خلیل الرحمٰن قمر کا غصہ ریپ کے خلاف نکلنے والی عورتوں پر اور ریپسٹ پر خاموشی


موٹر وے ریپ کیس کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خواتین کی شمولیت پر مخصوص ذہنیت کے حامل افراد خاصے چراغ پا ہوئے۔ ڈراما نویس خلیل الرحمٰن قمر جو خواتین سے متعلق متنازع بیانات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ایک بار پھر میدان میں آ گئے اور ایسی زبان استعمال کی جسے کسی طور مہذب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ عورتیں کس کی اجازت سے پہنچی ہیں اور دندناتی پھر رہی ہیں، چیخ چلا رہی ہیں، یہ بھانڈوں کی فوج ہے۔ انہوں نے عورتوں سے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتی ہیں کہ آپ بوائے فرینڈ کے ساتھ کمرے میں چلی جائیں اور باپ باہر کھڑا ہو جائے پہرے کے لیے؟

انہوں نے اسی قسم کی کچھ اور باتیں بھی کیں۔ سوال یہ ہے کہ موٹر وے پر درندگی کے واقعے کے بعد اگر خواتین احتجاج کے لیے نکلیں تو انہیں غصہ کیوں آیا؟ اتنا غصہ انہیں ان درندوں پر کیوں نہ آیا جو انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔ انہوں نے کسی چینل پر ان کے خلاف ایسی زبان استعمال کیوں نہیں کی؟

ایسا لگتا ہے وہ بھی اسی نظریے کے حامی ہیں جس میں ریپ کیسز میں عورتوں کو ہی قصوروار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے نہایت بودے اور کمزور دلائل دیے جاتے ہیں مثلاً عورتوں کا لباس ان کے ریپ کی وجہ ہے۔ اول تو ہر انسان یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے، دوئم یہ کہ اگر وطن عزیز اور دنیا بھر میں ہونے والے ریپ کیسز کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایسے کیسز میں لباس کا کوئی کردار نہیں ہے تاہم اس میں ریپسٹ کے ذہن کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ریپ کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ان واقعات کے خلاف احتجاج کے لیے خواتین سامنے آئی ہیں تو ان کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں برا بھلا کہنا بیمار ذہن کی علامت ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم ریپسٹ کے ساتھ ہیں یا وکٹم کے۔

اگر کوئی ریپسٹ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہے یا عورتوں کو ان کے ریپ کا ذمہ دار سمجھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے اندر ایک ریپسٹ موجود ہے جسے ابھی تک موقع نہیں ملا۔ در اصل یہ نرگسیت کے شکار متعفن ذہن کی سوچ ہے۔ ایک ایسا ذہن جس میں غلاظت بھری ہے لیکن وہ اس سے اٹھنے والی بد بو کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ ریپ تو ہوا لیکن اس میں قصور لڑکیوں کا ہے، بن ٹھن کر نکلتی کیوں ہیں؟ یہ ایسا لباس پہنتی کیوں ہیں؟ اور اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ باہر آتی ہی کیوں ہیں؟ اگر کوئی گلاب کے پھول سے کہے کہ اے گلاب تم اتنے پیارے کیوں ہو تو یہ احمقانہ بات ہو گی۔ ہر انسان اچھا یا خوب صورت دکھائی دینا چاہتا ہے۔ کیا کوئی ایسا مرد ہے جو باہر نکلنے سے پہلے مٹھی بھر خاک اپنے سر میں ڈال لے، کسی گھڑے سے نکالے ہوئے سلوٹوں بھرے کپڑے پہنے اور توے کی کالک اپنے منہ پر مل لے۔ عورت ذرا میک اپ کر لے تو بقول ان کے یہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔

مگر یہ جواز انتہائی فضول ہے کیوں کہ پھر بلیوں، بکریوں، بھینسوں اور مدرسوں کے لڑکوں کے لیے کیا دلیل ہے؟ ننھی کلیوں اور لاشوں کے لیے کیا عذر ہے ان کے پاس؟

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے متعفن سوچ جس تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں درندگی کے واقعات میں خوفناک اضافہ متوقع ہے۔ سوشل میڈیا پر کمنٹس ملاحظہ کیے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کثیر تعداد میں ایسے اذہان موجود ہیں۔ ریپ کے ہزاروں واقعات میں سے گنتی میں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں میں بھی ریپ کا شکار ہونے والی عورتوں سے بار بار جس طرح تضحیک آمیز انداز میں سوالات کیے جاتے ہیں اور لفظوں، رویے اور طنزیہ نظروں سے بار بار ریپ کیا جاتا ہے اسی وجہ سے بے شمار عورتیں یہ ظلم خاموشی سے سہ لیتی ہیں اور انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے سے گریز کرتی ہیں۔

اگر ایسے واقعات کو روکنا ہے اس نرگسیت زدہ سوچ کو بدلنا ہو گا۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہر ریپسٹ کو ہر صورت میں سزا ملے اور مظلوم کی عزت پر حرف نہ آئے۔ جب ہر ریپسٹ کو یہ معلوم ہو گا کہ وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا اور اس جرم کے بعد وہ معاشرے میں ملعون ٹھہرے گا تو وہ اپنے متعفن ذہن سے اٹھنے والی بد بو کو محسوس کر سکے گا۔

ایک آدھ ریپسٹ کو خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ دی جائے اس طرح ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو زینب کیس کے مجرم عمران کی پھانسی والے روز ہی تین اور لڑکیوں کا ریپ نہ ہوتا۔ اس صورت حال میں مثبت سوچ رکھنے والے خاموش افراد کو سامنے آنا چاہیے۔ ریپ کے خلاف احتجاج کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔ مظلوم کو قصوروار ٹھہرانے والوں کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے تا کہ معاشرے کی مجموعی سوچ میں تبدیلی آئے، وکٹم انصاف کے حصول کے لیے آواز اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے اور عدلیہ ریپسٹ کی سزا کو یقینی بنائے تو ریپ کے واقعات میں کمی بعید از قیاس نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).