنگزیب واقعی ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟

جہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنی

یوگی کو تاج محل سے نفرت کیوں؟

شیوا جی کچھ مہینوں تک اُن کی قید میں رہے۔ اس بارے میں تاریخ میں کئی قصے مشہور ہیں کہ وہ قید سے کس طرح باہر آئے۔ کچھ کتابوں میں یہ درج ہے کہ ایک موقع پر جب جیل میں مٹھائیاں اور پھل تقسیم کیے جا رہے تھے تو وہ پھلوں کی ٹوکری میں بیٹھ کر قیدخانے سے باہر نکلے۔

ایسی ہی ایک کتاب امریکی تاریخ دان برٹن سٹین کی ہے۔ برٹن سٹین نے ہندوستان پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس واقعہ کا حوالہ ان کی کتاب ’اے ہسٹری آف انڈیا‘ میں بھی 178 ویں صفحے پر ملتا ہے۔ شیوا جی اپنی زندگی میں صرف ایک بار ہی آگرہ گئے تھے اور یہ کہانی اس وقت کی ہے۔

آج اس ساری کہانی کو بیان کرنے کی ایک وجہ ہے۔

یوگی، آگرہ اور تاج محل

اُتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو مراٹھا لیڈر چھترپتی شیوا جی مہاراج کی یاد آئی ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انھوں نے شیوا جی کو اپنا ہیرو بتایا ہے۔

انھوں نے رواں ہفتے یہ اعلان کیا کہ آگرہ میں زیر تعمیر میوزیم ’چھترپتی شیوا جی مہاراج‘ کے نام سے جانا جائے گا۔ صرف یہی نہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ نئے اُتر پردیش میں غلامی کی ذہنیت کی علامتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

آگرہ شہر اور مغلوں کی تاریخ

تاریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ آگرہ شہر کو سکندر لودھی نے 16 ویں صدی کے اوائل میں آباد کیا تھا۔ اس وقت جانب مغرب توسیع کی خواہش تھی اور اسی تناظر میں آگرہ کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس شہر کو شہنشاہ اکبر کے عہد میں حقیقی شہرت ملی۔

دہلی یونیورسٹی میں مغل تاریخ کی تعلیم دینے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ندیم شاہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مغل حکمرانی کا دور 16 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک کا سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 1526 کی پانی پت جنگ کے بعد مغل بادشاہ بابر نے شمالی ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے ہمایوں اور پھر ہمایوں کے بیٹے اکبر نے مغل حکومت کو بہت بلندیوں پر پہنچایا۔

سب سے پہلے مغلوں نے دہلی کو ہی اپنا دارالحکومت بنایا۔ پھر اکبر نے آگرہ کا انتخاب کیا۔ اکبر کے زمانے تک ہندوستان میں جتنے شہر تھے دنیا میں اتنے شہر نہیں تھے۔ انھوں نے آگرہ میں مشہور لال قلعہ بنوایا تھا۔ جبکہ بادشاہ بابر نے سب سے پہلے آگرہ میں باغ لگوایا تھا، جہاں فارس سے لائے گئے پھول اگائے گئے تھے۔

لیکن آگرہ میں پانی کی کافی قلت تھی۔ اکبر کے بعد مغل حکمراں جہانگیر کو آگرہ راس نہیں آیا اور ان کی دلچسپی لاہور میں زیادہ تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے دہلی کو ہی اپنے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔

پھر شاہجہاں کا دور آیا۔ انھوں نے دہلی میں ایک الگ جگہ ’شاہجہاں آباد‘ کا انتخاب کیا، جسے آج ہم پرانی دلی کے نام سے جانتے ہیں۔

اس سے قبل آگرہ میں مقبرے باغات کے ساتھ تعمیر کیے جاتے تھے اور ان میں بھی سرخ پتھر استعمال کیے گئے تھے، لیکن شاہجہاں نے تاج محل کو سفید پتھروں سے تعمیر کیا تاکہ دنیا میں خوبصورتی کی ایک الگ مثال قائم ہو۔

پروفیسر شاہ کے مطابق سنہ 1695 اور سنہ 1705 کے درمیان اورنگ زیب کے آخری وقت میں آگرہ معاشی طور پر کافی خوشحال تھا۔

لوگوں کی آمدنی، امن و امان، آبادی کے لحاظ سے آگرہ میں بہت خوشحالی تھی۔ اس وقت آگرہ ملک کے پانچ بڑے شہروں میں پہلے نمبر پر آتا تھا۔ ہندوستان سے یورپ جانے والے مسافر کہتے تھے کہ فتح پور سیکری اور آگرہ لندن اور پیرس سے بڑے شہر ہیں۔

آگرہ کی تاریخ کے بارے میں مشہور تاریخ دان پروفیسر ہربنس مکھیا کہتے ہیں کہ ’آگرہ پہلے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ اسے مغلوں نے بڑے پیمانے پر تعمیر کیا تھا۔ بابر سے شاہ جہاں تک نے اپنا دارالحکومت آگرہ رکھا تھا۔ آگرہ میں ہر پتھر پر مغلوں کی چھاپ ہے۔ مغلوں کو وہاں سے نکال پانا ناممکن ہے۔ دہلی سے زیادہ مغلوں کا آگرہ سے تعلق ہے۔‘

پروفیسر ہربنس مکھیا نے مغلوں کی تاریخ پر متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے ایک ’مغلز آف انڈیا‘ بھی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بابر اور ہمایوں باہر سے آئے تھے، اگر یہ مان بھی لیا جائے۔ لیکن اکبر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سب یہیں پیدا ہوئے تھے، وہ یہیں مرے۔ ایک بار بھی کسی نے ہندوستان سے باہر قدم نہیں رکھا۔ 18 ویں صدی میں مغلوں کا زوال شروع ہونے سے پہلے ہندوستان دنیا کا سب سے امیر ملک تھا، دنیا کی دولت کا ایک چوتھائی حصہ ہندوستان میں تھا۔ اور جب سنہ 1947 میں انگریز ہندوستان چھوڑ کر گئے تھے تو ہندوستان میں دنیا کی دولت کا صرف ایک فیصد بچا تھا۔‘

پروفیسر ندیم شاہ شیوا جی کا ایک دوسرا پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق آگرہ سے واپس آنے کے بعد بھی مراٹھوں نے مغلوں کی منصبداری قبول کی ہے۔ شیوا جی اور راجہ جئے سنگھ کے درمیان اس کے بعد بھی تعلقات رہے۔ شیواجی کے آباؤ اجداد کو شاہجہاں نے منصب دیے تھے۔ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصبدار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ شیواجی اور مغلوں کے درمیان اتنے بھی معاندانہ تعلقات نہیں تھے جتنے آج کل پیش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں تاریخ کو دیکھنے کے بھی مختلف نظریات ہیں۔

ہندوستانی تاریخ میں قرون وسطی کے دور کو دیکھنے کے مختلف نقطہ نظر رہے ہیں۔ ایک نظریہ بائیں بازو کے مؤرخین کا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرون وسطی کا دور بہت سے معاملات میں اہم تھا۔ بائیں بازو کے مؤرخین کا خیال ہے کہ قرون وسطی میں تیزی سے شہریت پروان چڑھی، فن تعمیر کی ترقی ہوئی اور مرکزی طرز کی حکمرانی کا فروغ ہوا۔

شیواجی، اورنگزیب کے بارے میں دوسرا نظریہ

جے این یو میں سینٹر فار ہسٹوریکل اسٹڈیز کے چیئرپرسن پروفیسر امیش کدم، ندیم شاہ اور ہربنس مکھیا سے بالکل مختلف رائے رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 1630 سے 1650 تک شیوا جی اپنی علیحدہ سلطنت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان کا دائرہ عمل دکن تھا اور ان کی پالیسی ’دکن، دکن والوں کے لیے‘ تھی۔ اسی وجہ سے وہ دکن میں کسی اور کی مداخلت نہیں چاہتے تھے۔ لیکن اورنگزیب کے سامراجی نظریہ میں شیوا جی سب سے بڑی رکاوٹ تھے، کیوں کہ شیوا جی نے دکن میں مغلوں کی توسیع روک دی تھی۔‘

بہمنی سلطنت زوال کے بعد پانچوں حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ان میں سے مغلوں نے پہلے نظام شاہی کو ختم کیا، پھر عادل شاہی کو ختم کیا، پھر قطب شاہی کو ختم کر دیا۔ صرف مراٹھا ہی ان کے ماتحت نہیں تھے۔ اب اورنگزیب بھی شیو جی کو اپنا منصبدار بنانا چاہتے تھے۔

پروفیسر کدم کا کہنا ہے کہ شیوا جی کے دادا مغلوں کے منصب دار نہیں تھے، بلکہ وہ نظام شاہی اور عادل شاہی کے منصب دار تھے۔ اس نے نظام شاہی کو مغلوں سے بچانے کی بھی بہت کوشش کی۔ اسی وقت سے مغلوں اور شیوا جی کے خاندان میں دشمنی شروع ہوئی۔

اورنگزیب نے مرہٹوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش میں راجہ جئے سنگھ کو فوج کے ساتھ دکن بھیجا۔ راجہ جئے سنگھ کو ابتدائی جیت ملی۔ شیوا جی مغلوں کے ساتھ معاہدے پر راضی ہو گئے۔

بی جے پی کے رہنما شیواجی کے مجسمے کے ساتھ

بی جے پی کے رہنما شیواجی کے مجسمے کے ساتھ

اس معاہدے کو پورندر معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پورندر پونے کے قریب ایک قلعے کا نام تھا۔ مغلوں نے پورندر کا قلعہ فتح کر لیا تھا۔ اس کی وجہ سے اس معاہدے کو پورندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم پروفیسر امیش کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر شیوا جی کے دستخط نہیں ہیں۔ راجہ جئے سنگھ نے شیوا جی سے معاہدے پر تبادلہ خیال کرنے آگرہ آنے کو کہا۔ آگرہ میں بھی اس کی عزت و وقار کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا تھا۔

پروفیسر امیش کے مطابق شیوا جی کو شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ کمزور ہو گئے تھے۔ انھوں نے راجہ جئے سنگھ کے سامنے کچھ شرائط رکھی تھیں۔ اورنگزیب نے انھیں اسی شرائط پر بات کرنے کے لیے دعوت بھیجی، لیکن یہ ایک دھوکہ تھا۔ اورنگزیب کا شیوا جی کو مارنے کا ارادہ تھا۔

بہرحال اس معاملے پر بھی تاریخ دانوں میں اختلاف رائے ہے۔ صرف ایک چیز جس پر تمام مورخین کی رائے ایک ہے، وہ یہ ہے کہ شیوا جی صرف ایک بار آگرہ گئے تھے۔

مورخ جے ایل مہتا کی کتاب ’ایڈوانسڈ سٹڈی ان دی ہسٹری آف میڈیول انڈیا‘ کے مطابق آگرہ چھوڑنے کے بعد مہاراشٹر میں شیوا جی کا شاندار استقبال ہوا۔

دکن کے علاقے میں شیوا جی کو مستحکم کرنے میں آگرے کے واقعے نے بڑا کردار ادا کیا۔ شیوا جی مغلوں کے خلاف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرے جو ان کا مقابلہ کر سکتی تھی اور انھیں للکار سکتی تھی اور اس سے اورنگزیب سخت پریشان ہوئے۔ جے ایل مہتا کو دائیں بازو کے مورخ کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔

اس خیال کے حامل مورخین کا خیال ہے کہ مغل حملہ آور تھے۔ انھوں نے ہندوستانی ثقافت، مذہب اور ہندوستان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مندر توڑے، ہزاروں خواتین کی عصمت لوٹی، اور لاکھوں لوگوں نے عزت بچانے کے لیے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

دائیں بازو کے مورخین کا خیال ہے کہ مغل دور حکومت میں کسانوں کی حالت کافی خراب تھی۔ ان کی حکمرانی کے تحت کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ مورخ ضیاالدین برنی نے بھی بتایا ہے کہ کسانوں کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ کسانوں کے تین درجے اور تینوں کی حالت خراب تھی۔

یوگی اور شواجی

سیاست سے متاثر بیان

یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان کا اب سیاسی معنی بھی نکالا جا رہا ہے۔

مہاراشٹرا کے سابق وزیر اعلی دیویندر فڈنوس نے یوگی آدتیہ ناتھ کے ٹویٹ پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جئے جیجاؤ، جئے شیوا رائے، چھتراپتی شیواجی مہاراج کی جئے!‘

ہندو تنظیم آر ایس ایس کے آل انڈیا کے شریک پرچار سربراہ نریندر کمار نے اس بہانے مغلوں کو نشانہ بنایا۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یوگی آدتیہ ناتھ کے آگرہ اور تاج محل سے متعلق تبصرے پر بات ہو رہی ہے۔

اس سے قبل سنہ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ تاج محل کے لیے سرخیوں میں تھے۔ تاج محل کا نام ان عمارتوں میں شامل نہیں تھا جس پر سنہ 2017 کے ریاست کے مذہبی اور ثقافتی بجٹ میں خرچ کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

اس وقت کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی یوگی حکومت کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی۔

یہی نہیں بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی۔ امریکہ کے معروف اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا، کیا ہندوستان میں تاج محل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ ایک مسلمان نے تعمیر کیا تھا؟

صرف یہی نہیں 2017 میں بہار کا دورہ کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ہندوستان آنے والے مہمانوں کو تاج محل یا دیگر میناروں کا نمونہ دینا ہندوستانی تہذیب کے موافق نہیں ہے۔ انھوں نے ‘گیتا’ اور ’رامائن‘ کو تحائف میں دینے کی وکالت کی تھی۔

پروفیسر ہربنس مکھیا کہتے ہیں کہ یہ سارا بیان سیاست سے متاثر ہے اور آج کی سیاست میں مسلمانوں کو دشمن بنا کر ہی رکھنا ہے۔ اسی لیے یہ سب کہا جا رہا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے جو لفظ ’غلامی‘ استعمال کیا ہے وہ درحقیقت مغلوں کے لیے نہیں بلکہ انگریزوں کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’ہندوستان کو انگریزوں نے غلام بنایا تھا، وہ یہاں آتے تھے، راج کرتے تھے، پانچ سال بعد وائسرائے تبدیل ہوتے تھے اور پھر وہی بات چلتی تھی۔ دراصل انگریزں نے ہمیں غلام بنایا تھا جن کے ساتھ ان (یوگی آدتیہ ناتھ اور آر ایس ایس) کی دوستی ہے۔‘

اپنی بات کو تفصیل سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں ’آر ایس ایس آزادی کی جدوجہد میں پوری طرح خاموش بیٹھی تھی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے۔ اس وقت آر ایس ایس کا کوئی ایسا شخص نہیں تھا جسے گرفتار کیا گیا تھا۔ سنہ 1942 میں جب گاندھی جی نے ہندوستان چھوڑیں تحریک کا نعرہ دیا تو بائیں بازو اور آر ایس ایس دونوں نے برطانوی حکومت کی حمایت کی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جنھوں نے غلام بنایا ان سے دوستی تھی اور مغلوں سے نفرت۔ یہ اگر سیاست نہیں تو پھر اور کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ آج تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ضرورت سیاست کو بدلنے کی ہے۔

آگرہ میوزیم کی کہانی

یوگی آدتیہ ناتھ جس میوزیم کے بارے میں بات کر رہے تھے اُس کا تعمیری منصوبہ اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے سنہ 2015 میں منظور کیا تھا۔ آگرہ میں تاج محل کے مشرقی دروازے کے قریب ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر میوزیم تیار کیا جائے گا۔

اس کے لیے تاج محل کے پاس تقریبا چھ ایکڑ اراضی دی گئی تھی اور اس میوزیم میں مغل تہذیب اور فن پاروں کی نمائش کی جانی تھی۔ پانچ سال گزر جانے کے باوجود اس منصوبے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔

تعمیر کا جائزہ لینے والے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ نے تعمیراتی کام کو تیز کرنے کی ہدایت دی اور نام تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ بھی سنا دیا۔

وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے حالیہ حکم کے بعد اب اس میوزیم میں نہ صرف مغل سلطنت کی تاریخ سے متعلق اشیا آئیں گی بلکہ میوزیم میں شیواجی کی تاریخ بھی محفوظ کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp