کون وسعت اللہ خان!


ابھی کچھ مہینے پہلے کی بات ہے کہ وسعت اللہ خان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وہ خبر خوب نمایاں تھی جس کے وجہ سے سوچنے والے، سمجھنے والے اور سمجھانے والے سبھی، یکساں سطح پر شدید تشویش سے دو چار تھے اور یک زبان، ان کی صحت و تندرستی اور طویل عمری کے لئے ہم آواز تھے کیوں کہ معاملہ دل کا تھا۔

آج پھر وسعت اللہ خان خبروں میں زیر بحث ہیں اور مختلف پلیٹ فارم پر ان کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اور ان کے ماننے والوں، جاننے والوں اور چاہنے والوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہقینا ”یہاں بھی معا ملہ، پھر دل کا ہے۔

بہت سارے لوگوں کا ماننا ہے کہ وسعت اللہ نے ان کی دل شکنی کی ہے اور وسعت اللہ بھی وہ، جو ان کے دل میں رہتا ہے۔ ردعمل کا یہ سلسلہ مختلف سطح اور نوعیت کے جذبات کے اظہار پر مشتمل ہے۔ حساس موضوع کا ردعمل حساس نہ ہو، یہ کیوں کر ممکن ہے۔ دھرتی کا وجود بجا طور پر روح کے مترادف ہے۔ اس کے حوالے سے کسی بھی قسم کا مبہم یا واضح اشارہ، دھرتی کے باسیوں کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے اور منطقی طور پر، ایسا ہی ہونا چاہیے۔

وسعت اللہ کے ادا کردہ جملوں سے سندھ دھرتی سے آنے والا ردعمل فطری اور سیاسی شعور کی علامت سمجھا جانا چاہیے۔ یہاں وسعت اللہ کی ( روایتی) معاملہ فہمی، کشادہ دلی اور فراست کو اب سراہا جانا چاہیے کہ ایسے مقامات پر دل شکنی کا ممکنہ دستیاب مرہم، اپنی ( شعوری یا غیر شعوری ) غلطی کا اعتراف ہے، جس کا وسعت اللہ نے بروقت اور برملا اظہار کیا ہے۔

وسعت اللہ سے جامعہ کراچی کی اپنی دیرینہ اور گہری دوستی سے قطع نظر، اگر میں انھیں غیر جانبداری سے، ایک غیر معمولی براڈ کاسٹر، ایک متاثر کن opinion leader اور ایک پسندیدہ میڈیا پرسن کے طور پر دیکھتا ہوں، تو میں انھیں ان کی تحریر اور تقریر کے آئنے میں جھانکتے ہوئے، پورے وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ اگر لفظ وسعت، وسیع سے اخذ کیا گیا ہے تو یقین مانیے، وسعت اللہ خان، وسیع النظری اور وسیع القلبی سے ماخوز ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں افراد اپنے گرد آلود نظریات اور آرا پر جان دے دیتے ہیں مگر مزید جاننے کے لئے خود کو، تجسس اور جستجو کے مشکل مرحلے پر لانے میں، آمادہ نہیں کر پاتے جبکہ وسعت اللہ وہ روشن چہرہ ہے جس نے ہمیشہ کسی رجحان اور جھکاؤ کو خاطر میں لائے بغیر، اعتدال اور متوازن راستہ اور نقطہ نظر اختیار کیا۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وسعت اللہ جیسی، میڈیا میں کم شخصیات ہوں گی جن کے اتنے مختلف الخیال، مختلف الفکر اور مختلف المزاج، ہم نوا ہوں۔ اس رنگارنگ یکجائی اور یکسوئی کی وجہ بلاشبہ یہی ہے کہ وسعت اللہ نے کنویں کا مینڈک بننے سے ہمیشہ انکار کیا اور اپنی پرواز بلند رکھنے کے لئے، اپنے گرد ایسی کوئی دیوار نہیں اٹھنے دی جس سے روشنی اور تازہ ہوا کے داخلے میں دشواری ہو۔

یقیناً یہ وہ وسعت اللہ خان ہے جس نے کسی موضوع، کسی پہلو اور کسی نکتے پر قلم اٹھایا ہو اور پڑھنے اور سننے والے نے اسے اپنے دل کی آواز نہ جانا ہو۔

یقیناً یہ وہ وسعت اللہ خان ہے جس نے سیاسی، ثقافتی، مذہبی، ادبی، علمی جس شعبہ ہائے زندگی کو اظہار خیال کے لئے منتخب کیا، توازن، دلیل اور دانش کا دامن نہ چھوڑا۔

یقیناً یہ وہ وسعت اللہ خان ہے جس نے بین الاقوامی، علاقائی، قومی، مقامی، بلدیاتی جس سطح پر جب قلم آزمائی کی، اپنی تحقیق کے لئے عقل و شعور اور انسان دوستی کو ہی کسوٹی بنایا۔

اور یقیناً یہ وہ وسعت اللہ خان ہے جس نے قریبا ”ایک سال پہلے Sindhu Vass conference میں integration of Indus people میں حصہ لیتے ہوئے ملک کے دوسرے حصوں کو قریب لانے کے لئے کہا تھا :

” ( گلگت کی ) شینا میں بھی کچھ الفاظ ایسے ہیں جو سندھی میں بھی ہیں۔ یہ ہے دریائے سندھ کے کنارے رہنے کا ثمر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم اس کو، جیسے میرے بچپن میں تہذیب جڑی ہوئی تھی پانچ ہزار سال سے، اب جوڑ لیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس سے tourism کو بھی ترقی مل سکتی ہے۔ اگر یہ ہمارا بین الا اقوامی وزیٹنگ کارڈ بن جائے، سندھو اور سندھو civilisation تو ظاہر ہے کہ اس سے پھر ہمیں economic factor خود ہی جوڑ دے گا“

بھٹائی سائیں نے سندھ دھرتی کے لئے کیا خوب کہا تھا، اس موقع پر دل میں اتر جانے والا یہ شعر، دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ :

سائینم سدائیں کریں سندھ سرکار
دوست توں دلدار عالم سبھ آباد کریں
اے میرے مولا، میرے وطن سندھ، کو ہمیشہ خوشحال رکھ،
اور سندھ کے ساتھ پوری دنیا کو بھی آباد رکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).