شورش کاشمیری طوائفوں کے بازار میں


\"aamir-hazarvi\"

اردو ادب کے مشہور ادیب اور صحافی شورش کاشمیری کا نام یقینا آپ نے سنا ہوگا ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے۔ ! اُس بازارمیں! شورش کی یہ کتاب کتاب نہیں بلکہ نوحہ ہے۔ یہ کتاب نہیں بلکہ آئینہ ہے۔ اس کتاب میں پڑھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

اس کتاب میں ادب کی چاشنیاں، طوائفوں کی رنگینیاں، حالات کی سنگینیاں اور جلدی جوان ہونے والوں کی کمینگیاں شامل ہیں۔ یہ کتاب فقیہ شہر کی خاموشی، اہل سیاست کی عیاشی اور جسم بیچنے والیوں کی معاشی حالت کو نمایاں کرتی ہے۔

آپ کو اِس کتاب میں دولت کی مستیاں، عزت کی پستیاں اور حکمرانوں کی خرمستیاں ملیں گی۔ آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو بے چین ہوجائیں گے۔ آپ کا زاویہ نگاہ بدل جائے گا۔ میں نے جب یہ کتاب پڑھی تو ہل کے رہ گیا طوائفوں کے متعلق نئی سوچ پیدا ہوئی۔ آہ کیسی کیسی لڑکیاں اس بازار کا رخ کیے ہوئے ہیں؟ شورش نے لکھ کر قلم کا حق ادا کیا ہے۔

میں نے چند چیزیں منتخب کی ہیں۔ آپ پڑھیں اور دیکھیں کہ کیسی کیسی لڑکیاں اس پیشے کو اپنائی ہوئی ہیں؟ ہمارے حکمرانوں نے کس طرح اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کیا ہے؟ جسم کی آگ بُجھانے کے لیے غریب کی بیٹی کو کس طرح مسلا ہے؟

شورش لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کی تاریکی میں خلیفہ ہارون الرشید نے ایک کنیز سے چھیڑ خانی کرنا چاہی تو کنیز نے ہارون الرشید کو صبح پر ٹال دیا۔ صبح ہوتے ہی ہارون نے کنیز کو بلا کے وعدہ ء شب یاد دلایا تو اس نے برجستہ کہا کلامُ اللیل یمحوہ النھار۔ اس جملے کا ترجمعہ چراغ حسن حسرت نے اردو میں کیا ہے

رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیے رات گئی بات گئی

ہارون جواب سن کے مسکرایا اور شاعروں کو گرہ لگانے کا کہا۔ کنیز کے اس جملے پر شعراء نے اپنا کلام لکھااور آج یہ جملہ ضربُ المثل بن چکا ہے یہ جملہ ایک لونڈی کی زبان سے نکلا اور ہر زبان پہ آگیا۔

\"noor-jahan\"

اسکے علاوہ شورش نے لکھا کہ ایک مرتبہ جہانگیر راستے سے گذر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کبوتروں کی جوڑی تھی سامنے سے حسن و جمال کی ملکہ نواب زین بہادر کی بیٹی گذر رہی تھی۔ خادمہ نے کہا کہ آپ کو بادشاہ سلامت یاد فرما رہے ہیں۔ جہانگیر نے کبوتروں کی جوڑی لڑکی کو دی اور کہا کہ اسے پکڑو میں آیا۔ تھوڑی دیر بعد جب جہانگیر واپس آیا تو صاحب جمال کے ہاتھوں میں ایک ہی کبوتر تھا۔ جہانگیر نے پوچھا دوسرا کبوتر کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا وہ تو اُڑ گیا ہے۔ جہانگیر نے پوچھا کیسے؟ تو لڑکی نے دوسرا کبوتر بھی چھوڑ دیا اور کہا! یوں! اس جواب کے بعد جہانگیر نے اس سے شادی کر لی۔

شورش جب بازارِ حسن گئے تو وہاں کئی لڑکیوں سے انٹرویو کیے، ایک سے سوال پوچھا کیا شادی کوتمھارا دل نہیں کرتا؟ اس نے جواب دیا کہ کیوں نہیں کرتا؟ اگر کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ مجھے عمر بھر یہ طعنہ نہیں دے گا کہ تم بازارِ حسن سے آئی ہو تو میں روکھی سوکھی کھا کے بھی گزارا کر لوں گی۔ شرط یہ ہے کہ طعنہ نہ ملے۔ کئی عورتیں یہاں سے گئی ہیں۔ لیکن جب انہیں طعنہ دیا جا تا ہے تو ان کی عورت مَر جاتی ہے اور طوائف جاگ اُٹھتی ہے۔ آخر کو یہیں چلی آتی ہے۔

شورش نے سوال کیا اگر تمہیں اس ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟ وہ مسکرائی اور جواب دیا کہ میں شراب، چرس، بھنگ، افیون اور دیگر نشے بند کر ڈالوں گی، اس لیے نہیں کہ یہ حرام ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے استعمال سے جوان جوان نہیں رہتا۔

طوائفوں کے متعلق شورش نے عجیب بات لکھی کہ عاشورہ کے موقع پر ان کے ہاں مجلس عزا منعقد ہوتی ہے۔ نوجوان ذاکر عزا خوانی کے لیے بلائے جاتے ہیں۔ طوائفیں سیاہ لباس پہنتی ہیں۔

ایک مرتبہ ہمیں بھی بلایا گیا تو میرے ساتھ ایک قاضی صاحب بھی تھے۔ قاضی صاحب مجلس عزا کے مخالف تھے، جب انہوں نے طوائفوں کی نائکہ ممتاز کو سیاہ لباس پہنے دیکھا تو کہا، ممتاز آج تو حسین کی باندی نظر آتی ہو؟ ممتاز کو معلوم تھا کہ قاضی مجلسِ عزا کو نہیں مانتا۔ اس نے جملہ ختم ہوتے ہی جواب دیا۔ جی ہاں۔ آپ بھی تو ابنِ زیاد نظر آرہے ہیں۔

طوائفوں کے بچوں کے متعلق لکھا کہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ بچوں کے موضوع پر باتیں ہورہی تھیں کہ نوکر بازار سے چائے لایا۔ پیالیاں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ شمشاد نے دکاندار کو لتاڑا کہ پیالیاں کیسی لائی ہیں؟ ممتاز نے بر جستہ جملہ بول کر محفل کو زعفرانِ زار بنا دیا اور کہا کہ آپ بلا وجہ بگڑتی ہیں؟ یہ بھی تو اپنے ہی بچے بچیاں ہیں۔

ممتاز کے متعلق لکھا کہ وہ مذاقاً کہا کرتی تھی کہ ا س کا پیشہ انقلابی پیشہ ہے۔ طوائف نے ہر دولت مند سے مزدور کی محنت کا انتقام لیا ہے۔ جو کچھ جاگیر دار مزارعوں سے لوٹتے رہے ہیں طوائف اس معاشی استحصال کا جنسی بدلہ لیتی رہی ہے۔ طوائف کے پیشے نے جاگیرداری نظام کی موت کے قریب لانے میں برابر کا حصہ لیا ہے۔

یہ ہے اک طوائف کی سوچ۔ ذہانت کی عمدہ ترین مثال۔

شورش نے مزید بھی کئی باتیں لکھی ہیں لیکن کالم کی تنگ دامنی اجاز ت نہیں دیتی کہ مزید لکھوں۔

کتاب کے آخر میں شہناز کے ناچ کے متعلق شورش کے قلم نے جو فضول خرچی کی ہے اسے پڑھیں۔

شورش جب ناچ کی محفل میں گیا تو لکھا کہ اس کا ناچ تیز ہوتا گیا۔ اس کی دھنیں پھیلتی گئیں۔ اس کے چہرے کا رنگ سرخ ہوتا گیا۔ اس کی ادائیں نکھرتی گئیں۔ اس کے پھول کھلتے گئے۔ اس کے شعلے ٹوٹتے گئے۔ اس کا روپ سوا ہوتا گیا۔ اس کی جوانی کا الاؤ بھڑکتا گیا۔ کبھی لہروں کی طرح بڑھی۔ کبھی بجلی کی طرح کوندی۔ کبھی پنکھڑی کی طرح سمٹی۔ کبھی خوشبو کی طرح پھیلی، کبھی مینا کی طرح چھلکی، کبھی ساغر کی طرح کھنکی، کبھی گلاب کی طرح مہکی، کبھی بلبل کی طرح چہکی، کبھی گھٹاؤں کی طرح اُٹھی، کبھی میکدے کو نکل گئی، کبھی بتکدے کو آگئی، کبھی آغوش بن گئی، کبھی اُمنگوں میں گھلنے لگی اور کبھی رنگوں کا پیکر بن گئی۔

لیکن جیسے جیسے وہ ناچتی گئی اس کا ہر زاویہ سوال بنتا گیا۔ فرشتوں کا زہر خند۔ قدرت کا نوحہ۔

وہ ناچ رہی تھی ہم دیکھ رہے تھے۔ وقت ناچ رہا تھا۔ ماحول ناچ رہا تھا۔ دل ناچ رہے تھے۔ دماغ ناچ رہا تھا۔ در و دیوار ناچ رہے تھے۔ چشم و گوش ناچ رہے تھے۔

الغرض فضا میں ناچ ہی ناچ تھا۔ لیکن یہ ناچ بکاؤ ناچ، سیاست کے ناچ سے کہیں بہتر تھا۔ سیاست کے ناچ میں کئی چیزیں ناچتی ہیں۔ قوم ناچتی ہے۔ ملک ناچتے ہیں۔ غیرت ناچتی ہے۔ حمیت ناچتی ہے۔ عقیدے ناچتے ہیں۔

اور ابھی پانچ سال پہلے ہزار ہا عصمتیں ناچ چکی ہیں۔ اور یہ ناچ صرف جسم کا ناچ تھا۔ بیو پار کا ناچ۔ لین دین کا ناچ۔ مرد کی جیب اور عورت کے جسم کا ناچ۔ جس کے ساتھ ضرب۔ تقسیم اور جمع کا کوئی کانٹا نہ تھا۔

یہ کتاب لکھنے کے بعد شورش کے خلاف طوفان بدتمیزی اٹھا تھا۔ شورش نے اعتراف کیا تھا کہ اس بازار سے صیح سلامت گذرنا آسان نہ تھا وہ لمحے جوانی کے لیے بڑے ہی سنگین ہوتے ہیں جب پہلو میں خوبصورت جسم ہو اور سامنے کھلا بستر۔ ادھر سیمیں بانہوں کے گجرے پکارتے ہوں۔ ادھر گھنی پلکوں کے بے آواز کنایے۔ ان ہوشربا لمحوں میں اگر کوئی شخص سلامت نکل آتا ہے تو یہ کہنا چاہیے کہ اس کی جوانی ابھی ادھوری ہے۔

شورش نے لکھا عام خیال یہ ہے کہ گناہ افلاس کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔ میرا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ خالی جیب نے گمراہ ہونے سے بچا لیا۔

جب شورش کی وضاحت نہ سنی گئی تو اس نے لکھا

صدائے منبر و محراب؟ اے خدا کی پناہ
کہ اس سے نغمہ چنگ و رباب بہتر ہے

حرم فروش فقیہوں کے حوض کوثر سے
مغنیہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے۔

شورش تو لکھ کر چلے گئے۔ کیا آج کچھ بدلا ہے یا نہیں سوچئیے گا ضرور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments