دریا کو راستہ دیں اور بڑے نقصان سے محفوظ رہیں


اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک عرض ضرور گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ جذبات کی رو میں بہہ جانے کے بجائے زمینی حقائق کو ذہن میں رکھ کر تحریر پڑھ لیجیے، ورنہ یہیں رد کیجئے۔ راقم نہیں چاہتا کہ کڑوا سچ سنتے ہوئے آپ کے جذبات مزید بھڑک اٹھیں اور راقم کو اپنے معزز قارئین سے الجھنے کی نوبت آ جائے۔

قارئین کرام! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ من حیث القوم ہم اپنی ذاتی مفاد کو قومی اور اجتماعی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، جو بعد میں نہ صرف ملکی مسائل کو بڑھا دیتے ہیں، بلکہ ہماری انفرادی نقصان کا سبب بھی بنتے ہے۔ ایک لمبی تمہید باندھنے سے اپنے موضوع سے ہٹ جانے سے بہتر ہے سیدھا اپنے اصل مدعا کی طرف آتے ہیں۔

قارئین کرام! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری خوبصورت وادی سوات کس طرح پے در پے آفتوں اور مصیبتوں کی زد میں ہے، لیکن ہم مشکلات سے نکلنے کی کوششیں تو ضرور کرتے ہیں، مگر سیکھنے کی تھوڑی سی بھی زحمت نہیں کر پاتے۔ سوات میں دہشت گردی، فوجی آپریشن، سیلاب، وبائی امراض اور اسی طرح کی دوسری مصیبتوں کا ہم نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی ان حالات سے نکلنے کے بعد یہ سوچنے کی کوشش تک نہیں کی کہ شاید ہم کہیں نہ کہیں ضد بازی یا جذبات میں ایسے غلط فیصلے تو نہیں کرچکے ہیں کہ جس کا خمیازہ ہم مسلسل نقصانات کی صورت بھگت رہے ہیں؟

مالاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا معاملہ، مینگورہ شہر کے اندرون سڑکوں کی کشادگی کی مخالفت، فلائی اوور کی تعمیر کی مخالفت، محکمہ جنگلات کے ساتھ دھینگا مشتی اور اب محکمہ آبپاشی کے حالیہ فیصلے پر اپنی ضد بازی اور ڈھیٹ پن کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا ہم جذبات کی رو میں بہہ کر کہیں غلط سمت تو نہیں جا رہے ہیں؟

محکمہ آبپاشی نے سوات کو مزید ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے اور سیاحت کو مزید پروان چڑھانے کی خاطر دریائے سوات کے کنارے سے غیرقانونی آبادیوں اور تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ طے پایا گیا کہ تجاوزات ہٹا کر دریائے سوات کی چوڑائی کو دو سو فٹ کیا جائے تاکہ تیز بہاؤ کی صورت میں بھی دریا بپھر نہ سکے اور سیلابی ریلوں کے خطروں کا باعث نہ بنے۔

مگر ہم ایک پھر بار ضد بازی پر اتر آئے اور سراپا احتجاج ہو گئے کہ سرکار کا ہماری ذاتی جائیدادوں میں مداخلت ہماری غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ دریا کنارے تجاوزات اس حد تک ختم نہیں ہو سکے کہ دریائے سوات میں پانی کا دباؤ کم ہو سکے۔ ہم نے بہ ظاہر اپنی ضد بھی پوری کرلی اور اپنی املاک کو بھی زیادہ نقصان سے بچایا، مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ تھوڑی سی تیز بارشوں سے دریائے سوات کا پھر سے بپھر گیا، جو درجنوں کے حساب سے جانی نقصان کا باعث بنا اور دریا کنارے آبادیوں، زرعی اراضی اور عمارات کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔

کیا ہی اچھا تھا کہ ہم ایک بڑے نقصان سے قبل اپنا تھوڑا سا نقصان برداشت کرلیتے اور دریائے سوات کو اس حد تک راستہ دیتے کہ وہ آبادیوں کی طرف نہ نکلتا۔ سیانے کہتے ہیں کہ ”نو نقد نہ تیرہ ادھار“ ٹھیک اسی طرح ہم نے اپنے ذاتی نو نقد کے ساتھ دریائے سوات پر قبضہ جما کر تیرہ ادھار والا گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اب دریائے سوات بپھر آیا ہے اور اپنا ادھار ہمارے نقد کے ساتھ بہا لے جا رہا ہے۔

ایسے فیصلوں پر نہ صرف بحیثیت قوم ہم پوری طرح دماغ کے گھوڑے دوڑا سکتے ہیں اور نہ ہماری حکومت بروقت اور بہتر فیصلے کرنے کی اہل ہے۔ محکمہ آبپاشی کا یہ ایکٹ مشرف دور میں منظور ہوا تھا، مگر جس پر حکومت نے نہ تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اور نہ بروقت عمل کر سکی۔

دریا پر مسلسل تجاوزات بڑھتی چلی گئیں، لوگ آپس میں جائیدادوں کی خرید و فروخت بھی کرتے رہیں، سرکار رجسٹری بھی جاری کرتی رہی، کسی کو دریا پر تجاوزات سے منع نہیں کیا گیا۔ جب بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہو گئیں، دریائے سوات تجاوزات کی زد میں آ گیا اور سیلاب کا سبب بننے لگا تو حکومت کو تب جا کے تجاوزات ہٹانے کی سوجھی۔

بہتری اسی میں ہے کہ حکومت قوانین بناتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور بحیثیت قوم ہمیں بھی ان فیصلوں پر غور کرتے ہوئے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔

اب حکومت کو بھی قوم کے تعمیر کردہ عمارات کا نقصان کا کسی ریلیف کی شکل میں ازالہ کرتے ہوئے دریائے سوات سے تمام تجاوزات کو ہٹا دینا چاہیے اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر ہو جائے۔
بدست اپیل ہیں کہ دریائے سوات کو راستہ دیجئے اور بڑے نقصان سے بچیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).