علامتی طور پر بے عنوان کالم


حکومت نے ابھی کچھ کیا ہو اور وہ غلط ہو تبھی تنقید کی جا سکتی ہے نا۔ اس بیچاری نے تو اب تک جو کیا، یا تو کر کے مکر جانا کیا یا جو کیا وہ ایسا کیا کہ اس پر طنز کیا جا سکتا ہے یا اس کا مضحکہ اڑایا جا سکتا ہے جیسے بارہ بھینسوں، لگژری کاروں کی جگہ دس سے بیس سال پرانی کاروں اور ناکارہ ہیلی کاپٹروں کی نیلامی کا اعلان کرنا یا پھر جو کہا تھا اس کی نفی کر کے تاویلیں پیش کرنا جیسے روٹ لگانے اور پروٹوکول دیے جانے سے متعلق تو ان پر ہنسا ہی جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اگر جذباتی ہونا ہو تو اظہار تاسف کیا جا سکتا ہے۔

معاشرے میں پھیلی برائیوں، نا انصافی، معاشی ناہمواری، عدم تحفظ، عسرت اور بے بسی کا رونا روئیں تو اس سے کیا ہوگا۔ کب سے چیخ پکار جاری ہے مگر یہ سب برائیاں ویسے کی ویسے ہی نہیں بلکہ روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی ہیں۔ جب دولت چار چار روپے فی کلو شکر کے حساب سے پانچ کروڑ لوگوں کے ہاتھ سے پانچ افراد کے ہاتھوں میں ایک ہی روز میں چار چار کروڑ روپے ہو کر پہنچ جائے گی تو خلیج یونہی گہری ہوگی۔

مہنگائی کا یہ عذاب تھمنے میں آنے والا نہیں ہے۔ حکمران امرا یا زمینداروں پر براہ راست ٹیکس اس لیے عائد نہیں کرنے کے کیونکہ وہ انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتے مگر روزمرہ کی اشیائے ضرورت پر بالواسطہ ٹیکس لگانے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔ ایک حزب مخالف ہوا کرتی تھی سو وہ اب تک تو منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر کے بیٹھی ہوئی لگتی ہے۔ حکومت پچھلی حکومت کی برائیاں اور گلے کرنے سے فرصت پائے گی تو کچھ ایسا بھی کر سکے گی جو اس کی اپنی پالیسی کے مطابق ہو۔

بکھیڑے دو چار نہیں کئی ہیں۔ آئی ایم ایف سے مدد مانگنے سے لے کر افغان مسئلے کے حل میں معاونت تک۔ ہندوستان سے تعلقات معمول پر لانے سے لے کر لوگوں کو خط غربت سے بلند کرنے تک۔ معلوم نہیں کیوں گزشتہ بہتر برسوں سے جو بھی برسراقتدار آیا وہ جانے والوں کی برائیاں کرتا آیا۔ کون بھلڑا تھا، کچھ بھی معلوم نہیں ہو پایا ہے۔

فوجی آمروں کے اقتدار کے 33 برسوں کے عرصے کو ویسے ہی منہا کر دیں۔ باقی بچے 39 برس۔ 1956 تک ملک ویسے بھی برطانوی ڈومینین تھا جس میں گورنر جنرل کی تقرری ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے ہوا کرتی تھی تو 9 برس یہ نکال دیجیے۔ باقی بچ رہے 30 برس۔ مشرقی پاکستان جدا ہو جانے کے بعد سنبھلنے اور نوے ہزار گرفتار فوجی قیدیوں کو واپس لانے کے تین برس بھی بھول جائیے۔ یوں باقی بچ رہے 27 سال۔ دو بار بے نظیر بھٹو کی حکومت اور دو ہی بار نواز شریف کی حکومت کو اکھاڑا جانا، اس عرصے کو بھی منہا کر دیجیے تو بمشکل بیس سال بچتے ہیں جس دوران عوام کی منتخب کردہ حکومتیں کچھ کر پائیں یا پہلے سے ہوئے کچھ کو بگاڑ پائیں۔

وہ تو بھلا ہو 1980 کی دہائی کے دوران دنیا میں آئے ایس ٹی آر یعنی سائنسی تکنیکی انقلاب کا اور کرہ ارض کا احاطہ کیے ہوئے صارفین کے سماج کا کہ ہمارا ملک پتھر کے دور میں واپس نہیں گیا کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو منڈیاں چاہیے ہوتی ہیں۔

اس دوران افغانستان میں ہوئی اتھل پتھل نے عالمی دہشت گردی کو جنم دیا اور مشرق وسطٰی میں نام نہاد جمہوریت کو پروان چڑھائے جانے کی خاطر دنیا کی واحد بڑی قوت کی جانب سے برپا کیے گئے عسکری انقلابات نے سفاک ترین قوت داعش کی داغ بیل ڈالنے کا کام کیا۔

طالبان کی ایک شاخ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ملک میں لوگوں کا قتل عام کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد جب پانی سر سے گزر گیا تو سول حکومت کے تحت فوج نے ضرب عضب کے نام سے کارروائی کا آغاز کیا اور اب جب ردالفساد کے نام سے ایک اور فوجی کارروائی کو آگے بڑھایا گیا تو کہیں جا کر افغانستان کی جنگ میں ملوث ہوئی اور بعد میں طالبان کے خلاف کارروائیوں میں امریکہ کا ساتھ دیتی پاکستانی فوج اپنی تعظیم بمشکل بحال کر پائی تو خیال آیا کہ کیوں نہ اب مل کر حکومت کی جائے۔

عوام کو نہ فوج سے گلہ ہوتا ہے نہ سیاستدانوں سے انہیں اپنے روٹی دال کی فکر ہلکان کیے رکھتی ہے۔ پھر جب کوئی ایک پارٹی کوئی نعرہ لے کے اٹھتی ہے جو لوگوں کے دل کو لگتا ہے چنانچہ وہ اس پارٹی بلکہ اس پارٹی کے رہنما کے نام پر جان قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، محض اس لیے کہ شاید وہ ہی انہیں ان کے عذابوں سے باہر نکال پائے۔ پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے ”روٹی، کپڑا اور مکان۔ مانگ رہا ہے ہر انسان“ پر بھروسا کیا اور اب 48 برس بعد عمران خان کی ”تبدیلی“ کے نعرے کی ڈوری سے بندھے بیٹھے ہیں۔

مگر آج 1971 نہیں بلکہ 2021 ہونے کو ہے۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی حکومت ہے جو ”امیریکہ فرسٹ“ کے نعرے پر منتخب ہو کر برسراقتدار آئے ہیں۔ ہندوستان جو سوویت یونین کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا تھا آج امریکہ کے دل کا سرور ہے۔ چین جو 1970 کی دہائی تک اپنے انقلاب کو سنبھالنے میں مصروف تھا آج خطے کے ملکوں اور سمندروں میں اپنا مقام بنانے میں جتا ہوا ہے۔ امریکہ کو اس کی یہ ادا نہیں بھا رہی۔ ہم چین پر بے حد تکیہ کیے ہوئے ہیں اور امریکہ کے پلو سے بھی چمٹے ہوئے ہیں۔

وسط ایشیا اب سوویت یونین کا حصہ نہیں رہا۔ روس کی امریکہ اور مغرب سے تب ٹھن گئی جب اس نے اپنا ہی یوکرین کو دیا ہوا حصہ کسی طرح سے اپنے ساتھ ملحق کر لیا۔ وارسا پیکٹ کب کا تمام ہو چکا مگر نیٹو قائم و دائم ہے اور روس کی سرحد کے ساتھ ساتھ خود کو مضبوط کر چکی ہے۔ تب یورپ کے ملک علیحدہ علیحدہ تھے اب وہ یورپی یونین کی شکل میں مجتمع ہیں۔ ان دنوں ملٹی نیشنل کارپوریشنیں نہ ہونے کے برابر تھیں آج یہی بڑی کمپنیاں ملکوں کے مقدر کا فیصلہ کرواتی ہیں۔

پاکستان کے مغرب میں واقع دونوں ملک اپنی اپنی طرح کے خلفشار کا شکار ہیں، ویسے بھی ان کا پاکستان سے متعلق رویہ کوئی اس قدر دوستانہ نہیں ہے۔

جب تک ہمسایہ ملکوں سے دوستی، ملک میں دولت کی تقسیم کو متناسب کیے جانے، اپنے وسائل پر بھروسا کر کے سختی کے ساتھ انہیں بروئے کار لانے کی سعی کرنے، انصاف سے وابستہ اداروں کو سریع اور منصفانہ بنائے جانے، تعلیم اور صحت تک عوام کو مفت رسائی دیے جانے اور ملک کو جنگی جنون سے نکالنے کے ساتھ ساتھ امن لانے اور ملک کی فضا کو صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار بنانے کی باتیں کیے جانا اور ان سے متعلق سنجیدہ ہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی تب تک کسی بھی عنوان سے کچھ بھی کہنا بے سود ہوگا، اسی لیے آج کا کالم علامتی طور پر بے عنوان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).