نوید افکاری: ایران میں کن جرائم پر سزائے موت دی جاتی ہے؟


ایران

بین الاقوامی برادری ایران میں بڑھتی ہوئی پھانسیوں پر سخت تنقید کرتی رہتی ہے

دنیا کے بیشتر ممالک میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے اور اب اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا مگر بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں اب بھی سزائے موت کے قوانین موجود ہیں۔ ایران کا شمار ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران میں پھانسیوں کے خلاف عوامی آرا، بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھرپور ردِعمل آتا رہتا ہے۔

حال ہی میں ایران میں قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے اپنے عالمی شہرت یافتہ پہلوان نوید افکاری کو پھانسی دی گئی اس کے باوجود کہ ان کی سزا میں کمی اور انھیں پھانسی نہ دینے کے حوالے سے بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے رحم کی اپیلیں بھی کی گئی تھیں۔

27 سالہ نوید افکاری پر سنہ 2018 کے ہنگاموں کے دوران ایک نجی محافظ کو ہلاک کرنے کا الزام تھا جبکہ نوید کا کہنا تھا کہ اُن پر تشدد کر کے انھیں اس جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایران نے عالمی اپیلوں کے باوجود اپنے ریسلر کو پھانسی دے دی

’ایران میں تین مجرم بچوں کو پھانسی کی سزا‘

ایران میں خاتون کو پھانسی دیے جانے کا خدشہ

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نوید افکاری کی پھانسی کو ’انصاف کے ساتھ مذاق‘ قرار دیا تھا۔

چند مبصرین کا خیال ہے کہ ایران کی حکومت پھانسی کی سزا کو اپنے خلاف اٹھنے والی مزاحمت دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

حالیہ برسوں میں موت کی سزا کے خلاف ایران میں احتجاج نئی شکل اختیار کر گیا ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2020 میں سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے ایران میں تین نوجوانوں کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کی سزائے موت کو ختم کیا جائے۔

اس رپورٹ میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ایران میں کن جرائم کی قانونی سزا موت ہے۔

ایرانی قوانین میں موت کی سزا کن بنیادوں پر دی جاتی ہے؟

ایران

ایران میں ‘زمین پر کرپشن’ بھی ایک قابلِ پھانسی جرم ہے

ایران میں موت کی سزا شیعہ فقہ کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن، سنت اور اسلامی قوانین کے تحت دی جاتی ہے۔

چند جرائم میں سزائے موت ’شریعت‘ کے قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے جبکہ کچھ میں ’تعزیر‘ کے تحت دی جاتی ہے۔ حدود سے متعلقہ قوانین میں سزا کے معیار اور مقدار کا تعین اسلامی قانون کے تحت کیا جاتا ہے اور عدلیہ اور اس کے ججوں کا اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

حد کی سزا کے برعکس اسلامی قانون ’تعزیر‘ کے تحت دی جانے والی سزا کی تفصیل بیان نہیں کرتا اور یہ اسلامی حکومت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کا تعین کس طرح کرتی ہے، یعنی سزا کیسی اور کتنی ہو گی۔

اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو سزائے موت شریعہ کے تحت دی جاتی ہے جبکہ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث افراد کو موت کی سزا تعزیر کے تحت دی جاتی ہے۔

ایران میں کن جرائم کی سزا موت ہے؟

ایران میں چار قسم کے جرائم ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔

ان میں قتلِ عمد یعنی کسی انسان کو جانتے بوجھتے قتل کرنا، جنسی جرائم جیسا کہ ریپ وغیرہ، مرتد ہونا یا پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنا اور فساد فی الارض یا زمین پر فساد برپا کرنا (یہ ایک ایسا جرم ہے جس کا دامن بہت وسیع ہے اور اس کی تشریح کئی طرح سے کی جا سکتی ہے)۔ اس کے علاوہ اسلامی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو بھی موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔

ایران میں قتلِ عمد یعنی جانتے بوجھتے ہوئے کسی کی جان لینے کی سزا موت ہے تاہم اگر مقتول کے لواحقین قاتل کو معاف کر دیں تو اس کی جان بچ سکتی ہے۔

سوچ سمجھ کر قتل کرنے کا جرم ایسا ہے جس میں اسلامی حکومت کو بدلے کا فیصلہ نہیں کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قاتل کی پھانسی روکنا صرف مقتول کے لواحقین کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، لیکن یہاں بھی غیر معمولی کیسز ہوتے ہیں جہاں حکومت معاف نہیں کر سکتی۔

موت کی سزا کے تین جرائم جن میں مرتد ہونا، پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنا اور سکیورٹی سے جڑے ہوئے جرائم شامل ہیں اِن میں عدالت اسلامی جمہوریہ ایران کا سب سے سخت ترین قانون استعمال کرتی ہے جو کہ موت کی سزا ہے۔

اس کے علاوہ ایران میں ایک اور خطرناک جرم بھی ہے جس میں موت کی سزا دی جاتی ہے اور وہ ’فساد فی الارض‘ ہے۔

اس جرم کی ایرانی قانون میں دی گئی تعریف کے مطابق، ’کوئی بھی شخص جو معاشرے کے ارکان کی صحت اور جسمانی سالمیت، ملک کی داخلی یا بیرونی سلامتی کے خلاف جرم کرتا ہے، افواہیں پھیلاتا ہے، ملکی معیشت کو درہم برہم کرتا ہے۔ آتش زنی اور تباہی، زہریلے اور خطرناک اور جان لیوا مادوں کے پھیلاؤ کا مرتکب ہوتا ہے یا بدعنوانی اور جسم فروشی کا کاروبار کرتا ہے جس سے عوامی نظم و ضبط میں سخت خلل لایا جائے تو وہ زمین پر فساد پھیلانے والا سمجھا جائے گا اور اسے سزائے موت دی جائے گی۔‘

سزائے موت سے عارضی استثنا کسے دیا جاتا ہے؟

ایران

حاملہ عورت اور 18 سال سے کم عمر بچے کی سزائے موت کچھ عرصہ کے لیے روک دی جاتی ہے

18 سال کی عمر سے کم بچوں اور حاملہ عورتوں کی سزائے موت کو عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے تاہم یہ سزا ختم نہیں ہوتی اور بعد میں ایران کے اسلامی قوانین کے تحت ان پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی بچہ ایسا جرم کرتا ہے جس کی سزا موت ہے تو اس کی سزا پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا جب تک وہ قانون کے مطابق بالغ نہیں ہو جاتا۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے دوران اگر مقتول کے لواحقین اسے معاف نہیں کرتے تو اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔

اسی طرح حاملہ عورت کے کیس میں پھانسی روک دی جائے گی اور بچے کی پیدائش کے دو سال تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا تاکہ ماں بچے کو دودھ پلا سکے، لیکن اس کے بعد قانون میں ایسی کوئی شق نہیں کہ پھانسی کو روکا جا سکے۔

کون سے ایسے جرائم ہیں جن پر سزائے موت ختم کر دی گئی؟

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ایران ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں اور انسانی حقوق کی کونسل اور جنرل اسمبلی اس کی مذمت کرتی رہتی ہیں۔ ایران میں سزائے موت پانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد وہ ہوتی ہے جن کو منشیات کے مقدمات کا سامنا ہے۔

سنہ 2017 میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ نے بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ منشیات کے مقدمات میں سزائے موت کو ختم کر دیا جائے۔

اسلامی مجلس شوریٰ نے انسداد منشیات کے قانون میں ترمیم کی اور اس طرح کے جرائم میں سزائے موت کو ختم کیا، لیکن یہاں بھی منشیات فروشوں کے گروپوں کے سرغنہ کے لیے، جو اسلحے کی سمگلنگ میں بھی شامل ہوں، کوئی معافی نہیں ہے۔

’صوابدیدی‘ سزائے موت کیا ہے؟

’صوابدیدی‘ سزائے موت یا ماورائے عدالت قتل وہ سزا ہے جو حکومت کسی عدالتی فیصلے کے بغیر دیتی ہے یا اس پر عمل درآمد یقینی بناتی ہے۔ اس میں ملزم کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی اسے دفاع کا موقع دیا جاتا ہے۔

ماورائے عدالت قتل میں حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے کسی انسان کی جان لیتی ہے جبکہ سوچ سمجھ کر قتل فرد یا لوگ مل کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رازداری سے کرتے ہیں۔

ایران

ایران میں بعض اوقات حکومت صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بھی لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے سزائے موت دے دیتی ہے

سزائے موت پر عمل درآمد کا طریقہ کیا ہے؟

اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کوئی عدالت کسی شخص کو سزا سناتی ہے، تو اسے حق ہے کہ وہ کسی اور عدالت میں اس کے خلاف اپیل کرے۔ اگر اپیل سننے والی عدالت بھی پہلے فیصلے کو قائم رکھتی ہے تو اس کیس کو سپریم کورٹ میں باقاعدہ نظر ثانی کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔

اگر یہ مقدمہ قصاص سے متعلق ہے تو اس کو لازمی رہبر اعلیٰ کو بھیجنا ہوتا ہے جو کہ ایران کے قانون کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں۔ ان کی اجازت ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر حالت میں عدلیہ کے سربراہ کی منظوری بھی ضروری ہے۔

اگر مقدمہ بدلے کا ہے، تو معاف کرنے یا سزا پر قائم رہنے کا حتمی فیصلہ مقتول کے لواحقین کا ہے۔ لیکن اگر موت کی سزا کا تعلق حد یا تعزیر سے ہے تو مجرم معافی کے لیے درخواست کر سکتا ہے۔ اگر ایمنسٹی کمیشن اس کی معافی قبول کر لیتا ہے تو اس کی سزا پر عمل درآمد روک دیا جائے گا۔

عدلیہ پر لازم ہے کہ وہ مجرم کے وکیل کو سزا پر عمل درآمد ہونے سے کم از کم 48 گھنٹے پہلے مطلع کرے اور بدلے کے مقدمات میں مقتول کے خاندان اور مجرم کے وکیل کو بھی۔

لیکن ان سب حالتوں میں جو اوپر بیان کی گئی ہیں، رہبرِ اعلیٰ، عدلیہ کے سربراہ اور کئی مقدمات میں عدلیہ کے اعلیٰ اہلکار فیصلے کے متعلق اپیل کر سکتے ہیں اور مقدمے کی دوبارہ سنوائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں سزائے موت پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو گا جب مقدمہ دوبارہ شروع نہیں ہو جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp