بیوی سے سچ بولنے والے فرشتے


انگریز بادشاہ تو ہیں ہی، بادشاہ فلمیں بھی بناتے ہیں۔ اپنی شادی سے کوئی دو تین ماہ پہلے Meet Joe Black دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ فلم ہے یا حیرتوں کا اک خزینہ ہے۔ کہانی کی ابتدا میں ملک الموت، ایک کام یاب تاجر بل پیرش کو انسانی قالب میں اپنا دیدار کرواتا ہے۔ ایک نوجوان جو سڑک کے حادثے میں ہلاک ہو جاتا ہے، اجل نے اس کا بدن اوڑھ رکھا ہے۔ مسٹر پیرش کو جینے کے واسطے پینسٹھویں یوم ولادت کی شب تک کی سانسیں ملتی ہیں۔ سال گرہ کے آنے میں چند روز باقی ہیں۔ تب تک بل پیرش کی ’قضا‘ اس کے ساتھ رہتے، یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ آدمی بن کر بسر کرنا کیسا تجربہ ہے۔ مسٹر بل پیرش کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ مسٹر جو بلیک در اصل فنا کا اوتار ہے۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے کہ مسٹر جو بلیک کو مسٹر پیرش کی بیٹی سوسن سے محبت ہو جاتی ہے۔ پریم کے بغیر بھی بھلا کوئی افسانہ مکمل ہوتا ہے!

تاجر بل پیرش کا کردار میرے پسندیدہ ترین اداکار انتھونی ہاپکن نے ادا کیا ہے اور مسٹر جو بلیک کے کردار میں دل کش شخصیت کے مالک بریڈ پٹ ہیں۔ مارٹن بریسٹ‌ ہدایت کار ہیں، وہ اس سے پہلے Beverly hills cop اور Scent of a woman جیسی فلموں کی ہدایات دے چکے ہیں۔ فلم کی کہانی کھولنا فلم بین کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ جس نے یہ مووی نہیں دیکھی، وہ ضرور دیکھے۔ جس نے دیکھ رکھی ہے، وہ پھر دیکھے۔

ملک الموت کے لیے، عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن، والا معاملہ ہے۔ مسٹر جو بلیک ہر ایک سے مختلف نوعیت کے سوال کرتا ہے تا کہ ان چار دنوں میں ’جیون‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکے۔

فلم کے بیچ میں ایک ایسا مقام آتا ہے کہ بل پیرش کا بڑا داماد، فرشتۂ مرگ کے بہروپ کو بتاتا ہے، اس کی بیوی اس سے بہت پیار کرتی ہے۔ مسٹر جو بلیک استفسار کرتا ہے، تمھیں کیسے پتا کہ تمھاری گھر والی تم سے پریم کرتی ہے؟ داماد جواب دیتا ہے، میری شریک حیات میری ہر خوبی و خامی جانتی ہے۔ میرا کوئی راز ایسا نہیں، جو میری اہلیہ کے لیے بھید ہو۔ میں سمجھتا ہوں، جب کوئی آپ کو اندر باہر سے جانتا ہو، پھر بھی آپ سے الفت رکھتا ہو، تو یہی حقیقی محبت ہے۔

داستان سے یہ سبق لیتے میں اش اش کر اٹھا، اور کھڑے پیر اپنے آپ سے عہد کیا کہ ہونے والی جیون ساتھی سے کبھی کذب بیانی نہیں کروں گا۔ ہر دم راست گوئی سے کام لوں ‌ گا۔

شادی کے سات آٹھ مہینے بعد ایک ٹی وی سیریل کی رکارڈنگز کرتے، ڈرامے کی ہیروئن۔ سانچ مجھے اپنی شریک حیات سے بولنا تھا، آپ سے نہیں۔ تو اس واقعے کو لے کر کے اپنے اپ سے کیا وعدہ نباہنے چلا۔ ظن غالب یہ ہے کہ صداقت ہر عہد میں کم یاب رہی ہے۔

سانچ برابر تپ نہیں اور جھوٹ برابر پاپ
جاکے من میں پاپ ہے، تاکے من میں آپ
خود کو کٹہرے میں کھڑا کر لیا اور زوجہ سے تمام تر احوال بیان کر دیا۔
سانچ کہے سو مارا جائے، جھوٹ کہے لڈو کھائے۔

مجرم نے اپنی صفائی میں اس پہلو پہ بار بار زور دیا، ”دیکھو! میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ چاہتا تو چھپا لیتا لیکن صاف صاف کہ دیا۔ تمھیں کسی اور نے تو آ کے یہ اطلاع نہیں دی! ؟ میں نے ہی یہ خبر دی ہے۔“

سچ ہے کہ سچا سب کے من سے اترتا ہے، لیکن یہ بھی ہے کہ سانچ وہ ہے جو آنچ کو سہے۔ فلمیں دیکھ کر پند لینا اور ہڈ بیتی سے نقدی حاصل کرنا کچھ اور طرح کا مال ہے۔ سچ وہ دھوبی ہے، جو میل نکالنے کے لیے آتما کو پٹکا مارتا ہے۔ من کو اجلا کرتا ہے۔ ضمیر کا ریشم ملائم کرتا ہے اور راست گوئی کی شان یہ ہے کہ سر بلند کرتی ہے۔

فلم ”میٹ جو بلیک“ سے فقط سچ کہنے ہی کا مقصد نہیں لیا، یہ بھی سیکھا کہ حیات ان لمحوں کا نام ہے، جو نابودی کو دیکھتے، آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ بنا ذہن ہر زور ڈالے۔ از خود۔ فنا کے پلک جھپکتے میں جو عکس آنکھ کی پتلی میں جم جانے ہیں، یہی ثانیے تمام عمر کا نفع ہیں۔ خود بہ خود تصویر ہو جانے والے یہ دقیقے ہی زیست کا ثمر ہیں۔ یہی لحظے حق ہیں، یہ پل سانچ ہیں۔ اس کے سوا بچ رہ جانے والا برابر کھوٹ۔ رہا سہا، بچا کھچا سراسر مایا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran